islam
کبيرہ نمبر190: شراب بنانے والے کوانگوراورکشمش بيچنا ۱؎ کبيرہ نمبر191: امرد سے بدکاری کرنے والے کواَمردبيچنا کبيرہ نمبر192: بد کاری پر اکسانے والے کو لونڈی بيچنا کبيرہ نمبر193: لہو و لعب کے آلات بنانے والے کو لکڑی بيچنا کبيرہ نمبر194: دشمنانِ اسلام کو بطورِامداد اَسلِحہ بيچنا کبيرہ نمبر195: شراب پينے والے کو شراب بيچنا کبيرہ نمبر196: بھنگ پینے والے کو بھنگ بيچنا
کبيرہ نمبر190: شراب بنانے والے کوانگوراورکشمش بيچنا ۱؎
کبيرہ نمبر191: امرد سے بدکاری کرنے والے کواَمردبيچنا
کبيرہ نمبر192: بد کاری پر اکسانے والے کو لونڈی بيچنا
کبيرہ نمبر193: لہو و لعب کے آلات بنانے والے کو لکڑی بيچنا
کبيرہ نمبر194: دشمنانِ اسلام کو بطورِامداد اَسلِحہ بيچنا
کبيرہ نمبر195: شراب پينے والے کو شراب بيچنا
کبيرہ نمبر196: بھنگ پینے والے کو بھنگ بيچنا
ان سات کو بھی کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے کيونکہ ان کا ضرر بہت عظيم ہے اور قاعدہ ہے کہ وسائل کے لئے بھی مقاصد کا ہی حکم ہوتا ہے اور چونکہ ان تمام کے مقاصد کبيرہ گناہ ہيں، لہذا وسائل کا حکم بھی يہی ہوناچاہے۔
کتاب الطہارۃ کے شروع ميں مذکور حديث پاک اس کی شہادت ديتی ہے:”جس نے برا طريقہ ايجاد کيا اس پر اس کا گناہ ہو گا اور قيامت کے دن تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہو گا۔”
یہاں ظن بھی حرمت کی جانب نسبت کے اعتبار سے علم یقینی کی طرح ہی ہے، اور ان گناہوں کے کبيرہ ہونے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس ميں ذہن تردد کا شکار ہے اور اسی طرح ذہن اس ميں بھی متردد ہے کہ اگر ايک شخص نے اپنی لونڈی ايسے شخص کو بيچی جو اسے بدکاری پر اکساتا ہے اور اسلحہ باغيوں کو بيچاتا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے پر مدد حاصل کريں اور مرغ اور بيل اس شخص کو بيچے جو اِن کی لڑائی کراتا ہے تو ان تمام صورتوں ميں ذہن ان کے کبيرہ ہونے کے بارے ميں متردد ہو جاتا ہے، ہاں البتہ ان ميں سے بعض بعض سے زيادہ کبيرہ ہونے کے قريب ہيں، پھر ميں نے شیخ الاسلام علائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو ديکھا کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:”ہمارے اصحاب نے نص قائم کی ہے کہ شراب کا بيچنا کبيرہ گناہ ہے اوريہ اپنے عادی کو فاسق کر ديتی ہے اور اسی طرح اس کے خريدنے، قيمت کھانے، لدوانے اور اس ميں کسی قسم کی کوشش کرنے کا بھی يہی حکم ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۱؎:فتاوی عالمگیری میں فتاوی قاضی خان سے ہے:”سراج الامہ حضرت سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اُس شخص کوانگورکاشیرہ فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں جواس سے شراب بنائے گاجبکہ صاحبین (یعنی امام ابویوسف وامام محمد)رحمہمااللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ایساکرنامکروہ ہے۔”اورسیدناامام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق بھی اس وقت مکروہ ہے جب وہ کسی ذمی (کافر) کواتنے دام میں بیچے کہ اتنے دام میں مسلمان نہ خریدے اوراگرمسلمان بھی اتنے دام میں خریدنے پرراضی ہوتواس وقت شراب بنانے والے کوانگورکاشیرہ بیچنامکروہ ہے اوریہ ایساہی ہے جیسے کوئی انگورکاباغ بیچے اوراسے معلوم بھی ہے کہ خریدارانگوروں سے شراب بنائے گا،اس صورت میں اگربیچنے سے اس کی نیت محض ثمن (یعنی قیمت)حاصل کرناہے توبیچنے میں کوئی حرج نہیں اوراگراس کامقصودیہ ہے کہ اس سے شراب حاصل کی جائے تومکروہ ہے اوریہی تفصیل انگورکاباغ لگانے میں ہے کہ اگروہ شراب حاصل کرنے کی نیت سے اُگاتاہے تومکروہ ہے اوراگرمقصود انگورحاصل کرناہوتومکروہ نہیں،اورافضل یہ ہے کہ شراب بنانے والے کوانگورکاشیرہ نہ بیچاجائے۔واللہ تعالیٰ اعلم (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاشربہ،الباب الثانی فی المتفرقات،ج۵،ص۴۱۶۔۴۱۷)