ذَوقِ نَعت ۱۳۲۶ھ برادرِ اعلیٰ حضرت شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خانشاعری
تم ہو حسرت نکالنے والے
تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے
میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کا
آپ ہیں جب سنبھالنے والے
تم سے منہ مانگی آس ملتی ہے
اور ہوتے ہیں ٹالنے والے
لب جاں بخش سے جلا دِل کو
جان مردے میں ڈالنے والے
دستِ اَقدس بجھا دے پیاس میری
میرے چشمے اُبالنے والے
ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں
تخت پر خاک ڈالنے والے
روزِ محشر بنا دے بات مری
ڈھلی بگڑی سنبھالنے والے
بھیک دے بھیک اپنے منگتا کو
اے غریبوں کے پالنے والے
ختم کردی ہے اُن پہ موزونی
واہ سانچے میں ڈھالنے والے
ان کا بچپن بھی ہے جہاں پرور
کہ وہ جب بھی تھے پالنے والے
پار کر ناؤ ہم غریبوں کی
ڈُوبتوں کو نکالنے والے
خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جا
اَرے اَو نام اُچھالنے والے
کام کے ہوں کہ ہم نکمے ہوں
وہ سبھی کے ہیں پالنے والے
زَنگ سے پاک صاف کر دل کو
اَندھے شیشے اُجالنے والے
خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہے
دِل سے کانٹا نکالنے والے