مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان
مفتی اعظم ہند،شہزادۂ اعلیٰ حضرت ،تاجدارِ اہل سنت ، مولانامفتی محمد مصطفیٰ رضا خان نوری رضوی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کی ولادت باسعاد ت بروز جمعۃ المبارک ۲۲ذوالحجہ ۱۳۱۰ ھ/ ۷جولائی ۱۸۹۳ء بوقت صبح صادق محلہ سودگران،رضا نگر بریلی شریف (یو.پی،ہند) میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والد گرامی نے دی اور حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْمَنَّانکو آپ کی تعلیم و نگہداشت کے لیے مقرر فرمایا۔ چھ ماہ کی عمر میں سید المشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز نے داخلِ سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمادیا۔آپ بچپن ہی سے ذہین و فطین تھے، طبیعت میں سنجیدگی تھی۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت قطبِ مَدینہ مولانا ضیاء الدین مَدَنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ارشاد فرماتے ہیں: جب اعلیٰ حضرت دارُ الافتاء میں تشریف فرما ہوتے تو کبھی کبھی شہزدۂ اَصغر ( یعنی چھوٹے شہزادے) حاضر ہوتے، حاضری کا انداز یہ تھا کہ آہستہ سے آتے اور دو زانو مؤدب سرکارِ رضا میں بیٹھ جاتے،شریر بچوں کی طرح نہ ہنگامہ کرتے،نہ کاندھوں پر دوڑتے اور نہ ہی سامان کو اٹھاتے پھینکتے ،اس وقت آپ کی عمر مبارک چار سال کے قریب تھی۔
آپ کی رسم تسمیہ خوانی چار سال چار ماہ اور چار دن کی عمر میں خود اعلیٰ حضرت
امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمائی۔ شوقِ علم دین کا یہ عالم تھا کہ جس وقت تسمیہ خوانی ہوئی نماز اور وضو کے مسائل سیکھ چکے تھے پھر مزید والد گرامی کے زیر سایہ علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ اس دوران مرکز اہلسنت دار العلوم منظر اسلام بریلی میں بھی حصولِ علم کا سلسلہ جاری رہا اور اسی درس گاہ سے ۱۳۲۸ ھ / ۱۹۱۰ء میں بہ عمر اٹھارہ سال خدا داد ذہانت،ذوقِ مطالعہ، لگن و محنت، اساتذہ کرام کی شفقت و رافت، اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کی توجہ کامل اور شیخِ مکرّم سید المشائخ قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز کی عنایات کے نتیجے میں جملہ علوم و فنون منقولات و معقولات پر عبور حاصل کرکے تکمیل و فراغت پائی۔ فراغت کے بعد یہیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اِسی سال (۱۳۲۸ ھ / ۱۹۱۰ ء) رضاعت کے مسئلے پر پہلا فتویٰ تحریر فرمایا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب ملاحظہ فرماکر انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور خود مہر بنوا کر عطا فرمائی ۔ پھر ۱۳۴۰ ھ تک بارہ سال والدِ گرامی کی زیر نگرانی فتویٰ نویسی کی اور تربیت بھی حاصل کرتے رہے۔ امام اہلسنترَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے فرزند دِلبند کی فقاہت اور ثقاہت پر اس نوعیت کا اعتماد تھا کہ اپنے بعض فتاویٰ پر ان کے تائیدی دستخط کرواتے تھے۔ والد گرامی کے بعد ۱۳۹۵ ھ تک مسند اِفتاء پر متمکن رہے اور اپنے خاندانی تفرد و اِختصاص کے تحت فتویٰ نویسی اور رُشد و
ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔اس کے بعد ضعف اور علالت کی وجہ سے فتویٰ نویسی کا کام نہ ہو سکا البتہ آخری لمحات تک مفتیانِ دین کی علمی مشکلات کو زبانی حل فرماتے رہے۔اس طرح ستر سال کے طویل عرصہ تک فتویٰ نویسی کی ۔ آپ کے سیرت نگاروں نے لکھا کہ آپ کے فتاویٰ کا شمار لاکھوں میں ہے۔فتویٰ نویسی کے ساتھ ساتھ درس و تدریس، وعظ و تقریر،تحریر و تالیف، اشاعت مسلک حق اور تبلیغ دین کا سلسلہ بھی جاری رہا۔آپ کی تالیفات کی تعداد پینتیس سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں آپ کا شہرہ آفاق نعتیہ دیوان ’’سامانِ بخشش ‘‘ بھی شامل ہے۔ آپ نے اپنے دور میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں، فتنہ سامانیوں اور ریشہ دَوانیوں کا بڑی جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا اور مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ اور ان کی فلاح وکامرانی کے لئے تمام طاغوتی قوتوں سے آخری سانس تک نبرد آزما رہے، آپ کی نگاہِ کیمیاء اَثر نے لاکھوں گمراہوں کو راہِ حق پر گامزن کر دیا۔۱۴محرم الحرام ۱۴۰۲ھ/۱۲نومبر۱۹۸۱ء میں وِصال پُرمَلال ہوا، آپ کا مزار مبارک بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پہلو میں ہے۔
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔(جہانِ مفتی ٔ اعظم،ص۶۴تا۶۵،۱۰۳ تا ۱۳۰، رضا اکیڈمی بمبئی ہند)