زبان اورآنکھوں والا بادَل
زبان اورآنکھوں والا بادَل:
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ”جب طوفانِ نوح کے بعدبیتُ المعمور جس کی بنیاد حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام نے رکھی تھی، کوچھٹے آسمان پراٹھایا گیا تو اللہ عزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ و السلام کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ شریف کی جگہ آکر اس کے نشانات پر بنیاد رکھیں۔ حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے مگر وہ آپ علیہ السلام سے پوشیدہ تھااور آپ علیہ السلام کو اس کا کوئی نشان دکھائی نہ دے رہا تھاتو اللہ عزَّوَجَلَّ نے ایک بادل بھیجا جولمبائی چوڑائی میں بیت اللہ شریف کی مقدارکے برابر تھا، اس کا سر،زبان اور دو آنکھیں تھیں۔ وہ بیت اللہ شریف کے مقام پر کھڑا ہو گیااورعرض کی: ”اے ابراہیم (علیہ السلام)! میری مقدار کے برابر بنیاد رکھ دیں۔” حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ السلام نے اس کے کہنے کے مطابق بنیا د رکھی پھر بادل چلا گیا ۔ جب آپ علیہ السلام اس کے بنانے سے فارغ ہوئے توطواف کیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ”لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔” آپ علیہ السلام نے عرض کی:” میری آواز کیسے پہنچے گی؟”تو اللہ عزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”اے ابراہیم (علیہ السلام)!تیرا کام ہے ندا کرنا پہنچانا ہمارے ذمہ ہے ۔” تو حضرتِ ِسیِّدُنا ابراہیم علیہ السلام نے جبل ابوقُبَیْس پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارا:
”اے اللہ عزَّوَجَلَّ کے بندو! تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے گھر بنا یا اور تمہیں اس کا حج کرنے کاحکم دیاہے۔” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سب زمین والوں کو آپ علیہ السلام کی آواز سنائی توجنّوں، انسانوں ،پتھر اور مِٹی کے ڈھیلوں،پہاڑوں اور ر یتلے میدانوں اور ہر خشک و تر نے جواب دیا۔ مشرق و مغرب والوں کو آواز پہنچائی تو ماؤں کے پیٹوں سے اورمَردوں کی پشتو ں سے سب نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ
لَا شَرِیْکَ لَکَ تو آج وہی شخص حج کریگا جس نے اس دن جواب دیا تھا ۔ جس نے ایک مرتبہ لبیک کہا تو وہ ایک مرتبہ حج کریگا، جس نے دو مرتبہ کہاوہ دو مرتبہ اور جس نے تین مرتبہ لبیک کہا وہ تین مرتبہ حج کریگا اور جس نے اس سے بھی زیادہ بارلبیک کہا وہ اتنی ہی بار حج کریگا ۔”
(شعب الایمان للبیھقی،باب فی المناسک، حیث الکعبۃ والمسجد الحرام، الحدیث ۳۹۸۹، ج۳،ص۴۳۶،مفھومًا۔اخبار مکۃ للفاکھی،ذکر ابراھیم علیہ السلام علی المقام ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۹۷۳، ج۱، ص ۴۴۵۔فردوس الاخبار للدیلمی، باب اللام، الحدیث۵۳۴۳،ج۲،ص۲۱۷)
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ”میں حسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کررہا تھا۔ میں نے عرض کی :”میرے ماں باپ آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)پر قربان! اس گھر کی شان کیاہے ؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اے علی! اللہ عزَّوَجَلَّ نے میری امت کے گناہوں کے کفارے کے لئے دنیامیں اپنا گھر بنایا ۔” میں نے عرض کی: ”میرے ماں باپ آپ (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) پر قربان !اس حجرِ اَسودکا مقام ومرتبہ کیا ہے ؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”یہ قیمتی پتھر جنت میں تھا، اللہ عزَّوَجَلَّ نے اِسے دُنیا میں اُتارا تو اس کی روشنی سورج جیسی تھی لیکن جب سے اسے مشرکین کے (ناپاک) ہاتھ لگے اس کا رنگ تبدیل ہو گیا اوراب یہ سخت سیاہ ہو گیاہے۔”
(اخبار مکۃ للفاکھی، ذکر المقام وفضلہ، الحدیث۹۶۸،ج۱، ص۴۴۳،مختصر وبتغیرٍ)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہر گھر بیت اللہ نہیں اور نہ ہی ہرپہاڑعرفات ہے، نہ ہر توشہ مکہ تک پہنچاتا ہے۔ اے وہ شخص جس نے حج فوت کر دیا۔ اس کی طرف راستہ نہ پایا۔ اپنی عمر کھیل کود میں گزار دی اور گناہوں کا بھاری بوجھ اٹھائے رکھا۔ عصیاں کے میدان میں غفلت سے اپنے دامن کو گھسیٹا ،نجات طلب کی لیکن اس تک نہ پہنچا لہٰذا تو حج میں جلدی کر اور اپنے لئے اسلام کو رہنما بنا جس کا ادراک نہ کوئی آنکھ کر سکتی ہے اورنہ ہی عقلیں اور فکریں اس کی مثال و نظیر لاسکتی ہيں۔