سیرت صحابیات :
ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
مرتبہ : راضیہ نوید
ذیقعد 6 ہجری میں جب معاہدہ حدیبیہ طے پایا تو مشرکین و کفار مکہ کی جانب سے حملوں کے خطرات ٹل گئے تھے لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نواح عرب کے حکمرانوں اور رؤساء کو خطوط مبارک ارسال کئے جن میں ان کو دعوت اسلام دی گئی تھی۔ یکم محرم الحرام 7 ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خط شاہ مصر و سکندریہ جریج بن متی قبطی ملقب بہ مقوقس کو لکھا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو طلب کیا جب انہیں پیغام ملا تو بھاگم بھاگ بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر مودب کھڑے ہوگئے اور حکم کا انتظار کرنے لگے۔
“شاہ مقوقس مصری کے پاس میرا یہ خط لے جاؤ”۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اسے بڑی محبت و عقیدت سے پکڑا اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر نکل کر اپنے گھر کی سمت چل پڑے، راستے میں ان کے دل و دماغ میں خیالات کا ہجوم ہونے لگا : “میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنا قاصد بناکر بڑا اعزاز بخشا ہے، اللہ کرے میں اس ذمہ داری کو بطریق احسن سرانجام دے کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں سرخرو ہوجاؤں”۔
انہیں سوچوں میں مستغرق گھر پہنچ گئے۔ جلدی سے لباس تبدیل کیا، گھوڑے پر زین کسی اور پھر اس شاہراہ پر جو مدینہ منورہ سے مصر کی طرف جاتی تھی، گھوڑے کو سرپٹ دوڑانا شروع کردیا۔ انہیں اس بات کا کلی ادراک تھا کہ جب محبوب کوئی کام کرنے کو کہے تو پھر محب پر آرام حرام ہوجاتا ہے اور محبوب بھی کون جو رحمۃ للعالمین، باعث تخلیق کائنات اور راحت انس و جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں جن کی اطاعت و محبت اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت ہے، جن کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، جن کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور جن کے روبرو بلند آواز سے بولنے پر اعمال ضائع ہوجاتے ہیں لہذا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی کوشش تھی کہ مہینوں کا سفر دنوں میں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو تاکہ جو فریضہ انہیں سونپا گیا ہے اس سے عہدہ برآہوسکیں۔
مصر کی تہذیب و تمدن و تاریخ بڑی قدیم ہے، یہ وہ شہر ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ یوسف میں ہے۔ دریائے نیل اہل مصر کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ یہ وہی دریا ہے کہ جب اس میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خط کو جو انہوں نے اس کے نام لکھا تھا، ڈالا گیا تو اس میں پہلے کی بہ نسبت سولہ گز پانی زیادہ چڑھ گیا اور اس قدیم جاہلانہ و قبیح رسم کا خاتمہ ہوگیا جس کے تحت ایک نوجوان خوبرو کنواری لڑکی کو اس کے والدین کی مرضی سے دریا کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا تو پھر اس میں پانی آتا تھا۔ اگر کسی نے حضرت عمر فاروق بن الخطاب کے ادب کا ڈھنگ سیکھنا ہو تو دریائے نیل سے سیکھے، وہ بتائے گا کہ ادب کیا ہوتا ہے اور بارگاہ خداوندی میں ان کی شان و مرتبہ کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
“اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر (رضی اللہ عنہ) ہوتے”۔
حضرت خواجہ خواجگان خواجہ عبدالرحمن اپنی کتاب مجموعہ صلوات الرسول کے پارہ 21 ص 51 پر فرماتے ہیں :
“عرش اعظم کے گرد 60 ہزار جہان ہیں جو سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے محبوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور ان سے بغض رکھنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں”۔
مصر فن تعمیر میں لاجواب تھا اور ہے۔ اہرام مصر ہنوز اپنے اندر ان گنت رموز و اسرار چھپائے ہوئے ہیں۔ قدیم مصر میں بادشاہ کو الہ یعنی دیوتا تصور کیا جاتا تھا، کسی میں اتنی جرات و ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرے بلکہ کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ فراعنہ مصر سے قبل لوگ تین خداؤں کو مانتے تھے جن کی مختلف مواقعوں اور تہواروں پر جداگانہ پرستش کی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت کا دھارا بہتا رہا اور مختلف تہذیبیں عروج و زوال سے دو چار ہوتی رہیں تو لوگ سانپ، نیولے، گوبر میں پیدا ہونے والے بھنورے، شیر، بلی، سانڈ، مینڈھے، مگر مچھ، شاہین اور سورج کی پوجا پاٹ کرنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مصر کے قبطیوں نے عیسائیت کو قبول کرلیا۔ شاہ مقوقس قبطی بھی اسی مذہب کا پیروکار تھا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں مصر کے ماضی کی تاریخ کے موٹے موٹے خدوخال ابھر رہے تھے اور گھوڑا برق رفتاری سے بھاگا جارہا تھا۔
کئی دنوں کی مسافت کے بعد جب دور سے شہر مصر کے آثار نظر آئے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے گھوڑے کی رفتار کو اور تیز کردیا۔ منزل مقصود سامنے نظر آرہی تھی لہذا جب آپ وارد شہر ہوئے تو دن خاصا چڑھ آیا تھا، ہر طرف زندگی رواں دواں تھی، آپ کا چہرہ مبارک اور لباس اگرچہ گرد آلود تھا لیکن تھکن کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا۔ مسرت اس بات کی تھی کہ جو ذمہ داری آپ کے آقا و مول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونپی تھی، وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ اہل مصر آپ کو اجنبی نظروں سے دیکھتے تھے اور گزر جاتے تھے۔ آخر ایک جگہ رک کر آپ نے ایک شخص سے پوچھا : “شاہ مقوقس سے کہاں ملاقات ہوسکتی ہے؟”
اس شخص نے عجیب سی نظروں سے آپ کی طرف دیکھا اور بولا : “اس وقت اپنے دربار میں ہوگا”۔
اور پھر ایک سمت اشارہ کرکے جانے کو کہا۔ آپ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھوڑے کا منہ اس طرف موڑ لیا جس طرف اس نے جانے کو کہا تھا۔
دربار کے باہر دو چوبدار نیزے پکڑے کھڑے تھے، آپ نے ایک کو مخاطب کرکے کہا : “اپنے بادشاہ کو جاکر بتاؤ کہ مدینہ منورہ سے قاصد آیا ہے”۔
چوبدار نے آپ کے سراپا پر نظر ڈالی اور اندر چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور آپ کو اندر جانے کو کہا۔ شاہ مقوقس زریں تخت پر بڑے رعب و دبدبہ سے بیٹھا تھا اور اس کے وزراء اور اراکین سلطنت ادب سے اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا، بڑی شان و متانت اور پروقار انداز سے شاہ مقوقس کے قریب جاکر رکے اور گویا ہوئے :
“اے مقوقس! تم سے پہلے اس ملک میں ایک شخص گزرا ہے جو گمان کرتا اور دعویٰ کرتا تھا کہ انا ربکم الاعلیٰ یعنی میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس سے انتقام لیا لہذا تم اپنے غیر سے عبرت حاصل کرو تاکہ تم سے کوئی دوسرا عبرت نہ لے”۔
اور پھر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط مبارک نکال کر اس کو دیا۔ مقوقس نے خط کو بڑے ادب سے لیا اور پھر اپنے کاتب کو دیا کہ اسے با آواز بلند پڑھے تاکہ سب حاضرین دربار سن لیں۔ کاتب کی آواز فضا میں ابھری :
یہ خط محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف سے جو اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، مقوقس کی طرف جو قبطیوں کا سردار ہے”۔ سلامتی ہو ہر اس شخص پر جو ہدایت کا پیروکار ہے۔
اما بعد! میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر عطا فرمائے گا اگر تم روگردانی کرو گے تو سارے قبطیوں کی گمراہی کا گناہ تیری گردن پر ہوگا۔
اے اہل کتاب! آجاؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا رب نہیں بنائیں گے اور اگر لوگ روگردانی کریں تو کہو اے منکرو! گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔
خط پڑھنے کے بعد کاتب نے مقوقس کو پیش کردیا اس نے ہاتھی دانت کی ایک خوب صورت ڈبیا لانے کو کہا اور پھر بڑے احترام سے اس نے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نامہ مبارک کو اس میں رکھا۔ ڈبیا کو سربمہر کردیا اور اپنی کنیز خاص کے حوالے کرتے ہوئے کہا : “اسے حفاظت سے سنبھال لو”۔
بعد ازاں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا : “ہمارا ایک دین ہے اور ہم اسے نہیں چھوڑسکتے بجز اس صورت میں کہ کوئی اور دین اس سے بہتر ہو”۔
سماعت فرمایا تو آپ گویا ہوئے :
“میں تجھے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلاتا ہوں جو دین اسلام ہے۔ اللہ کریم اس دین کے ذریعے دوسرے دینوں سے بے نیاز کردے گا۔ بلاشبہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دعوت اسلام دی مگر قریش سخت ترین لوگ تھے اور دشمن ترین لوگ یہود اور ان سے قریب ترین لوگ نصاریٰ ہیں۔ قسم ہے مجھے اپنی زندگی کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ایسی نہیں ہے جیسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت نبی آخرالزمان محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے اور ہمارا تمہیں قرآن کی طرف بلانا ایسا ہی ہے جیسے تم لوگ اہل تورات کو انجیل کی طرف بلاتے ہو اور ہر نبی نے جس قوم کو پایا تووہ قوم ان کی امت بن گئی لہذا اس قوم پر حق اور ثابت ہے کہ وہ قوم اس نبی کی اطاعت کرے اور تو نے اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پایا ہے لہذا ایمان لاکر ان کی امت میں داخل ہوجا۔ ہم تمہیں دین مسیح سے منع نہیں کرتے بلکہ دین مسیح کا حکم تجھے بتاتے ہیں (کہ اس کا حکم ہے کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا)”۔
شاہ مقوقس خاموشی سے قاصد رسول حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی باتیں سنتا رہا اور پھر اپنی زبان کو جنبش دی۔
“میں نے اس نبی کے بارے میں غوروفکر کیا ہے، مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ کسی قابل نفرت چیز کا حکم نہیں دیتے اور نہ کسی ایسی چیز سے روکتے ہیں جو رغبت و شوق سے متعلق ہو، میں اس سے بھی باخبر ہوگیا ہوں کہ وہ نہ ساحر قتال ہیں اور نہ کاہن کاذب ابھی میں اس پر مزید غوروفکر کررہا ہوں”۔
اور پھر اپنے خاص غلام کو بلاکر حکم دیا : “(حضرت) حاطب (رضی اللہ عنہ) ہمارے معزز مہمان ہیں، محل میں ان کے قیام کا بندوبست کرو، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہئے”۔
اور پھر دربار برخاست ہوگیا۔ محل میں رہتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کو کئی دن بیت گئے، ایک دن سورج ڈھلے کافی دیر ہوگئی تھی کہ ایک خادم حاضر خدمت ہوا اور عرض کی : “آپ کو بادشاہ سلامت یاد کرتے ہیں”۔ سنا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر خادم کے ساتھ چلے گئے اور پھر وہ ایک کمرے کے سامنے جاکر رکا اور شاہی مہمان سے مخاطب ہوکر کہا : “آپ اندر تشریف لے جائیں”۔
اس وقت شاہ مقوقس تنہا بیٹھا تھا اس نے آپ کو خوش آمدید کہا اور اپنے قریب بیٹھنے کو کہا، تھوڑی دیر ماحول پر سکوت طاری رہا پھر وہ بولا : “حاطب (رضی اللہ عنہ)! جن کی طرف سے تم قاصد بن کر آئے ہو، کیا وہ اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں؟”
“ہاں! لاریب وہ رب کریم کی طرف سے مبعوث کئے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں”۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایمان کامل سے پرزور الفاظ میں جواب دیا۔ “پھر کیا بات ہے کہ انہوں نے اپنی اس قوم پر بددعا نہ کی جس نے انہیں اپنے شہر سے نکالا؟”
شاہ مقوقس نے کہا آپ رضی اللہ عنہ بولے : “وہ کیا بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی قوم نے پکڑا اور بقول نصاریٰ سولی پر چڑھادیا اور بد دعا نہ کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردیتا”۔
شاہ مقوقس نے سنا تو بے اختیار اس کے ہونٹوں سے نکلا : “تم ٹھیک کہتے ہو، حق تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہی حکم آیا تھا”۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نامہ مبارک اور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو نے شاہ مقوقس پر روز روشن کی طرح عیاں کردیا تھا کہ جو صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی گئی ہیں، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان کے مطابق ہیں اور پھر وہ ہم کلامی کے انداز میں بولنے لگے :
یہ وہی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کی تشریف آوری کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔ بلاشبہ وہ غالب ہوں گے اور ان ممالک میں ان کے صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کا قبضہ ہوگا۔
اس کے بعد ماحول پر خاموشی طاری ہوگئی، دونوں اپنے اپنے خیالوں میں گم تھے پھر شاہ مقوقس نے آپ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا : “آپ جاکر آرام کریں، کل ملاقات ہوگی”۔
لہذا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر اپنی آرام گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ دوسرے دن دربار میں سب اعیان سلطنت موجود تھے، شاہ مقوقس کے قریب ہی خوب صورت کرسی پر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ مقوقس نے اہل دربار پر ایک طائرانہ نظر ڈالی پھر شاہی کاتب کو بلایا اور اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط کا جواب لکھانے لگا۔
محمد بن عبداللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حضور منجانب مقوقس عظیم القبط
اما بعد! میں نے آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا گرامی نامہ پڑھا اور جو کچھ اس میں تحریر تھا اور جس کی آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے دعوت دی، میں نے سمجھا بلاشبہ میں جانتا ہوں ایک ایسا نبی باقی رہا ہے جو خاتم الانبیاء ہوگا۔ میرا خیال ہے اس کا ظہور ملک شام سے ہوگا اور میں نے آپ کے قاصد کی آمد کو گرامی جانا۔ میں آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف ماریہ اور سیرین کو بھیجتا ہوں جوکہ قبط میں عظیم المرتبت ہیں اور کچھ لباس و تحائف اور ایک اونٹ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سواری کے لئے بھی پیش خدمت کرتا ہوں۔
(والسلام مقوقس) (بشکریہ کتاب “ازواج الرسول امہات المومنین، مصنف : نواز رومانی)