سحابِ رحمت باری ہے بارہویں تاریخ
سحابِ رحمت باری ہے بارہویں تاریخ
کرم کا چشمۂ جاری ہے بارہویں تاریخ
ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارہویں تاریخ
عدو کے دل کو کٹاری ہے بارہویں تاریخ
اسی نے موسم گل کو کیا ہے موسم گل
بہار فصل بہاری ہے بارہویں تاریخ
بنی ہے سرمۂ چشم بصیرت و ایماں
اُٹھی جو گردِ سواری ہے بارہویں تاریخ
ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباں
خوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارہویں تاریخ
فلک پہ عرشِ بریں کا گمان ہوتا ہے
زمین خلد کی کیاری ہے بارہویں تاریخ
تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشی
ہمیشہ اب تری باری ہے بارہویں تاریخ
دلوں کے میل دُھلے گل کھلے سرور ملے
عجیب چشمۂ جاری ہے بارہویں تاریخ
چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کی
خدا نے جب سے اُتاری ہے بارہویں تاریخ
خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورے
کہ اپنی روح میں ساری ہے بارہویں تاریخ
ولادتِ شہ دِیں ہر خوشی کی باعث ہے
ہزار عید سے بھاری ہے بارہویں تاریخ
ہمیشہ تو نے غلاموں کے دل کئے ٹھنڈے
جلے جو تجھ سے وہ ناری ہے بارہویں تاریخ
خوشی ہے اہل سنن میں مگر عدو کے یہاں
فغان و شیوَن و زاری ہے بارہویں تاریخ
جدھر گیا سنی آواز یَا رَسُوْلَ اللّٰہ
ہر اِک جگہ اسے خواری ہے بارہویں تاریخ
عدو وِلادتِ شیطاں کے دن منائے خوشی
کہ عید عید ہماری ہے بارہویں تاریخ
حسنؔ ولادتِ سرکار سے ہوا روشن
مِرے خدا کو بھی پیاری ہے بارہویں تاریخ