islam
کبيرہ نمبر108 :عورت کا باريک لباس پہننا
یعنی عورت کا ايسا باريک لباس پہننا جس سے اس کی جلد کی رنگت يا اعضاء کی بناوٹ جھلکتی ہو
(1)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:”جہنميوں کی دو قسميں ايسی ہيں جن کو ميں نے(اس زمانے میں) نہيں ديکھا: (۱)ایسے لوگ جن کے پاس گائے کی دُموں جيسے کوڑے ہوں گے،اُن سے وہ لوگوں کو مارتے ہوں گے اور (۲)وہ عورتيں جو لباس پہننے کے باوجودعریاں ہوں گی، وہ راہِ حق سے ہٹانے والی اور خود بھی راہِ حق سے بھٹکی ہوئی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ايک جانب جھکے ہوئے ہوں گے، وہ نہ جنت ميں داخل ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو سونگھ سکيں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی ہے۔”
(صحیح مسلم،کتاب الادب،باب النساء الکاسیات،الحدیث:۵۵۸۲، ص۱۰۵۸)
حدیث کی وضاحت:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس حدیثِ پاک میں عورتوں کے لباس میں ملبوس ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گی، جبکہ بے لباس ہونے سے مراد يہ ہے کہ وہ نعمتوں کا شکرادانہیں کریں گی،یااس سے مرادیہ ہے کہ ظاہری طور پرتو لباس زيب تن کريں گی مگرحقیقتاًبے لباس ہوں گی،وہ اس طرح کہ وہ ايساباريک لباس پہنيں گی جن سے ان کا بدن جھلکے گا، راہِ حق سے بھٹکنے سے مراد اللہ عزوجل کی ا طاعت سے روگردانی اورفرائض و واجبات کی ادائيگی اوران کی حفاظت سے منہ پھيرنا ہے اور راہِ حق سے ہٹانے سے مراد يہ ہے کہ وہ دوسری عورتوں کو اپنے مذموم فعل کی طرف بلائيں گی۔یاراہِ حق سے ہٹنے سے مرادمٹک مٹک کرچلناہے اورراہِ حق سے ہٹانے سے مرادکندھوں کوجھٹک کردوسروں کواپنی طرف مائل کرناہے یاپھرراہِ حق سے ہٹنے سے مرادبازاری عورتوں کی طرح اپنے بال کنگھی سے سنوارناہے اورراہِ حق سے ہٹانے سے مرادبازاری عورتوں کی مثل دوسروں کے بال سنوارنا(یعنی ہیئراسٹائل بنانا)ہے اورعورتوں کے سروں کابختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہونے سے مرادیہ ہے کہ وہ اپنے سرپرکوئی کپڑایاپٹی لپیٹ کراسے بلند کرکے اترائیں گی۔
(2)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”میری اُمت کے آخر میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ جو زینوں پر سوار ہوں گے ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہو گی جو خود تو مساجد کے دروازوں پر پڑاؤ ڈالے ہوں گے لیکن ان کی عورتیں (اتنا باریک) لباس پہنے ہوں گی(کہ) بے لباس (معلوم) ہوں گی، لاغر وکمزور بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح سروں کو اٹھائے ہوں گی، ان عورتوں پر تم بھی لعنت بھیجو کیونکہ ان پر لعنت کی گئی ہے، اگر تمہارے بعد کوئی اُمت ہوتی تو تمہاری عورتیں اس اُمت کی اسی طرح خدمت کرتیں جس طرح تم سے پہلی اُمتوں کی عورتوں نے تمہاری خدمت کی ہے۔” ( صحیح ابن حبان ،کتاب الحضر والا با حۃ ، باب اللعن ، الحدیث: ۵۷۲۳ ، ص ۵۰۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مرسلاً مروی ہے:”ميری بہن حضرت سیدتنا اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سرکارِ والا تَبار،بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس ميں باريک لباس پہن کر حاضر ہوئیں تو شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار،باِنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُن سے چہرۂ انور پھير ليا اور ارشاد فرمايا:”اے اسماء !عورت جب حیض (یعنی ماہواری) کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی ان (دو) چيزوں کے علاوہ کچھ نہ نظر آنا چاہے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے چہرے اور ہتھيليوں کی طرف اشارہ فرمايا۔”
( سنن ابی داؤد،کتاب اللباس ، باب فیماتبدی المرأۃ من زینتھا ، الحدیث:۴۱۰۴ ، ص ۱۵۲۲)
تنبیہ:
اس سخت تر وعيد کی بناء پر اسے کبيرہ گناہوں ميں ذکر کرنا بالکل واضح ہے اگرچہ ميں نے کسی کو اس کی صراحت کرتے ہوئے نہيں پايا بلکہ يہ پچھلی عورتوں کے مردوں سے تشبہ کی بناء پر ظاہر ہے۔
سیدناامام ذہبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں:”جن کاموں کی وجہ سے عورتوں پر لعنت کی گئی ہے ان ميں اپنی زينت کا اظہار مثلاً نقاب کے نيچے سے سونے يا موتيوں کے زيور ظاہر کرنا اور گھر سے نکلتے وقت خوشبو مثلاً مشک وغيرہ لگا کر نکلنا ہے، اسی طرح نکلتے وقت ہر ايسی چيز پہننا جو آراستہ ہونے کی طرف لے جائے جيسے برقعے کو رنگنا، ريشم کا تہبند پہننا اور آستين کو کھلا رکھنا يہ تمام باتيں آراستگی سے تعلق رکھتی ہيں کہ جن کے کرنے پر اللہ عزوجل دنيا وآخرت ميں سخت ناراض ہوتا ہے اورعورتوں پر يہی قبيح عادتيں غالب ہوتی ہيں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(4)۔۔۔۔۔۔انہيں کے بارے ميں سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”ميں نے جہنم ميں جھانکا تو ديکھاجہنم والوں میں زیادہ جہنمی تعداد عورتوں کی ہے۔”
(صحیح البخاری ،کتاب بدء الخلق،باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۲۴۱،ص۲۶۳)