islam
کبيرہ نمبر104: حلقہ کے درميان آ کر بيٹھنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا حذيفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : ”اللہ عزوجل حلقے (یعنی دائرے) کے درميان بيٹھنے والے پر لعنت فرمائے۔”
( سنن ابی داؤد،کتاب الادب ، باب الجلوس وسط الحلقۃ ا،لحدیث ۴۸۲۶ ، ص ۱۵۷۸” لعن اللہ” بدلہ” لعن رسول اللہ”)
(2)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :” ايک شخص حلقے کے درميان ميں آکر بيٹھ گيا تو حضرت سیدنا حذيفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرماياکہ نبی کريم،ر ء ُ و ف ورحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی زبانِ حق پرست سے اس پر لعنت کی گئی ہے۔” يا پھر یہ ارشاد فرمايا:”اللہ عزوجل نے رسول اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی زبانِ اقدس سے اس شخص پر لعنت فرمائی جو حلقے کے درميان آکر بيٹھتا ہے۔”
( جامع الترمذی ،ابواب الادب ، باب ماجاء فی کراھیۃ العقود ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۲۷۵۳ ،ص ۱۹۲۹)
(3)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے کسی قوم کا حلقہ ان کی اجازت کے بغير پھلانگا وہ گناہ گار ہے۔” ( المعجم الکبیر ، الحدیث ۷۹۶۳ ، ج ۸ ، ص ۲۴۶)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(4)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”دو آدميوں کے درميان ان کی اجازت کے بغير نہ بيٹھو۔”
( سنن ابی داؤد،کتاب الادب ، باب فی الرجل یجلس بین الرجلین ، الحدیث ۴۸۴۴ ، ص ۱۵۷۹)
(5)۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ ”کسی کے لئے جائز نہيں کہ وہ دو آدميوں کی اجازت کے بغيراُن میں جدائی ڈالے۔”
( جامع التر مذی ،ابواب الادب ، باب ماجاء فی کراھیۃ الجلوس بین۔۔۔۔۔۔ الخ، الحدیث ۲۷۵۲ ، ص ۱۹۲۹)
(6)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم ميں سے کوئی شخص جب کسی مجلس ميں آئے تو اگر اس کی خاطرکشادگی پیدا کی جائے تو وہاں بيٹھ جائے ورنہ جہاں کشادگی پائے وہاں جا کر بيٹھے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( شعب الایمان ، باب فی حسن الخلق ، فصل فی التو اضع ، الحدیث ۸۲۴۳، ج۶، ص ۳۰۰)
تنبیہ:
اس گناہ کو بعض شافعی علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا ہے، شايد انہوں نے احادیثِ مبارکہ ميں مذکور لعنت سے اس کے کبيرہ گناہ ہونے پر استدلال کيا ہے، اگر عرفاً اس سے کسی کو ايذاء پہنچتی ہو تو ظاہری استدلال يہی ہے اور اسی پر حدیثِ پاک محمول ہے، جبکہ ہمارے اصحاب کے اس قول کہ”يہ عمل مکروہ ہے۔” کو ايذاء کی کمی پر محمول کيا جائے گا اور اس تفصيل کی تائيد ہمارا وہ بيان بھی کرتا ہے جسے ہم نے کتب فقہ کے باب”حَمْلُ السِّلَاحِ فِیْ صَلٰوۃِ الْخَوْفِ اور تَقْبِيل الْحَجَرِ الْاَسْوَدِ عِنْدَ الزَّحْمَۃِ وغيرہ ميں ذکر کيا ہے کہ اگر ايذاء کم ہو تو مکروہ ہے ورنہ حرام۔ اوراسی سے واضح ہو گيا کہ ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اقوال اور حدیثِ پاک ميں کوئی تضاد نہيں ،اس ميں غور کرو ميں نے کوئی ايسا شخص نہيں ديکھا جو اس وضاحت سے واقف ہو۔