شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان
شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان
شہنشاہِ سخن، استاذِ زَمن حضرت علامہ مولانا حسن رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی ولادت با سعادت ۲۲ربیع الاوّل ۱۲۷۶ھ / ۱۰ اکتوبر۱۸۵۹ء بریلی شریف میں ہوئی۔آپ ایک اعلیٰ خاندان اور علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد گرامی امام الفُقَہاء مولانا مفتی نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّانبہت بلند پایہ فقیہ اور زبردست عالم دین تھے بلکہ یہی ایک کیا آپ کے خانوادے میں علم و فضل کے ایک سے ایک آفتاب و ماہتاب پیدا ہوئے جنہوں نے عالم اسلام کو اپنی جلوہ ریزیوں سے فیض یاب کیا، لہٰذا تبحر علمی، شعور و آگہی اور زُہد و اِتقاء کا گراں قدر سرمایہ آپ کو وِرثہ میں ملا۔ والد مکرم سے علوم دِینیہ، عقلیہ اور نقلیہ کی تکمیل کی پھر برادرِ معظم سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانکے خزائن علوم سے فیضیاب ہوئے ۔ طریقت میں آپ کو حضرت علامہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز سے قادریہ برکاتیہ سلسلہ میں بیعت اور اجازت و خلافت حاصل تھی)علامہ تقدس علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن رضوی بریلوی کے مطابق( اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے بھی اجازت و خلافت آپ کو حاصل تھی آپ ایک جید عالم و فاضل تھے ، قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر، فلسفہ و تاریخ، منطق و حکمت اور اَسماءالرجال پر گہری نظر
تھی، عربی فارسی اور اردو میں کمال حاصل تھا، تحریر و تقریر دونوں سے شغف رکھتے تھے ، شاعری سے بھی لگاؤ تھا ، ابتداء میں مرزا داغ دہلوی سے استفادۂ سخن کیا اور غزلیات وغیرہ کی طرف مائل تھے پھر اعلیٰ حضرت کی صحبت بابرکت نے نعت گوئی کا ذوق بخشالہٰذا نعتیہ شاعری کی طرف ایسے راغب ہوئے کہ تادمِ آخر عشق رسول میں ڈوب کر بااَدَب و احترام اور کمالِ نیاز مندی سے ثناء خوانی مصطفیٰ میں مصروف رہے ۔ آپ اعلیٰ اَخلاق و کردار کے مالک تھے مسلمانوں سے میل جول، پرسش اَحوال اور اِنفاق فی سبیلِ اللّٰہ میں حد درجہ اِنہماک رکھتے تھے ، فیاضی میں مشہور تھے اور مسافروں اور حاجت مندوں کی خوب داد رسی فرماتے ، مہمان نوازایسے تھے کہ ان کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے اور انہیں تحائف سے نوازتے ، غرض اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو گوناگوں صفات سے متصف فرمایا تھا۔آپ کی تصانیف میں ذوقِ نعت، آئینۂ قیامت، صمصام حسن، نگارستانِ لطافت، ثمر فصاحت، انتخاب شہادت اور دین حسن مشہور ہیں ۔ ۲۲رمضان المبارک، ۱۳۲۶ھ / ۱۹۰۸ء میں وصال پر ملال ہوا، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے دست اَقدس سے قبر اَنور میں رکھا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (ماخوذ از ماہنامہ سنی دنیااگست۱۹۹۴، مولانا حسن بریلوی نمبر، بریلی شریف ہند )