islam
کبيرہ نمبر160: قربانی کے وُجوب کااعتقادرکھنے والے کااستطاعت کے باوجودقربانی نہ کرنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:”جو قربانی کرنے کی وسعت پائے پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عيد گاہ کی طرف نہ آئے۔”
( المستدرک،کتاب التفسیر(سورۃ الحج)،باب التشدید فی امر الاضحیۃ ، الحدیث: ۳۵۱۹ ، ص ۳ ، ص ۱۴۸)
تنبیہ:
اس حدیثِ پاک کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے اگرچہ ميں نے کسی کو اس کے کبيرہ گناہ ہونے کی تصريح کرتے ہوئے نہيں ديکھا کيونکہ عيد گاہ ميں حاضر ہونے سے منع کرنے ميں سخت وعيد پائی جاتی ہے جبکہ قربانی کے مستحب ہونے کے قائلين مثلاًحضرتِ سیدنا امام شافعی علیہ رحمۃاللہ الکافی وغيرہ اس کا جواب ديتے ہيں کہ اس حدیثِ پاک کو امام حاکم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اگرچہ مرفوعاًروايت کيا اور اسے صحيح قرار ديا ہے مگر انہوں نے اسے موقوفاً بھی روايت کياہے۔
بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں:”شايداس ميں شبہ ہے، لہٰذا حدیثِ پاک ميں اس بات پر حجت پوری نہيں ہوتی کہ ہم يہ کہنے لگيں کہ حاضری سے منع کرنے ميں سخت وعيد ہے۔
(2)۔۔۔۔۔۔کيا آپ نہيں جانتے کہ صحيح حدیثِ پاک ميں آيا ہے:”جس نے لہسن ،پيازیاگندنا(جوپیازکی طرح بدبودارہوتاہے) کھايا۔” جبکہ ايک اور روايت ميں ہے،”يا مولی کھائی۔” وہ ہماری مسجد کے قريب نہ آئے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح مسلم ،کتاب المساجد ، باب نہی من اکل ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث:۱۲۵۴،ص۷۶۴،بدون”فجلا”)
حالانکہ اس کے باوجود مذکورہ اشياء کھانے ميں کوئی حرمت نہيں مگر اس کا جواب يہ ہے کہ يہاں اس ممانعت کی حکمت يہ ہے کہ اس سے انسانوں یافرشتوں کو بُو کے ذريعے ايذاء پہنچتی ہے، لہٰذا ہم نے اس ممانعت کو اسی پر محمول کر ليا ہے جبکہ قربانی سے متعلق روايات ميں ممانعت کی وجہ اس کے ترک پر شدت فرمانا ہے، قربانی کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہيں جن سے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزديک اس کی اہميت کا اندازہ ہوتا ہے۔