یہ اِکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا
یہ اِکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا
کہ سب کچھ خدا کا ہوا مصطفیٰ کا
یہ بیٹھا ہے سکہ تمہاری عطا کا
کبھی ہاتھ اُٹھنے نہ پایا گدا کا
چمکتا ہوا چاند غارِ حرا کا
اُجالا ہوا برجِ عرشِ خدا کا
لحد میں عمل ہو نہ دیو بلا کا
جو تعویذ میں نقش ہو نقشِ پا کا
جو بندہ خدا کا وہ بندہ تمہارا
جو بندہ تمہارا وہ بندہ خدا کا
مِرے گیسوؤں والے میں تیرے صدقے
کہ سر پر ہجومِ بلا ہے بلا کا
تِرے زیر پا مسندِ مُلک یزداں
تِرے فرق پر تاج مُلکِ خدا کا
سہارا دیا جب مِرے ناخدا نے
ہوئی ناؤ سیدھی پھرا رُخ ہوا کا
کیا ایسا قادِر قضا و قدر نے
کہ قدرت میں ہے پھیر دینا قضا کا
اگر زیر دیوارِ سرکار بیٹھوں
مِرے سر پہ سایہ ہو فضلِ خدا کا
ادَب سے لیا تاجِ شاہی نے سر پر
یہ پایا ہے سرکار کے نقشِ پا کا
خدا کرنا ہوتا جو تحت مشیت
خدا ہو کر آتا یہ بندہ خدا کا
اَذاں کیا جہاں دیکھو ایمان والو
پسِ ذِکر حق ذِکر ہے مصطفی کا
کہ پہلے زباں حمد سے پاک ہو لے
تو پھر نام لے وہ حبیب خدا کا
یہ ہے تیرے اِیمائے اَبرو کا صدقہ
ہدف ہے اثر اپنے تیر دعا کا
ترا نام لے کر جو مانگے وہ پائے
ترا نام لیوا ہے پیارا خدا کا
نہ کیونکر ہو اس ہاتھ میں سب خدائی
کہ یہ ہاتھ تو ہاتھ ہے کبریا کا
جو صحرائے طیبہ کا صدقہ نہ ملتا
کھلاتا ہی نہ پھول جھونکا صبا کا
عجب کیا نہیں گر سراپا کا سایہ
سراپا سراپا ہے سایہ خدا کا
خدا مدح خواں ہے خدا مدح خواں ہے
مِرے مصطفیٰ کا مِرے مصطفیٰ کا
خدا کا وہ طالب خدا اس کا طالب
خدا اس کا پیارا وہ پیارا خدا کا
جہاں ہاتھ پھیلا دے منگتا بھکاری
وہی در ہے داتا کی دولت سرا کا
تِرے رتبہ میں جس نے چون و چرا کی
نہ سمجھا وہ بدبخت رُتبہ خدا کا
تِرے پاؤں نے سر بلندی وہ پائی
بنا تاجِ سر عرشِ ربِّ علا کا
کسی کے جگر میں تو سر پر کسی کے
عجب مرتبہ ہے تِرے نقش پا کا
ترا دَردِ اُلفت جو دِل کی دوا ہو
وہ بے دَرد ہے نام لے جو دَوا کا
تِرے بابِ عالی کے قربان جاؤں
یہ ہے دُوسرا نام عرشِ خدا کا
چلے آؤ مجھ جاں بلب کے کنارے
کہ سب دیکھ لیں پھر کے جانا قضا کا
بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضا سے
بھلا ہو الٰہی جنابِ رضا کا