اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا
اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہو جاتا
غمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا
جو اے گل جامۂ ہستی تری پوشاک ہو جاتا
تو خارِ نیستی سے کیوں اُلجھ کے چاک ہو جاتا
جو وہ اَبر کرم پھر آبروئے خاک ہو جاتا
تو اس کے دو ہی چھینٹوں میں زمانہ پاک ہو جاتا
ہوائے دامنِ رنگیں جو ویرانہ میں آ جاتی
لباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا
لب جاں بخش کی قربت حیاتِ جاوِداں دیتی
اگر ڈورا نفس کا ریشۂ مسواک ہو جاتا
ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی اُن کے دامن کی
الٰہی صبح محشر کا گریباں چاک ہو جاتا
اگر دو بوند پانی چشمۂ رحمت سے مل جاتا
مری ناپاکیوں کے میل دُھلتے پاک ہو جاتا
اگر پیوند ملبوسِ پیمبر کے نظر آتے
ترا اے حلۂ شاہی کلیجہ چاک ہوجاتا
جو وہ گل سونگھ لیتا پھول مرجھایا ہوا بلبل
بہارِ تازگی میں سب چمن کی ناک ہو جاتا
چمک جاتا مقدر جب دُرِ دَنداں کی طلعت سے
نہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہوجاتا
عدو کی آنکھ بھی محشر میں حسرت سے نہ منھ تکتی
اگر تیرا کرم کچھ اے نگاہِ پاک ہو جاتا
بہارِ تازہ رہتیں کیوں خزاں میں دَھجیاں اُڑتیں
لباسِ گل جو اُن کی ملگجی پوشاک ہو جاتا
کماندارِ نبوت قادر اندازی میں یکتا ہیں
دو عالم کیوں نہ ان کا بستۂ فتراک ہو جاتا
نہ ہوتی شاق اگر دَر کی جدائی تیرے ذَرَّہ کو
قمر اِک اَور بھی روشن سر اَفلاک ہو جاتا
تری رحمت کے قبضہ میں ہے پیارے قلب ماہیت
مِرے حق میں نہ کیوں زہرِ گنہ تریاک ہو جاتا
خدا تارِ رَگِ جاں کی اگر عزت بڑھا دیتا
شراکِ نعل پاک سید لولاک ہو جاتا
تجلی گاہِ جاناں تک اُجالے سے پہنچ جاتے
جو تو اے توسن عمر رَواں چالاک ہو جاتا
اگر تیری بھرن اے اَبر رحمت کچھ کرم کرتی
ہمارا چشمۂ ہستی اُبل کر پاک ہو جاتا
حسنؔ اہل نظر عزت سے آنکھوں میں جگہ دیتے
اگر یہ مشت خاک اُن کی گلی کی خاک ہو جاتا