فقراء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فضائل
فقراء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فضائل
حمد ِباری تعالیٰ:
سب خوبیا ں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے اپنی مخلوق میں سے اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کوپسندفرمایاپس وہ اس کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔اُس کی محبت ان کے دلوں میں محفوظ ہے۔،اُن کے چہرے تیرے سامنے اُن کے دلوں کے انوار ظاہر کریں گے۔ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نورِجمال سے معرفت حاصل کرتے ہیں۔ اُن کی سانسوں کی کستوری سے پوری کائنات معطر ہے۔ وہ گوشہ نشینی کے خیموں میں رہائش پذیر ہیں۔ سحری کی میٹھی ہوا اُن کی خوشبو کو اٹھا لے جاتی ہے اور تمام مخلوق اس معطر ہوا میں سانس لیتی ہے۔ اگر بادشاہ اُن کی مئے عشق کاایک قطرہ چکھ لیں تو دنیا کو ٹھکرا دیں۔ جب وہ اپنی نَغمگی آواز میں ربّ ِ کریم عَزَّوَجَلّ کا کلام پڑھتے ہیں توتُو انہیں بیدار، مدہوش اور غائب وحاضر کی طرح پائے گا۔ جب ان کا عشق جو ش مارتا ہے تو وہ پہاڑ وں میں مارے مارے پِھرتے ہیں۔اگر تُو ان میں سے کسی کو دیکھے گا تو دیوانہ سمجھے گا بلا شبہ وہ اپنے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں گرویدہ ہیں۔ پس پہاڑ زمین کی میخیں اور وہ پہاڑوں کی میخیں ہیں۔ اگر وہ نہ ہوں تو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے زمین ہلنے لگے اور اللہ عزَّوَجَلَّ نے زمین کو اُن سے خالی نہیں رکھا اور نہ ہی نیک لوگ ہم سے الگ ہوتے ہیں۔ پہاڑ ان پر سلامتی بھیجتے ہیں ۔وحشی جانور ان سے مانوس ہوتے ہیں۔ چوپائے ان سے برکت حاصل کرتے ، درخت ان کا قُرب پاتے ہیں۔ نسیمِ سحر اُن سے ملاقات کرتی ہے۔ اُن کی سانسیں شیاطین کو جَلادیتی ہیں۔ شیطان ان کی سجدہ گاہوں کی طرف نہیں جاتااور نہ ہی ان کے قریب جاتا ہے ۔ اہلِ دُنیا انہیں دنیا کے خزانے پیش کرتے ہیں مگر وہ اُن کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ جن پہاڑوں پر ان کے قدم پڑتے ہیں وہ دیگر پہاڑوں پر فخر کرتے ہیں۔اُن کے قدموں کی خاک آنکھوں کا سُرمہ ہے۔
جب فرشتے اُن کے اعمال نامے لے کر آسمان کی طرف بلندہوتے ہیں تو اُن کی خوشبو سے آسمان معطر ہوجاتے ہیں، فرشتے ان کو دیکھ کرمتعجب ہوتے ہیں اور ان کے اسرارِ معرفت پر مقرَّب فرشتے اور خاص انسان بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان سے ارشاد فرماتا ہے: ”تمہارے پاس میری محبت کے سوا کچھ نہیں ،میں حبیب ہوں اور تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔” جب وہ دنیا سے تشریف لے جاتے ہیں تو اہل دنیا اُن کی جدائی پر غمگین ہوتے ہیں لیکن جنَّت ان کے اشتیاق میں اللہ عزَّوَجَلَّ سے عرض کرتی ہے ،” تیرے محبوب بندے کب مجھ میں جلوہ افروز ہوں گے۔” وہ جنت کے محلات میں رہیں گے۔ اس کے برتنوں میں مشروب پئیں گے۔ اس کی حوروں سے نفع حاصل کریں گے۔ اس کے باغات میں سیر کریں گے۔اس کے بالاخانوں میں رہیں گے۔ عمدہ قسم کی سواریوں پر سوار ہوں گے اور اللہ عزَّوَجَلَّ کے کلام کو سنیں گے اور اس کے دیدار سے مشرَّف ہوں گے ۔
یہ ان ہستیوں کا مقام ومرتبہ ہے۔ اے سُستی اور غفلت برتنے والو! تم نے کیا ذخیرہ کیا؟” اللہ عزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عظیم ہے: لِمِثْلِ ہٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوۡنَ ﴿۶۱﴾ ترجمۂ کنز الایمان:ایسی ہی بات کے لیے کامیوں کو کام کرنا چاہے ۔(۳۲، الصّٰفّٰت:۶۱)
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختاربِاذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تین چیزیں افضل ہیں :(۱)۔۔۔۔۔۔فقر(۲)۔۔۔۔۔۔علم اور(۳)۔۔۔۔۔۔زُہد۔”