سوال: نبی کریمﷺکے وصال کے بعد سے ایک سوسال تک زمانہ خیرالقرون میں جوصحابہ وتابعین وتبع تابعین گزرے ہیں۔ وہ کس امام کے مقلدتھے
جواب: وہ لوگ جو درجۂ اجتہاد کونہ پہنچے تھےمقلدتھے۔کیوںکہ اللہ پاک اوراس کے رسولﷺ نے تقلیدمجتہدین کرنے کاحکم دیاہے اور تقلیدنبی کریمﷺ کے حیات میں جاری تھی،چنانچہ آپ نے حضرت معاذرضی اللہ عنہ کویمن کامعلم اورامیربناکربھیجا۔جومسئلہ یمن والوں کو دریافت کرتے تھے۔اوراس پرعمل کرتے تھے۔اہل یمن اس مسئلہ کی دلیل دریافت کرتے تھے نہ حضرت معاذرضی اللہ عنہ ان کودلیل بیان کرتے تھے۔یہی تقلیدشخصی بھی ہےاسی کوتم کفروشرک بھی کہتے ہیں۔ العیاذباللہ حضورنبی کریمﷺ کوبھی کافرومشرک کہتے ہو۔؟؟؟؟
کیوںکہ حضرت نبی کریمﷺنے حضرت معاذ کویمن کے لوگوں کے تقلید کے لئے بھیجاہے۔حضرت معاذ مقلَد( بفتح
لام)یمن کے لوگ مقلِد(بکسرلام)ہوئےجوکوئی کسی کفر پرراضی رہے۔وہ بھی کافرہوتاہے۔حضرت معاذ کامذہب مدون نہیں ہواتھا اس لئے ان کے طرف لوگوں کونسبت نہیں تقلیدشخصی کے لئے مذہب کا مدون ہوناضروری ہے سوسال سے پہلے کسی مذہب کی تدوین نہیں ہوئی تھی۔اس لئے لوگ کسی خاص مجتہد کی طرف منسوب نہیں تھے۔مگرمقلد ضرورتھے۔آپ کومعلوم ہی نہیں کہ خیرالقرون کس کوکہتے ہیں آپ نے خیرالقرون کوسوسال کے اندرہی کو منحصرکردیا۔آپ کوچاروں اماموں کی پیدائش ،تاریخ بھی معلوم نہیں۔ورنہ آپ سوسال سے پہلے لوگ کس امام کے مقلد تھے ہرگزدریافت نہ کرتے۔
امام اعظم تابعین میں سے ہیں۔ تبع تابعین کے زمانہ میں چاروں مذہب مدون ہوچکے تھے۔مسلمان ان چاروں مذہبوں میں منقسم ہوچکے تھے جوباقی تھے۔وہ بھی کسی امام کے طرف منسوب تھے چندروزکے بعد باقی سب انہیں چارمذہبوں میں منضم ہوگئے۔ اس پر بارہ سو سے زائد برس گزرگئے۔پھرنجدسے شیطان کاسینگ نکلا ۔ اصلاح ہوچکنے کے بعد اس نے مسلمانوں میں فسادقائم کیا۔مسلمانوں پرجہاد کاحکم جاری کیا۔مسلمانوں کے جان ومال کولوٹنا قتل کرنامباح سمجھا چارمذہب والوں کومشرک کہا۔اسی قرن شیطان کے مقلد وپیرواس زمانے کے اہل حدیث ہیں۔
تمہارے سوالات کے جوابات صدہاوقت علمادے چکے ہیں مگرتمہاری عادت ہے وہی سوالات باربار دہراتے ہو۔ تمام علما ،تمام فقہا ،تمام محدثین،تمام پیشوائے طریقت وحقیقت ومعرفت انہیں چار مذہبوں کے متبع اورمقلدتھے۔تم عوام کودھوکے دے کران پیشوائے دین سے بدظن کراتے ہو۔تم اپنی عاقبت بگاڑتے ہو۔ یہ مذاہب اربعہ ہمیشہ تاقیام قیامت اللہ پاک کے فضل وکرم سے قائم ودائم رہیں گے۔
ہمہ شیرانِ جہاں بستۂ ایں سلسلہ اند
و آں سگ کیست کہ بگلد ایں سلسلہ را
مہ نور می فشاند
سگ عوعومی کند
آپ قرآن وحدیث سے ثابت کریں کہ صحابہ تابعین وتبع تابعین کےزمانے میں فلاں آدمی غیرمقلدتھایارسول اللہ ﷺ اہل حدیث کہلاتے تھے یاصحابہ کرام ۔ کیا اس وقت اہل حدیث کہلانے والے بدعتی ہیں یانہیں ۔اگر ہے توتصدیق کرو۔اورامید ہے کہ آپ بھی ان کو بدعتی ہی کہیں گے۔ آپ کا یہ قانون ہے۔جوکام حضرت رسول اللہ ﷺنہ کیا نہ حکم دیا۔وہ بدعت شنیع ہے ۔اس آپ کے قاعدے کی رو سے اس وقت کے تمام اہل حدیث کہلانے والے بدعتی ہیں۔
سوال: امام اعظم کی کوئی تصنیف بتلادیں کہ جس میں انہوں نے خود اپنےقلم سے اپنے مذہب کانام حنفی تجویزکیاہو۔ اوراپنی تقلیدکاحکم دیاہو
جواب: العیاذباللہ!امام اعظم نہ خدا تھے نہ رسولﷺ، جس نے ان کوخدایارسول سمجھاتواسلام سے خارج ہے۔ کیونکہ اپنی پیروی ،اتبع کرانے کاحکم دینا یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے یا اس کے رسولﷺ کی۔ حضرت امام اعظم حضرت رسول اللہ ﷺکے امتی اوربرگزیدہ مجتہدہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺکے کلام کوسمجھا اوردوسروں کوسمجھایا،۔
پہلے آپ بتلادیں کہ حضرت نبی کریمﷺنے اپنے دست مبارک سے جوقرآن لکھاے وہ کونساہے؟؟یاوہ حدیث بتلاؤجوحضرت ابوبکر صدیق یاحضرت عمرفاروق،یاحضرت عثمان غنی، یاحضرت علی؇ نے لکھاہو۔ اگر اس کوثابت نہ کریں اورہرگزنہ کرسکیں گے۔کیاپھرآپ کوقرآن مجید پرایمان ہے یانہیں؟ اورحدیث کی کتابوں پرخاص کربخاری شریف اور باقی پانچ پرایمان ہے یانہیں۔آپ لوگوں نے جمعہ کی دوسری اذاں کویہ سمجھ کرکہ یہ بدعت عثمانی ہے اس کوچھوڑدیا ۔یہ قرآن مجیدموجودشکل پرہے یہ بھی تومصحف عثمانی ہےاس کوکیوں قبول کیا؟آپ کولازم ہے کہ وہ اس صورت وشکل پرقرآن مجید پیش کرے جس صورت وشکل پرقرآن مجیدپیش کرے۔جس صورت وشکل پرعہدِ رسالت میں موجود تھااورامام بخاری کی بدعت کیوں قبول کیا؟؟؟؟
امام اعظم کوئی منشی نہ تھے وہ مجتہدتھے۔وہ قرآن و حدیث سے مسائل شرعی استنباط کرتے تھے۔آپ کے شاگرد نقل کرتے تھے۔چنانچہ محررمذہب حضرت امام محمد ہیں۔جنہوں نے ظاہرالروایت یعنی چھ کتابوں کوکہتے ہیں۔حضرت امام اعظم سے بلاواسطہ لکھے ہیں۔ یہ مسائ جوحنفی مذہب میں معمول بہاہیں۔ وہ سب امام اعظم سے بطورتواترہمارے تک پہنچے ہیں۔ جن کے واسطے سینکڑوں کتابیں موجودہیں۔گرچہ تواترکے لئے کتابوں کی ضرورت نہیں ۔آپ قرآن وحدیث سے ثابت کیجئے جس پیشوائے دین نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔اس کے مسائل شرعی اوراس کے فتوے قابلِ عمل نہیں؟