Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
waqiyat

صاحبِ علم وحکمت حضرتِ سیّدنا ابو درداءرضی اللہ تعالٰی عنہ

صاحبِ علم وحکمت حضرتِ سیّدنا ابو درداءرضی اللہ تعالٰی عنہ

(ابو عبید عطاری مدنی)

اللّٰہ تعالٰی نے جن خوش نصیبوں پو فہم و فراست کے دَروازے کھولے اور جن کی زبانی پر علم و حکمت کے چشمے جاری کئے ان خوش بختوں میں ایک نام عالم بے مثال، قاری باکمال، عابد بااخلاص، مشہور صَحابی رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصل نام عُوَیْمَر اور کنیت ابودرداء ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ زردی مائل خضاب استعمال فرماتے، سرمبارک پر ٹوپی پہنتے اور اس پر عمامہ شریف کا تاج سجاتے تھے جبکہ شملہ مبارکہ دونوں کندھوں کے درمیان پشت پر رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے تجارت کیا کرتے تھے، لیکن عبادت کے ذوق اور حساب کی شدّت کے خوف سے تجارت ترک کرکے یادِ الہٰی میں مصروف ہوگئے۔(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم، ج3، ص476، 475،بیروت)

گرم لحاف کیوں نہیں بھجوایا؟

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوری زندگی نہایت سادگی اور بے سروسامانی کے عالَم میں گزار دی، ایک مرتبہ موسمِ سرما میں چند لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مہمان بنے، رات ہوئی تو آپ نے کھانا بھجوادیا مگر لحاف نہ بھجواسکے۔ اگلے دن وہ لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس شکایت کرنے پہنچے تو دیکھا کہ آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے پاس سردی سے بچاؤ کے لئے لحاف تو کیا گرم لباس بھی نہیں ہے، ان کے چہرے پر ظاہر ہونے والی ناگواری کو حیرت میں بدلتے دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہمارا ایک اصلی گھر ہے جو بھی سامان جمع ہوتا ہے اسے ہم وہاں بھجوادیتے ہیں، آخرکار ہمیں اسی (آخرت) کی جانب لوٹ کرجانا ہے۔(صفۃ الصفوۃ،ج1،ص324ملخصاً،بیروت)

علمِ دین سکھایا کرتے تھے

حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ علمِ دین کی نورانی مجلس سجاتے ہوئے علم کے طلب گاروں کو شَرْعی مسائل بتاتے اور قرآنِ پاک صحیح تلفظ اور درست مخارج کے ساتھ پڑھنا سکھاتے تھے، چنانچہ روزانہ صبح آپ مسجد میں تشریف لاتے اور اس نورانی مجلس کو یوں سجاتے کہ ہر دس افراد پر ایک حلقہ بناتے اور اس پر ایک نگران مقرر کردیتے جو انہیں پڑھاتا رہتا، اور اس دوران آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے رہتے اگر کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھ لیا کرتا اور تشفی بھر جواب پاتا، کبھی ایسا ہوتا کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ قرآنِ پاک کی تلاوت فرماتے اور نگران ارد گرد بیٹھ کر کلماتِ مبارکہ کو بغور سنتے رہتے، پھر اپنے حلقوں کی جانب لوٹ جاتے اور جو کچھ سیکھتے وہ دوسروں کو سکھانا شروع کردیتے۔ جب یہ نورانی مجلس ختم ہوتی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پوچھتے کہ کسی کے ہاں کوئی دعوت وغیرہ تو نہیں ہے؟ اگر جواب ”ہاں“ میں آتا تو وہاں تشریف لے جاتے، ورنہ روزے کی نیت کرلیتے اور ارشاد فرماتے کہ ”میرا روزہ ہے“ حالانکہ تمام حلقوں کا انتظام بخوبی سنبھالا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شرکاءِ مجلس کو شمار کیا گیا تو وہ سترہ سو سے زائد تھے۔(تاریخ ابن عساکر،ج1،ص328،بیروت)

جانوروں پر شفقت

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جانوروں پر حد سے زیادہ بوجھ ڈالنے کو ناپسند فرماتے تھے چنانچہ جب کوئی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہسے اونٹ ادھار لے جانا چاہتا تو فرماتے: اس پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا کیونکہ یہ اس کی طاقت نہیں رکھتا، جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اونٹ کی جانب توجہ کی اور فرمایا: کل بروزِ قیامت بارگاہِ الہٰی میں مجھ سے پوچھ گچھ نہ کرنا کیونکہ میں نے تیری طاقت سے زیادہ تجھ پر بوجھ نہیں ڈالا۔(تاریخ ابن عساکر،ج47،ص185،بیروت)

حکیم الامت تھے

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ میری اُمّت کے حکیم عُوَیْمَر (ابودرداء) ہیں۔(مسند شامیین،ج2،ص88،بیروت) یہی وجہ ہے کہ آپ کا کلام حکمت و دانائی سے بھرپور ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا: اے لوگو! خوشحالی کے ایام میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرو تاکہ وہ تنگی و مصیبت میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرمائے۔(الزھدللامام احمد،ص160،رقم:718،مصر)

دنیا سے رُخصتی

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سن 32ہجری حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں اس جہانِ فانی سے کُوچ فرمایا، آخری لمحات میں شدید گھبراہٹ طاری ہونے پر زوجہ محترمہ نے وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: میں تو موت کو محبوب رکھتا ہوں لیکن میرا نفس اسے پسند نہیں کرتا، یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگے، پھر زبان پر کلمۂ طیبہ کا ورد جاری رکھا یہاں تک کہ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔(اسدالغابۃ،ج4،ص341،بیروت) آپ سے روایت کردہ 179احادیث طیبہ آج بھی کتبِ احادیث کے روشن صفحات پر قیمتی موتیوں کی طرح جگمگا رہی ہیں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!