Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
ذَوقِ نَعت ۱۳۲۶ھ برادرِ اعلیٰ حضرت شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خانشاعری

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا

عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ مل گیا

فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا

کشفِ رازِ مَن رَّاٰنی یوں ہوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا

بیخودی ہے باعثِ کشفِ ِحجاب
مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا

ان کے دَر نے سب سے مستغنی کیا
بے طلب بے خواہش اتنا مل گیا

ناخدائی کے لئے آئے حضور
ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا

دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا
نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا

آنکھیں پر نم ہو گئیں سر جھک گیا
جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا

خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا

ہے محبت کس قدر نامِ خدا
نامِ حق سے نامِ والا مل گیا

ان کے طالب نے جو چاہا پالیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا

تیرے در کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا

اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا

دَر و دِیوار روشن ہو جاتے
جب رحمت عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممسکراتے تو آپ کے دندان مبارک کے نور سے دَر ودِیوار روشن ہوجاتے ۔ (الشفا، ص۶۱ ، مرکز اہل سنت برکات رضا، ہند)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!