islam
کبيرہ نمبر185: قائلين حرمت کے نزد يک سود ميں حيلہ کرنا
(1)۔۔۔۔۔۔بعض علماء رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں،مروی ہے :”سودخور،سود کھانے کے لئے حيلے بہانے کرنے کی وجہ سے قيامت کے دن کتوں اور خنزيروں کی شکل ميں اُٹھائے جائيں گے، جيسا کہ اصحابِ سبت کے چہرے مسخ کر دئيے گئے، جب انہوں نے ہفتے کے دن مچھليوں کے شکار کا حيلہ کياجن کا شکار کرنے سے اللہ عزوجل نے انہيں روک ديا تھا، پس انہوں نے حوض کھوددئيے جن ميں ہفتے کے دن مچھلياں گر جاتيں يہاں تک کہ وہ اتوار کے دن انہيں پکڑليتے،جب انہوں نے ايساکيا تو اللہ عزوجل نے انہيں بندروں اور خنزيروں کی شکلوں ميں بدل ديا اور یہی حال ان لوگوں کا ہے جو سود پر مختلف قسم کے حيلے بہانے کرتے ہيں حالانکہ اللہ عزوجل پر حيلے کرنے والوں کے حيلے پوشيدہ نہيں۔”
(کتاب الکبائرللذہبی،الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ،باب الربا،ص۷۰)
سیدناايوب سختيانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا فرمان ہے:”وہ اللہ عزوجل کو دھوکا ديتے ہيں جيسا کہ لوگوں کو دھوکا ديتے ہيں، اگر وہ بات واضح کر ديتے تو ان پر آسان ہوتا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ: سود میں حیلہ کرنا
سود وغيرہ ميں حيلہ کرنے کوحضرتِ سیدنا امام احمد بن حنبل اورحضرتِ سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے حرام قرار ديا ہے اور استدلال کا قياس يہ ہے کہ قائلين حرمت کے نزديک حيلہ کے ساتھ سود لينا کبيرہ گناہ ہے، اگرچہ اس کے جواز ميں اختلاف ہے۔
حضرتِ سیدیناامام شافعی اورامام اعظم ابو حنيفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے سود وغيرہ ميں حيلہ کو جائز قرار ديا ہے اور ہمارے اصحابِ شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل حديث پاک سے اس کی حلت پر استدلال کیا ہے:
(2)۔۔۔۔۔۔خيبر کا عامل حضور نبئ کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ ميں بہت سی عمدہ کھجوريں لے کر حاضر ہوا توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اس سے پوچھا:”کيا خيبر کی تمام کھجوريں ايسی ہيں؟” اس نے جوب ديا:”نہيں، بلکہ ہم گھٹيا کھجوريں لوٹا ديتے ہيں اور گھٹيا کے دو صاع کے بدلے ميں عمدہ کھجوروں کا ايک صاع لے ليتے ہيں۔” توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اسے اس طرح کرنے سے منع فرما ديا اور اسے بتايا کہ يہ سود ہے پھر اس ميں حيلہ بتايا اور وہ يہ ہے کہ دراہم کے بدلے ميں گھٹيا کھجوريں بيچ دے اور ان دراہم کی عمدہ کھجوريں خريد لے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
يہ ان حيلوں ميں سے ہے جن ميں اختلاف واقع ہواہے پس جس کے پاس دو صاع گھٹيا کھجوريں ہوں اور وہ ان کے بدلے ايک صاع عمدہ کھجوريں لينا چاہتا ہو تو اس کے لئے کسی دوسرے عقد کے واسطے کے بغير ايسا کرنا ممکن نہيں کيونکہ اس(یعنی دوصاع گھٹیاکے بدلے ایک صاع عمدہ کھجوریں لینے )کے سود ہونے ميں اجماع ہے۔ جب اس نے ايک درہم کی دوصاع گھٹيا کھجوريں بيچيں اور اس ايک درہم کی ایک صاع عمدہ کھجوريں خريدليں جو اس کے ذمہ تھا تو وہ سود سے بچ گيا کيونکہ عقد کھانے والی چيز اور روپے ميں واقع ہوا نہ کہ دو کھانے والی چيزوں کے درميان، لہذا ربا کی صورت نيست ونابود ہو گئی تو اس وقت حرمت کی کيا وجہ ہو سکتی ہے؟ پس معلوم ہوا کہ خيبر کے عامل کو رسولِ اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے جو حيلہ سکھايا وہ سود وغيرہ ميں حيلہ کے مطلق جائز ہونے ميں نص ہے کيونکہ اس ميں کسی کو اختلاف نہيں۔
ان لوگوں نے مذکورہ يہوديوں کے قصہ سے جو استدلال کيا وہ اس بات پر مبنی ہے کہ”جوچیز ہم سے پہلی اُمتوں کے لئے مشروع تھی وہ ہمارے لئے بھی مشروع ہے۔”حالانکہ صحیح بات اس کے برعکس ہے کیونکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتاہے کہ ہماری شریعت میں ان کے مخالف کچھ بھی نہیں حالانکہ آپ جان چکے ہیں کہ شارععلیہ السلام نے جو چیز ہمارے لئے مشروع قرار دی ہے وہ ان کے مخالف ہے۔