Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر124: چند مخصوص منتر پڑھنا کبيرہ نمبر125: تعويذات پہننا يا گنڈے لٹکانا ۱؎

کبيرہ نمبر124:        چند مخصوص منتر پڑھنا
کبيرہ نمبر125:        تعويذات پہننا يا گنڈے لٹکانا ۱؎
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ ميں نے سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا :”جس نے تعويذ پہنا اللہ عزوجل اس کا کام پورا نہ کرے اور جس نے سيپ (جو بطورِ تعويذ استعمال کی جاتی ہے) لٹکائی اللہ عزوجل اسے بے سکون رکھے گا۔”
 (المستدرک،کتاب الطب، باب اذا رأی احدکم ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۷۵۷۶،ج۵،ص۳۰۵)
 (2)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عقبہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس ميں 10افراد کے قافلے ميں حاضر ہوا تو سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے9 آدميوں کو بيعت فرما ليا اور ايک کو روک ديا لوگوں نے عرض کی، ”اس کا کيا معاملہ ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: ”اس کے بازوؤں پر تعويذ ہے۔” 
لہٰذااس شخص نے تعويذ اُتار ديا اور پھر نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے بيعت فرما ليا اور ارشاد فرمايا: ”جس نے تعويذلٹکايا اس نے شرک کيا۔”
   (المرجع السابق، الحدیث:۷۵۸۸، ج۵،ص ۹ ۳۰)
 (3)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ايک شخص کے بازو پر پٹی ديکھی، راوی کہتے ہيں :”شايد وہ پٹی زرد رنگ کی تھی۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”تم پر افسوس!يہ کيا ہے؟” اس نے عرض کی، ”بازو کے درد کا تعويذ ہے۔”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”يہ تمہاری سستی ميں اضافہ کریگا اسے پھينک دو کيونکہ تم اسی حالت ميں مر گئے تو کبھی فلاح نہ پاسکو گے۔”    (المسند للامام احمد بن حنبل ، الحدیث: ۲۰۰۲۰،ج۷،ص۲۲۸)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (4)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زوجہ محترمہ کے پاس تشريف لائے، انہوں نے کوئی چيز تعويذکے طور پر گلے ميں لٹکا رکھی تھی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کھينچ کر توڑ ديا اور ارشاد فرمايا :”جب تک کوئی حکم نازل نہ ہو عبد اللہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے گھر والے اللہ عزوجل کا شريک ٹھہرانے سے بے نياز ہو چکے ہيں۔” پھر ارشاد فرمايا کہ ميں نے سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :”منتر، تعويذ اور جادو ٹونہ شرک ہيں۔” گھر والوں نے پوچھا: ”اے ابو عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ !منتر اور تعويذات کو تو ہم پہچانتے ہيں ”یہ جادو ٹونہ سے کيا مراد ہے؟” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا:”وہ ٹوٹکے جو عورتيں شوہروں کو گرويدہ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہيں۔”
 (المستدرک،کتاب الطب، باب نھی عن الرقی والتمائم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۸۰/۷۵۷۹،ج۵ص۳۰۶)
    بعض نے کہا ہے:ـٹونہ جادو سے مشابہ يا اس کی ایک قسم ہے اور عورتيں اسے اپنے شوہر کو گرويدہ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہيں۔
(5)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے کہ حضرت سیدناابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زوجہ محترمہ نے کہا :”ميں ايک دن باہر نکلی تو فلاں شخص کی مجھ پر نظر پڑی اور ميری اس پرپڑنے والی آنکھ سے آنسوجاری ہوگئے جب ميں نے يہ تعويذ پہنا تو آنکھ بہنا رک گئی اور جب تعويذ اُتارا تو آنکھ پھربہنے لگی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمايا ”وہ شيطان ہے تم اس کی اطاعت کرتی ہو تو وہ تمہيں چھوڑ ديتا ہے اور جب اس کی نافرمانی کرتی ہو تو تمہاری آنکھ ميں انگلی مارتا ہے، ليکن تم شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے طريقے پر عمل کرو تو يہ تمہارے لئے بہتر اور حصولِ شفاء کے لئے تيز تر ثابت ہو گا ،اپنی آنکھ ميں انی ڈالو اور کہو: اَذْھِبِ البَاْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَآءَ اِلَّا شِفَآؤُکَ شِفَآءً لَّا يُغَادِرُ سُقْمًا ترجمہ: اے لوگوں کے رب ! تنگ دستی دور فرما اور شفا عطا فرما کہ تُو ہی شفا عطافرمانے والا ہے سوائے تيری شفاء کے کوئی شفا ء نہيں، وہ ايسی شفاء ہے جو کوئی بيماری نہيں چھوڑتی۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    (سنن ابن ماجۃ ، ابواب الطب،باب تعلیق التمائم،الحدیث: ۳۵۳۰،ص۲۶۸۹)
 (6)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”تعويذ وہ نہيں جو مصيبت کے بعد پہنا جائے بلکہ تعويذ تو وہ ہے جو مصيبت سے پہلے لٹکايا جائے۔”
 (المستدرک،کتاب الطب، باب تمیمۃ ماتعلق بہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۷۵۸۲،ج۵ص۳۰۷)

تنبیہ:

    ان احادیثِ مبارکہ ميں بيان کی گئی سخت وعيد خصوصاً اسے شرک کے نام سے پکارے جانے کی وجہ سے ان دونوں گناہوں کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے اگرچہ ميں نے کسی کو خاص طور پر اس کی صراحت کرتے ہوئے نہيں ديکھا مگر فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے کچھ ايسی صراحتيں ضرور کی ہيں کہ جن سے ان کے بدرجہ اَوْلیٰ کبيرہ گناہ ہونے کا تاثر ملتا ہے، البتہ تعويذ نما دھاگاوغیرہ لٹکانے کو اس صورت پر محمول کرنا متعين ہے جب يہ اعتقاد ہو کہ یہ تعويذ بذاتِ خود آفات دور کرنے کا ذريعہ ہے اور بلاشبہ يہ اعتقاد جہالت و گمراہی اور کبيرہ ترين گناہ ہے کيونکہ اگر يہ شرک نہ بھی ہو تب بھی شرک کی طرف لے جانے والا ضرور ہے کيونکہ حقيقی نافع و ضار اور مانع و دافع اللہ عزوجل ہی کی ذاتِ پاک ہے۔
    وہ منتر جو اسی معنی پر محمول ہوں يا غير عربی اور ايسے الفاظ پر محمول ہوں جن کا معنی معلوم نہ ہو تو ايسی صورت ميں ان کا استعمال حرام ہے جيسا کہ سیدنا خطابی اور سیدنا بيہقی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما وغيرہ نے صراحت کی ہے۔
    علامہ ابن سلام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ان کے مؤقف کی دليل کے طور پر يہ حدیثِ پاک پيش کی :
(7)۔۔۔۔۔۔جب سرکارِعالی وقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اس کے بارے ميں پوچھاگيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: ”اپنے تعويذات ميرے پاس لاؤ۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

   (صحیح مسلم،کتاب السلام،باب لابأس بالرقی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۵۷۳۲، ص۱۰۶۸)
    علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب يہ بيان فرمايا ہے کہ نامعلوم الفاظ پر مشتمل جملے کبھی جادو کے منتر ہوتے ہيں يا کفريات پر مشتمل ہوتے ہيں۔سیدنا خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے يہ بات ذکر کر کے فرمايا :”جب ان کا معنی معلوم ہو اور اس ميں اللہ عزوجل کا ذکر ہو تو اس کا استعمال مستحب ہے اور اس سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے۔
۱؎ :ایسے تعویذات استعمال کرنا جائز ہے جو آیاتِ قرآنیہ ،اسماء اِلٰہیہ یا دعاؤں پر مشتمل ہو ں، چنانچہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ روایت نقل فرماتے ہیں : ”حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے بالغ بچوں کو سوتے وقت یہ کلمات پڑھنے کی تلقین فرماتے : ”بِسْمِ اللہِ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّعِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُوْنَ” اور ان میں سے جو نابالغ ہوتے اور یاد نہ کرسکتے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکورہ کلمات لکھ کر ان کا تعویذ بچوں کے گلے میں ڈال دیتے ۔” (مسند امام احمد بن حنبل،مسندعبداللہ بن عمرو، الحدیث: ۶۷۰۸،ج۲،ص ۶۰۰)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    حضرت صدر الشریعہ ،بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی شہرۂ آفاق کتاب ”بہار شریعت ”میں درمختارورد المحتار کے حوالے سے فرما تے ہیں: ”گلے میں تعویذلٹکانا جائز ہے جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیاتِ قرآنیہ یا اسمائے الٰہیہ یا ادعیہ سے تعویذ کیا گیا ہو اور بعض حدیثوں میں جو ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جو ناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں، جو زمانہ جا ہلیت میں کئے جا تے تھے، اسی طرح تعویذات اور آیات و احادیث و ادعیہ رکابی میں لکھ کر مریض کو بہ نیتِ شفاء پلانا بھی جا ئز ہے ۔جنب و حائض ونفسابھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں ،بازوپرباندھ سکتے ہیں جبکہ تعویذات غلاف میں ہوں ۔”            (بہار شریعت ،حصہ ۱۶،ص۱۵۵،۱۵۶)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!