Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر200: بيع وغيرہ ميں دھوکاد ینا

جيسے تصريہ یعنی خریدارکوکثرت کا وہم دلانے کے لئے دود ھ والے جانور کا دودھ نہ دوہنا۔
(1)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے ہم پر اسلحہ اٹھاياوہ ہم ميں سے نہيں اور جس نے ہمیں دھوکادیاوہ ہم ميں سے نہيں۔”
( صحیح مسلم ،کتاب الایمان ،باب قول النبی من غشنا فلیس منا ،الحدیث: ۲۸۳ ، ص ۶۹۵)
(2)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ايک اناج کے ڈھيرکے پاس سے گزرے، آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اس ميں اپنا ہاتھ داخل کيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی انگلياں تر (یعنی گیلی) ہو گئیں تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے اناج والے! يہ کيا ہے؟” اس نے عرض کی:”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! اس پر بارش ہوئی تھی۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:” تم نے بھیگے ہوئے اناج کواُوپر کيوں نہ رکھا کہ لوگ ديکھ ليتے ،جس نے ہمیں دھوکادیاوہ ہم ميں سے نہيں۔”
    (المرجع السابق،الحدیث: ۲۸۴ ، ص ۶۹۵)
(3)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم ميں سے نہيں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(جامع الترمذی،ابواب البیوع، باب ماجاء فی کراہیۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۵ ۱۳، ص۱۷۸۴)
(4)۔۔۔۔۔۔سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اناج بیچنے والے ایک شخص کے پاس سے گزرے تو اس سے دریافت فرمایا: ”کیسے بیچ رہے ہو؟” اس نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کوبتاياپس اللہ عزوجل نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی طرف وحی فرمائی کہ اپنا دستِ مبارک اس میں داخل کیجئے ،جب آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ایسا کیا تواسے ترپایا چنانچہ آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔”
( سنن ابی داؤد ،کتاب البیوع ،باب فی النہی عن الغش، الحدیث:۳۴۵۲ ، ص۱۴۸۱ )
(5)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ايک اناج کے پاس سے گزرے جس کے مالک نے اسے اچھا ظاہر کيا ہوا تھا،پس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اپناہاتھ اس ميں داخل کيا تو وہ گھٹيا ثابت ہوا، آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”يہ علیحدہ بيچ! اور يہ علیحدہ بيچ! جس نے ہمیں دھوکادیاوہ ہم ميں سے نہيں۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب ، الحدیث:۵۱۱۳ ، ج۲ ،ص ۳۰۹)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(6)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بازار تشريف لے گئے وہاں غلّے کا ایک ڈھير ديکھا تو اس ميں اپنادستِ اقدس داخل کيا اور بارش سے بھیگے ہوئے اناج کو باہر نکال کر ارشاد فرمایا:”تمہيں کس نے اس (ملاوٹ)پر اُکسايا؟” اس نے عرض کی:”اس ذات کی قسم جس نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمايا ہے! يہ ايک ہی کھاناہے۔” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تو نے تراورخشک اناج کو علیحدہ علیحدہ کيوں نہ رکھا تا کہ خريدنے والے جس کو جانتے خريد ليتے، جس نے ہمیں دھوکاديا وہ ہم ميں سے نہيں۔” ( المعجم الاوسط ، الحدیث:۳۷۷۳ ،ج۳، ص ۲۹)
(7)۔۔۔۔۔۔نبئ کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جواناج بیچ رہاتھا،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اس سے استفسار فرمايا: ”اے غلّے کے مالک!کیا نیچے والااناج اُوپروالے اناج جیسا ہی ہے؟”اس نے عرض کی:”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! ہاں ایسا ہی ہے۔”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے مسلمانوں کو دھوکادیاوہ ہم میں سے نہیں۔”      ( المعجم الکبیر ، الحدیث:۹۲۱، ج۱۸ ،ص ۳۵۹)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(8)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ايک مرتبہ ايک کچی کھائی کے کنارے سے گزرے تو ديکھاکہ ايک انسان دودھ بيچ رہاہے، حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ديکھا تو کيا ديکھتے ہيں کہ اس ميں پانی ملا ہوا ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمايا:”اس وقت تيرا کيا حال ہو گا جب قيامت کے دن تجھے کہا جائے گا کہ دودھ سے پانی علیحدہ کر۔”
    ( شعب الایمان للبیہقی ، باب فی الامانات ووجوب ادائھاالی اہلھا،الحدیث:۵۳۱۰ ،ج ۴ ،ص ۳ ۳ ۳ )
(9)۔۔۔۔۔۔نبئمُ کَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے:”بيچنے کے لئے جودودھ ہواس ميں پانی نہ ملاؤ۔” (المرجع السابق، الحدیث: ۵۳۰۸،ج۴،ص۳۳۳)
(10)۔۔۔۔۔۔رسولِ اَکرم،شفيع معظَّم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشادفرمایا:”تم سے پہلے(یعنی سابقہ امتوں میں جبکہ شراب حرام نہ تھی) ايک شخص تھا وہ ایک گاؤں میں شراب بیچنے کی خاطر لے گیا، اس نے اس میں پانی ملاکر اسے دُگناکردیاپھر اس نے ایک بندر خرید لیااور سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہو گیا، جب سمندر میں پہنچا تو اللہ عزوجل نے بندر کودیناروں کی تھیلی کے بارے میں الہام فرمایا، لہٰذا اس نے وہ تھیلی لی اور بادبان کے ڈنڈے پر چڑھ گیا، اس نے تھیلی کھولی جبکہ اس کا مالک بھی اسے دیکھ رہا تھا،وہ ایک دینارسمندر میں اور ایک کشتی میں پھينکنے لگایہاں تک کہ تمام دیناروں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔” (المرجع السابق)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(11)۔۔۔۔۔۔حضرتِ سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،سولِ اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشادفرمایا:”تم سے پہلے ايک شخص تھا اس نے شراب لے کر اس ميں آدھا پانی ملايا اور پھر اسے بيچ ديا، جب رقم اکٹھی ہو گئی تو ایک لومڑی آئی اور اس نے نقدی کی وہ تھیلی لے لی اور بادبان کے ڈنڈے پر چڑھ گئی اوروہ ایک دینارکشتی میں پھینکتی اورایک سمندرميں يہاں تک کہ بٹوہ خالی ہو گيا۔”
       (المرجع السابق ، الحدیث:۵۳۰۹ ،ج۴، ص۳۳۳)
    کئی واقعات کے احتمال کی وجہ سے اس میں اور اس سے پہلے والی روایت میں کوئی منافات نہیں ۔
رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔”
( صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب قول النبی من غشنا فلیس منا، الحدیث:۲۸۳ ، ص ۶۹۵)
(12)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو سباع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ ميں نے حضرت سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر سے ايک اونٹنی خريدی، جب ميں اسے لے کر نکلاتوحضرتِ سیدناواثلہ مجھے ملے جبکہ وہ اپناتہہ بندگھسیٹ رہے تھے اور دریافت فرمایا: ” آپ اسے خريدنا چاہتے ہيں؟” ميں نے کہا:”جی ہاں۔” تو انہوں نے کہا:”کيا آپ کو اس کے (عیب کے) بارے ميں وضاحت کر دی گئی ہے؟” ميں نے کہا:”اس ميں کيا عیب ہو سکتا ہے، بے شک يہ ظاہراًموٹی تازی صحت مند ہے۔” آپ نے دریافت فرمایا:”آپ کا اس سے سفر کا ارادہ ہے يا گوشت کھانے کا؟” ميں نے کہا:”ميرا تو حج کا ارادہ ہے۔” آپ نے کہا: ”آؤ واپس لوٹانے چلیں۔”تواُونٹنی (بیچنے)والے نے کہا:”اللہ عزوجل آپ کی اصلاح فرمائے،آپ کیاچاہتے ہیں؟کیاآپ بیع توڑنا چاہتے ہیں؟”توحضرتِ سیدناواثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:”بے شک ميں نے حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :”کسی کے لئے جائز نہيں کہ کسی چيز کو عيب بيان کئے بغير بيچے اور جس کو عيب معلوم ہو اس کے لئے عيب بيان نہ کرنابھی جائز نہيں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

( شعب الایمان ،باب فی الامانات ووجوب ادائھاالی اھلھا،الحدیث:۵۲۹۵ ، ج۴،ص۳۳۰)
(13)۔۔۔۔۔۔ابن ماجہ شریف میں یہی واقعہ قدرے اختصار کے ساتھ اس فرق کے ساتھ ہے کہ حضرت سيدناواثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ميں نے اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”جس نے عيب والی چيز عيب بيان کئے بغير بيچی وہ ہميشہ اللہ عزوجل کی ناراضگی ميں رہتا ہے يا ہميشہ فرشتے اس پر لعنت بھيجتے ہيں۔”
 ( سنن ابن ماجۃ، ابواب التجارات، باب من باع عیبا فلیبینہ ، الحدیث:۲۲۴۷ ، ص ۲۶۱۱ )
(14)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی کو عيب والی چيز عيب بيان کئے بغير بيچنا جائز نہيں۔” ( المرجع السابق،الحدیث:۲۲۴۶ ، ص ۲۶۱۱)
(15)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مؤمن ايک دوسرے کے لئے خير خواہ ہيں اور ايک دوسرے سے محبت کرتے ہيں اگرچہ ان کے گھر اور بدن دور ہوں اور فاسق لوگ ايک دوسرے کو دھوکا دينے والے اور خيانت کرنے والے ہيں اگرچہ ان کے گھر اور بدن قريب ہی ہوں۔”
( الترغیب والتر ھیب ،کتاب البیوع ، التر ھیب من الغش ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث:۲۷۵۰ ، ج۲ ، ص ۳۶۸)
(16)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عالیشان ہے:”بے شک دين خيرخواہی کانام ہے۔” ہم نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کس کے لئے؟توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ عزوجل ،اس کی کتاب، اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم، مسلمانوں کے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ، اور عام لوگوں کے لئے۔”
    ( صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، باب بیان ان الدین النصیحۃ ،الحدیث:۱۹۶ ، ص ۶۸۹)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(17)۔۔۔۔۔۔نسائی شریف کے الفاظ یہ ہیں:”یقینا دین توخیرخواہی کا نام ہے۔”
( سنن النسآئی ،کتاب البیعۃ ،باب النصیحۃ للامام، الحدیث:۴۲۰۲ ، ص ۲۳۶۲ )
(18)۔۔۔۔۔۔ابو داؤد شریف میں الفاظ یہ ہیں کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بے شک دين خيرخواہی کا نام ہے، یقینا دين خيرخواہی کا نام ہے، بے شک دين خيرخواہی کا نام ہے۔” ( سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ، باب فی النصیحۃ ، الحدیث:۴۹۴۴، ص ۱۵۸۵ )
(19)۔۔۔۔۔۔طبرانی شریف میں اس طرح ہے کہ سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”دين کی اصل خير خواہی ہے۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کس کے لئے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل ، اس کے دين، مسلمانوں کے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اور عام لوگوں کے لئے۔”   ( المعجم الاوسط ، الحدیث:۱۱۸۴،ج۱،ص۳۲۷ )
(20)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدناجريررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ميں شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی:”ميں اسلام پر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بيعت کرتا ہوں۔” توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھ پر ہر مسلمان کے لئے خير خواہی کرنے کی شرط عائد کی، پس ميں نے اس بات پر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بيعت کی اور اس مسجد کے رب کی قسم!بے شک ميں تمہارا خير خواہ ہوں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

( صحیح البخاری ،کتاب الایمان ، باب قول النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم الدین النصیحۃ ، الحدیث:۵۸، ص۷)
(21)۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے:”ميں نے حکم سننے اوراطاعت کرنے پراللہ کے رسول عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بيعت کی اور يہ کہ ہر مسلمان کی خير خواہی کروں اور جب آپ کوئی چيز بيچتے يا خريدتے تو فرماتے:”جو چيزمیں نے تجھ سے لی وہ مجھے اس چیزسے زیادہ پسندہے جومیں نے تجھے دی پس تجھے اختيار ہے۔” ( سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ، باب فی النصیحۃ ، الحدیث:۴۹۴۵، ص ۱۵۸۵)
(22)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ” مجھے اپنے بندے کی عبادت ميں سب سے زيادہ پسند ميرے لئے خير خواہی کرنا ہے۔” ( المسند للامام احمد بن حنبل ،حدیث ابی امامۃ الباھلی، الحدیث:۲۲۲۵۳ ، ج۸ ،ص۲۸۰)
(23)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو مسلمانوں کے معاملے کو اہميت نہيں ديتا وہ ان ميں سے نہيں، اور جو صبح شام اللہ عزوجل، اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم، اس کی کتاب، اس کے امام اور عام مسلمانوں کے لئے خير خواہی نہيں کرتا وہ بھی ان ميں سے نہيں۔”
(المعجم الصغیر للطبرانی،الحدیث:۹۰۸ ،ج۲،ص۵۰)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(24)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تم ميں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہيں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چيز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔”
( صحیح البخاری کتاب الایمان ، باب من الایمان ان یحب لاخیہ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۱۳ ، ص ۳ )
(25)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بندہ ايمان کی حقيقت کو اس وقت تک نہيں پا سکتا جب تک کہ لوگوں کے لئے بھی وہی چيز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔”
(صحیح ابن حبان،کتاب الایمان،باب ماجاء فی صفات المؤمن،، الحدیث:۲۳۵،ج۱،ص۲۲۹)

تنبیہ:

    ان احادیثِ مبارکہ ميں اس گناہ کے مرتکب سے اسلام کی نفی کئے جانے کی وجہ سے اسے کبيرہ گناہ کہا گيا ہے اوراس وجہ سے بھی کہ وہ ہمیشہ اللہ عزوجل کی ناراضگی میں رہتا ہے یا ملائکہ اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں، پھر ميں نے بعض کو اس کے کبيرہ ہونے کی تصريح کرتے ہو ئے بھی ديکھا، ليکن الروضۃ ميں اسے صغيرہ شمار کيا گيا حالانکہ یہ بات محلِ نظر ہے کیونکہ اس میں شدید وعید پائی جاتی ہے۔
    حرام دھوکايہ ہے:”سامان والا جانتا ہو، خواہ وہ بيچنے والا ہو يا خريدنے والا، کہ اس ميں ايسا عيب ہے کہ اگرلينے والا اس پر مطلع ہو گيا تو اسے نہ لے گا۔” لہٰذا اس پر لازم ہے کہ اسے بتا دے تا کہ وہ اس کو لينے ميں بصيرت سے کام لے اور حضرت سیدنا واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغيرہ کی حديث کی بناء پر کہاگيا ہے کہ ضروری ہے کہ جو عیب نہیں جانتا اس کو وہ عيب بتا ديا جائے اگرچہ وہ اس سے نہ بھی پوچھے جيسا کہ جب کسی انسان کو ديکھے کہ وہ کسی عورت کو نکاح کا پيغام دے رہا ہے اور وہ مرد يا عورت کے کسی عيب کو جانتا ہے تو ا س پر واجب ہے کہ انہيں خبر دے يا کسی انسان کو کسی معاملہ ميں دوسرے کے ساتھ ديکھے تو وہ دونوں ميں سے کسی ايک ميں کوئی عيب جانتا ہو تو دوسرے کو بتا دے اگرچہ وہ اس سے نہ بھی پوچھے اور عام اور خاص مسلمانوں کے لئے جس خير خواہی کی تاکيد کی گئی ہے يہ سب اسی کی ادائيگی ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    ہم سے ایک طویل سوال پوچھا گیا جس میں بہت سے اَحکام کا تذکرہ ہے لہذا میں یہاں اس کا ذکر کرناپسندکروں گا کیونکہ اس میں جس نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے وہ وہی ہے جس کے بارے میں میں یہ کتاب تالیف کررہاہوں اور اس کا مرتکب وہی ہو سکتا ہے جس کا کوئی دین نہ ہونیزجو اللہ عزوجل سے غافل ہو۔
سوال:آج کل يہ عادت ہے کہ بعض تاجر حضرات بہت چھوٹے برتن ميں کالی مرچ خريدتے ہيں جيساکہ بوريا ہوتاہے، پھر اسے ایک ایسے بڑے اور بھاری برتن ميں ڈال ليتے ہيں جو بوريے کا5 گناہوتا ہے کيونکہ وہ تقريباً3من ہوتاہے اورپھراس بھاری اور بڑے برتن میں تھيلے جمع ہوتے رہتے ہيں يہاں تک کہ وہ 20من ہو جاتا ہے پھر اس برتن اوراس میں موجودچیز کوبيچا 
جاتاہے اور وزن کل کا ہوتا ہے لہذا قيمت برتن اور اس ميں موجود چیز کے مطابق وصول کی جاتی ہے،
(۱)۔۔۔۔۔۔کيا يہ فعل جائز ہے يا حرام اوردھوکا ہے، جس کے کرنے والے کو امام چاہے توتعزیرًاکوڑے مارے، بازاروں ميں چکر لگوائے، قيد کرے اور اگر حاکم کا يہ مذہب ہوکہ اس مال کا لینا جائز ہے تولے لے؟
(۲)۔۔۔۔۔۔تو کيا ايسی بيع صحيح ہو گی ياباطل اور اگر باطل ہے تو کیا یہ باطل طريقے سے لوگوں کا مال کھانا ہوا یا نہیں؟
(۳)۔۔۔۔۔۔ کيا امير شہر پر لازم ہے کہ وہ تاجروں کو ڈانٹے اور اس سے منع کرے اور ان ميں سے جو ايسا کرے اس کو سزا دے؟
(۴)۔۔۔۔۔۔کيا متقی تاجروں پر لازم ہے کہ جب انہيں کسی کے بارے ميں علم ہو کہ وہ ايسا کرتا ہے کہ وہ شرعی يا سياسی حاکموں کو خبر ديں يہاں تک کہ وہ اسے سختی سے ايسا کرنے سے منع کريں اور اگر انکار کرے تو سخت سزا ديں؟
(۵)۔۔۔۔۔۔ کيا يہ اس صورت کے علاوہ صورتوں ميں بھی ممکن ہے؟ مثلاً
٭۔۔۔۔۔۔بعض عطر بيچنے والے اور تاجر بعض چيزوں کو پانی کی طرف لے جاتے ہيں پس اس سے پانی لے ليتے ہيں جو اس کے وزن 
ميں ایک تہائی تک کا اضافہ کر ديتا ہے مثلاً زعفران۔ (یعنی پانی ملاکر وزن میں اضافہ کردیتے ہیں)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

٭۔۔۔۔۔۔ان ميں سے بعض چيزوں کو اس طرح تيار کرتے ہيں کہ وہ مکھن کی طرح ہو جاتی ہيں پس وہ اسے مکھن ظاہر کر کے بيچتے ہيں۔
٭۔۔۔۔۔۔بعض کپڑا بيچنے والے کپڑوں کو تھوڑ اسا پيوند لگا ديتے ہيں پھر اسے بيان کئے بغير بيچ ديتے ہيں، اور یہی طریقہ چٹائیوں وغیرہ میں بھی اپنایا جاتا ہے۔(مگر آج کل گانٹھوں والے کپڑے عیب بیان کئے بغیر بیچے جاتے ہیں)
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح بعض خام کپڑے کو اس طرح لپيٹتے ہيں کہ اس کی تمام قوت چلی جاتی ہے پھراسے نچوڑتے ہيں اور اس ميں ايک خاص قسم کی خوشبو رکھ ديتے ہيں جس سے وہم ہوتا ہے کہ يہ نیا ہے اور اسے نیا ظاہر کر کے بيچ ديتے ہيں۔
٭۔۔۔۔۔۔بعض اپنی دکان میں بہت زیادہ اندھیرا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ گہرا رنگ ہلکا اور بھدّرنگ حسین نظرآئے۔(مگر آج کل بعض دکاندار بہت تیز روشنی والے بلب لگاکر ایساکرتے ہیں)
٭۔۔۔۔۔۔بعض اپنے ہتھيار موم کے ساتھ صيقل کر ليتے ہيں يہاں تک کہ موم کی کثرت اور اس کی عمدہ چمک کی وجہ سے وہ مکمل طور پر نظر نہيں آتے۔
٭۔۔۔۔۔۔بعض سنار سونا چاندی کے ساتھ کھوٹ ملا ديتے ہيں پھر تمام کو سونا يا چاندی ظاہر کر کے بيچتے ہيں۔(ملاوٹ کی یہ صورت فی زمانہ معروف ہے)
٭۔۔۔۔۔۔بعض سکے یا زیورات کی تیاری کے لئے سونااور چاندی کا معلوم وزن ليتے ہيں لیکن اس وزن ميں سے سونا چاندی کم کر کے اس کی جگہ کھوٹ ملا ديتے ہيں۔(جیسا کہ آج کل کاغذی جعلی نوٹ بنائے جاتے ہیں)
٭۔۔۔۔۔۔گرم مصالحوں اوردانوں والے اکثرتاجراپنے مال ميں سے اعلیٰ کواوپر اورادنیٰ کو نيچے رکھ ديتے ہيں، گھٹيا کو اعلیٰ سے ملا ديتے ہيں يہاں تک کہ خريدنے والے کو معلوم نہيں ہو سکتااور وہ گھٹيا لے ليتا ہے اگر وہ جان لے تونہ خريدے۔
    اور اس کے علاوہ بھی ملاوٹ کی بہت سی صورتيں ہيں یہاں ہم نے جو چند صورتیں ذکر کی ہیں تو محض اس لئے کہ ان کا آپ حکم جان لیں اور بقیہ ان تمام صورتوں کو انہی پر قیاس کر لیں جن کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اگر آپ کارخانوں، پيشوں، تجارتوں، خريد وفروخت، عطر، سونا اور درہم ودينا ربنانے والوں ميں غور کريں گے تو ان کے ہاں دھوکا، ملاوٹ، خيانت، مکر اورجھوٹے حيلوں سے حيلہ بازی کرنے والوں کو پائيں گے جس سے طبيعت نفرت کرتی ہے۔کيو نکہ ہم انہيں اپنے معاملات ميں ايسا پاتے ہيں جيسا کہ دو آدمی ہيں جن کے پاس ايک دوسرے کا مقابلہ کر نے کے لئے دو تلواريں ہيں جب بھی کوئی ايک دوسرے پر قادر ہو گا تو دوسرے کو قتل کر دے گا، اسی طرح تاجر اور خريد و فروخت کرنے والوں ميں سے ہر ايک کی نيت ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنے ساتھی پر کامياب ہو جائے توجائزوناجائزہرطريقے سے اس کا تمام مال لے لے اور اسے ہلاک کر دے اور فقير بنا دے، لہذا جب ان ميں سے کسی کو يہ بات حاصل ہو جاتی ہے تو بہت زيادہ خوش ہو تا ہے اور اپنے خبيث نفس کو تسلی ديتاہے کہ وہ غالب آ گيا اور دھوکا دينے ميں کامياب ہو گيا ہے يہاں تک کہ اس کا تمام مال بھی لے ليا ہے اور اس کتے کی طرح کامياب ہو گيا ہے جو مردار پر جھپٹتا ہے اور اس کوکھا جاتاہے يہاں تک کہ اس کی کوئی چيز نہيں چھوڑتا۔
    لہذا مسلمانوں پر مہربانی کرتے ہوئے ان کے احکا م بيان کر ديں يہاں تک کہ لوگ جان ليں تا کہ مخالفت کرنے والے پر عذاب ثابت ہو جائے اور وہ حجت سے ہلاک ہو جائے اورجس کو آگاہ ہونے کے بعد عمل کی توفيق ملے وہ حجت سے زندہ ہو جائے اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس پر تفصيلی کلام کيا ہے ليکن لوگ ان تمام کے اَحکام کی وضاحت کے محتاج ہيں اور ان ميں سے بعض اس کی حرمت کو نہ جانتے ہوئے ايسا کرتے ہيں، اللہ عزوجل آپ کو اپنے احسان اور کرم سے جنت عطا فرمائے(آمين)۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جواب:برتن کو اس ميں موجود چيز کے ساتھ بيچنے کے مسئلے ميں شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ کا اتفاق ہے کہ جب اکيلے برتن کا وزن معلوم نہ ہو تو اس ميں ڈالی ہوئی چيز کے ساتھ اسے بيچا گیا تو وہ بيع باطل ہے کيونکہ اس صورت ميں دھوکا ہے اور سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دھوکے کی بيع سے منع فرمايا ہے، اسی طرح اگر جو چيز برتن ميں ڈالی جا رہی ہے اس کا وزن معلوم نہ ہو يا برتن کی قيمت طے نہ ہو يعنی عقد ميں ايسی چيزکے مقابلے ميں مال خرچ کرنا شرط ہو جو مال نہيں ہے(تویہ بیع بھی باطل ہو گی)۔ جب يہ ثابت ہو گيا تو اس سے معلوم ہوا کہ علمائے شوافع رحمہم اللہ تعالیٰاس بيع کے باطل ہونے پر متفق ہيں۔ کيونکہ مسئلہ کی صورت جس طرح کہ سائل نے ذکر کی ،يہ ہے کہ فاسق تاجربہت سے پيوند لگے ہوئے تھيلے ميں مرچ ڈالتے ہيں جس سے اس کا وزن بڑھ جاتا ہے،پھر اس مرچ وغيرہ کو برتن سميت بيچتے ہيں مثال کے طور پر ہر من 10درہم کا، پھر مرچ کا برتن سميت وزن کرتے ہيں جب يہ تمام 100من ہو جاتا ہے تو 1000درہم کا بيچ ديتے ہيں اور اس ميں باطل ہونے کی وجہ يہ ہے کہ انہوں نے برتن کو بھی بيچنے والی چيز ميں شمار کيا حالانکہ اس کا وزن مجہول ہے بلکہ اس ميں ملاوٹ اور ان کی طرف سے دھوکا ہے کيونکہ وہ اس برتن کے اندر مرچ کے لئے خانے بناتے ہيں جو اس کے وزن ميں اضافہ کرتے ہيں اور ظاہرا ًاس کو ايسا رکھتے ہيں کہ خريدنے والے کو کم وزنی ہونے کا وہم ہوتاہے اس حيثيت سے کہ اگر آپ اسے ظاہری طور پر ديکھيں گے تو يہ 4من سے زيادہ نہيں ہو گا اور جب معلوم ہونے کے بعد اسے اندر سے ديکھيں گے تو 20من ہو گا، پس اس عظيم دھوکے کی وجہ سے ان تمام ميں بيع باطل ہے يہ دھوکا اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اس کام ميں خيانت پر مشتمل ہے جس کا انہوں نے حکم ديا اور جس سے منع فرمايا۔
    اور ايساکام وہ شخص کيسے کر سکتا ہے جو يہ جانتا ہے کہ اسے اللہ عزوجل کی بارگا ہ ميں پيش ہونا ہے اور فانی زندگی ميں جو جمع کيا اسے وارثوں کے لئے چھوڑ کر جانا ہے اور اس کا بھی علم نہيں کہ وہ اس سے نفع بھی اٹھائيں گے يا نہيں بلکہ اکثر تاجروں کی اولاد اسے نافرمانيوں اور بری عادتوں ميں ضائع کر ديتی ہے جو کسی پر مخفی نہيں توکيسے کوئی اس باطل جھوٹے حيلے سے اپنے بھائی کو دھوکا دے کر اس سے اس کے مال کا 80 گناوصول کر ليتا ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    يہ سوال ميں مذکور اس بات کی تائيد کرتاہے کہ اس زمانے ميں خريد و فروخت کرنے والے ايک دوسرے کے ساتھ دو مدِمقابل لڑنے والوں کی طرح ہيں جن کے ہاتھ ميں تلواريں ہوں کہ ان دونوں ميں سے جو بھی اپنے ساتھی پر قادر ہوتا ہے اسے قتل کر ديتا ہے حالانکہ يہ مسلمانوں کی شان نہيں اور نہ ہی مؤمنين کا قانون ہے کيونکہ،
(26)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مؤمن مؤمن کے لئے ديوار کی طرح ہے جس کا بعض بعض کو پختہ کرتا ہے۔”
(صحیح البخاری، کتاب الصلوٰۃ ، باب تشبیک الاصابع فی المسجدوغیرہ ، الحدیث:۴۸۱،ص۴۰)
 (27)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”مؤمن مؤمن کا بھائی ہے اس پر ظلم نہيں کرتا، نہ اسے گالی ديتا ہے اور نہ ہی اس سے بغاوت کرتا ہے۔”
 (صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب تحریم الظلم،الحدیث:۶۵۷۸،ص۱۱۲۹،بتغیرقلیل)
    ہم تجارت يا خريد و فروخت کو حرام قرار نہيں ديتے تحقيق ہمارے پيارے آقا، دو عالم کے داتا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان باہم خريد و فروخت کرتے اور کپڑے وغيرہ کی تجارت بھی کرتے تھے،اور اسی طرح ان کے بعدعلماء اور صلحاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بھی تجارت کرتے رہے ليکن شرعی قانون اور اس حال کے مطابق جس کی طرف اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمانِ عالیشان سے اشارہ کيا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمْ بَیۡنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمْ ۟ وَلَا تَقْتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیۡمًا ﴿29﴾


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ترجمۂ کنز الايمان: اے ايمان والو آپس ميں ايک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر يہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانيں قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النساء:29)
    پس اللہ عزوجل نے واضح فرما ديا کہ تجارت اسی صورت ميں جائز ہو سکتی ہے جبکہ فريقين کی رضامندی سے ہو اور رضامندی تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ وہاں نہ تو ملاوٹ ہو اور نہ ہی دھوکا۔
    اور يہاں پر ملاوٹ اور دھوکا اس حيثيت سے ہے کہ اس شخص کا اکثر مال لے ليا گيا اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس باطل حيلے سے بے خبر ہے جو ملاوٹ اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے ساتھ دھوکا دہی پر دلالت کرتا ہے، پس يہ شديد حرام اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے،اور ايسا کرنے والا سابقہ و آئندہ احادیثِ مبارکہ کی وعيدوں کے تحت داخل ہے۔
     پس جو اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی رضا، اپنے دين اور دنيا کی سلامتی، مُرُوَّت، عزت اور اپنی آخرت چاہتا ہے اسے چاہے کہ اپنے دين کے لئے کوشش کرے اور اس دھوکے اور ملاوٹ پر مبنی کاروبار ميں سے کوئی چيز اختيار نہ کرے اور تحريری طور پر اور سچائی کے ساتھ برتن کا وزن خريدنے والے کو بيان کر دے پھر جب اس نے اس کا وزن بيان کر ديا تو اس کے لئے جائز ہے کہ برتن اوراُس میں موجود شئے کوايک قيمت ميں بيچ دے، يہاں تک کہ فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”اگر خريدنے والے کو کستوری کے برتن اور اس کے وزن کے بارے ميں بتا ديا يعنی کہا کہ يہ برتن دَس 10من وزنی ہے اور يہ کستوری بیس 20من ہے اور ميں تمہيں يہ تیس 30من ایک ہزاردرہم کا بيچوں گااور خريدنے والے نے ديکھنے اور اطمئنانِ قلب کے بعد خريد ليا تو يہ بيع جائز ہے اور يہ ملاوٹ،دھوکا اور خيانت کی تمام وجوہ سے خالی ہونے کی وجہ سے مقبول ہو گی کيونکہ برتن اور کستوری کا وزن بيان کرنے کے بعد ايک من کوایک ہزاریاسودرہم کا بيچنے ميں کوئی حرج نہيں۔
    بے شک دنيا وآخرت ميں ہلاک کرنے والا بڑا عذاب اس کے لئے ہوگا جو برتن ميں دھوکا ديتا ہے، پس ظاہراً اسے ہلکا ظاہر کرتاہے جبکہ حقيقت ميں وہ بھاری ہوتا ہے، پھر تمام کو ايک ہی قيمت ميں بيچتا ہے اور خريدنے والا اس سے بے خبر ہوتا ہے جبکہ بيچنے والا اس سے مکاری کرتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا وزن کم ہے اور اس وقت زيادہ معلوم ہو رہا ہے۔يہ پہلے سوال کا جواب ہے يعنی ايک ہی قيمت ميں برتن اور اس ميں موجود شئے کو بيچنا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اس کے علاوہ ملاوٹ اور دھوکے بازی کی دوسری بہت سی صورتيں، جو سائل نے بيان کی ہيں ان عجيب اُمور ميں سے ہيں جن کی مثال کفار سے بھی پيش نہيں کی جاسکتی چہ جائيکہ کوئی مسلمان اس طرح کرے بلکہ کفار جو تجارت کرتے ہيں اس پر اللہ عزوجل نے لعنت فرمائی ہے حالانکہ اتنی زيادہ ملاوٹ وہ بھی نہيں کرتے۔اس سے ميری مراد ملاوٹ کی وہ صورتيں جو تاجر، عطر بيچنے والے، کپڑا بيچنے والے، سونے کا کام کرنے والے، سکے بنانے والے،بنائی کا کا م کرنے والے اورتمام کارخانوں اور صنعت و حرفت والے کرتے ہيں، يہ تمام کی تمام شديد حرام ہيں اور ايسا کرنے والا فاسق، ملاوٹ اور خيانت کرنے والاہے جو باطل طريقے سے لوگوں کا مال کھاتا ہے اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بھی اور اپنے آپ کو بھی دھوکا ديتا ہے کيونکہ اس کا عذاب اسی کو ہو گا اور اس کی کثرت زمانے کے فساد، قيامت کے قرب، مالوں اور معاملات کے فساد، کارخانوں اور کھيتيوں سے بلکہ کاشتکاری کی زمينوں سے بھی برکات کے اُٹھ جانے کی موجب ہے اور اس فرمانِ عبرت نشان ميں غور و فکر کرو کہ،
(28)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت بنیادہے:”بارش کا نہ ہونا قحط نہيں بلکہ قحط تو يہ ہے کہ بارش تو ہو ليکن اس ميں تمہارے لئے برکت نہ ہو۔”
 (مسند ابی داؤد الطیالسی،الجزء العاشر،ابوصالح عن ابی ہریرۃ، الحدیث:۲۴۲۸،ص۳۱۸بتغیرٍقلیلٍ)
    تجارت اور معاملات ميں تاجر اور صنعت و حرفت والے جن برائیوں کاشکار ہيں ان کی وجہ سے اللہ عزوجل نے ان پر تاريکی مُسلَّط کر دی پس ان کے مال لے لئے گئے، گھر تباہ کر دئيے گئے بلکہ ان پر کفار کو مُسلَّط کر دياگیا پس انہوں نے انہيں قيد کر کے غلام بنا ليا اور انہيں عذاب کا مزا چکھايا، اس آخری زمانے ميں اکثر جگہوں پر مسلمانوں کو کفار نے قيد کر کے اور مال و اسباب چھين کر ان پر غلبہ پا ليا ہے کيونکہ تاجروں نے طرح طرح کی ملاوٹوں کو رائج کيا اور ظلم، دھوکا اور ناجائزطريقوں ميں سے جس طريقے سے بھی لوگوں کا مال لينے پر قادر ہوئے لينے لگے، اللہ عزوجل، جو ان کے اعمال سے آگاہ ہے، کی بھی پرواہ نہ کی اور نہ ہی اس کے بڑے عذاب اوراس کی ناراضگی سے ڈرے حالانکہ اللہ عزوجل انہیں دیکھ رہا ہے:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (1)یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوۡرُ ﴿19﴾
ترجمۂ کنز الايمان: اللہ جانتا ہے چوری چھپے کی نگاہ اور جو کچھ سينوں ميں چھپا ہے۔(پ24، المؤمن:19)
(2) فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ﴿7﴾
ترجمۂ کنز الايمان: وہ تو بھيد کو جانتا ہے اور اسے جو اس سے بھی زيادہ چھپا ہے۔(پ16، طہ:7)
(3) اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ؕ
ترجمۂ کنز الايمان:کيا وہ نہ جانے جس نے پيدا کيا۔(پ29، الملک:14)
    اگر ملاوٹ کرنے والا، باطل طريقوں سے لوگوں کا مال کھانے والا خائن اس سزا ميں غور و فکر کر لے جو قرآن و حديث ميں اس گناہ کی آئی ہے تو غالباً اس سے يا اس ميں سے بعض سے ضرور رُک جائے۔
(29)۔۔۔۔۔۔اس کی سزا کے طور پر يہی فرمان کافی ہے کہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بے شک بندہ اپنے پيٹ ميں حرام کا ايک لقمہ ڈالتا ہے تو اللہ عزوجل اس کا 40دن کا عمل قبول نہيں کرتا اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلے بڑھے آگ اس کے لئے زيادہ بہترہے۔”
(مجمع البحرین،کتاب الزھد، باب فی من اطاب مطعمہ، الحدیث: ۵۰۱۸،ج۴،ص۳۶۸)
(30)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بے شک جو امانتدار نہيں اس کا کوئی دين نہيں۔”
 (البحرالزخاربمسند البزار، مسند علی بن ابی طالب ، الحدیث: ۸۱۹،ج۳،ص۶۱)
(31)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بے شک اللہ عزوجل اس بات سے بلند وبرتر ہے کہ وہ بندے کاکوئی عمل يا نماز قبول کرے جبکہ اس پر حرام کا لباس ہو۔” (المرجع السابق)
(32)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے 10درہم کا ايک کپڑا خريدا جن ميں ايک درہم حرام کا ہے تو جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا اللہ عزوجل اس کی نماز قبول نہيں کریگا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(31)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بے شک اللہ عزوجل اس بات سے بلند وبرتر ہے کہ وہ بندے کاکوئی عمل يا نماز قبول کرے جبکہ اس پر حرام کا لباس ہو۔” (المرجع السابق)
(32)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے 10درہم کا ايک کپڑا خريدا جن ميں ايک درہم حرام کا ہے تو جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا اللہ عزوجل اس کی نماز قبول نہيں کرے گا۔”
(33)۔۔۔۔۔۔سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل جس سے محبت کرتاہے اسے بھی دنيا عطا کرتا ہے اور جس سے محبت نہيں کرتا اسے بھی ديتا ہے ليکن دين صرف اسے ديتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور جسے اللہ عزوجل نے دين عطا کيا پس اس سے محبت کی اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت ميں ميری جان ہے! کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہيں ہو سکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کے بَوَائِق سے محفوظ نہ ہو جائے۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! یہ بَوَائِق کيا ہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اس کا دھوکا اور ظلم۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن مسعود،الحدیث: ۳۶۷۲،ج۲،ص۳۳تا۳۴)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(34)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:” قيامت کے دن کو ئی بندہ اس وقت تک قدم نہيں ہٹا سکے گاجب تک کہ اس سے4سوال نہ کر لئے جائيں: (۱)عمر کے بارے ميں: کس کام ميں فناکی (۲)جوانی کے بارے ميں: کس کام ميں صرف کی (۳)مال کے بارے ميں: کہاں سے کمايااور کہاں خرچ کيا اور (۴)علم کے بارے ميں: اس پر کتنا عمل کيا۔”
 (جامع الترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ (والرقائق والورع ، باب فی القیامۃ ،الحدیث: ۲۴۱۶،ص۱۸۹۴)
(35)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:”جس نے دنيا ميں حرام مال کمايااور غير حق ميں خرچ کيا اسے ذلت کے گھر ميں پھينکا جائے گا، پھر کتنے ہی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے مال ميں خيانت کرنے والے ہيں جن کے لئے قيامت کے دن عذاب ہو گا اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیۡرًا ﴿97﴾
ترجمۂ کنز الایمان: جب کبھی بجھنے پر آئے گی ہم اسے اور بھڑکا ديں گے۔(پ15، الاسراء:97)
(شعب الایمان، باب فی قبض الید عن الاموال المحرمۃ ، الحدیث: ۵۵۲۷،ج۴،ص۳۹۶)
(36)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے:”قيامت کے دن کچھ لوگوں کو لاياجائے گا جن کے پاس تہامہ پہاڑوں کی مثل نيکياں ہوں گی يہاں تک کہ جب ان کو لايا جائے گا تو اللہ عزوجل ان نیکیوں کو اُڑتی ہوئی خاک کی طرح کر دے گا پھر انہيں جہنم ميں پھينک ديا جائے گا۔ عرض کی گئی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! يہ کيسے ہوگا؟” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”وہ نماز پڑھتے ، زکوٰۃ ديتے ، روزے رکھتے اور حج کرتے ہوں گے ليکن جب انہيں کوئی حرام چيز پيش کی جاتی تو لے ليتے تھے پس اللہ عزوجل ان کے اعمال کو مٹا دے گا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (حلیۃ الاولیاء،سالم مولی ابی حذیفۃ،الحدیث:۵۷۵،ج۱،ص۲۳۳،بتغیرٍ قلیلٍ)
    پس اے مکار، دھوکے باز، ملاوٹ کرنے والے اور ان باطل بيوعات اور فاسد تجارات کے ذريعے لوگوں کا مال کھانے والے جان لے ! تيری کوئی نماز نہيں، نہ زکوٰۃ، نہ روزہ اور نہ ہی حج جيسا کہ اس صادق و مصدوق نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے جو اپنی مرضی سے نہيں بولتے اوردھوکے باز خاص طورپر اس فرمانِ عبرت نشان میں غور و فکر کرے ۔چنانچہ،
(37)۔۔۔۔۔۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم ميں سے نہيں۔”
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی اللہ علیہ و سلَّم (من غشنا فلیس منا)الحدیث: ۲۸۳،ص۶۹۵)
    اس سے معلوم ہوتاہے کہ دھوکے کا معاملہ عظيم اور اس کا انجام بہت خطرناک ہے کيونکہ اکثر اوقات يہ چيز اسے اسلام سے نکلنے کی طرف لے جاتی ہے کيونکہ رسولِ اکرم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم اسی چیز کے بارے میں ليس مِنَّا فرماتے ہيں جو بہت زيادہ قبيح ہو اور اپنے کرنے والے کو خطرناک معاملے کی طرف لے جائے اور اس سے کفر کا خوف ہو کيونکہ جو اپنے دين کو زوال کی طرف لے جاتاہے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا يہ فرمان سنتاہے:”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم ميں سے نہيں۔” پھر بھی دنيا کی محبت کو دین پر ترجیح دیتے ہوئے اور گمراہوں کے راستے پر رضامند رہتے ہوئے ملاوٹ سے باز نہيں آتا۔
    ملاوٹ کرنے والے تاجروں اور عطر بيچنے والوں کو بھی غور کرنا چاهئے جو کہ اپنی چيزوں ميں ایسی ملاوٹ کرتے ہيں جو خريدنے والے پر پوشيدہ ہوتی ہے يہاں تک کہ غير شعوری طور پر وہ اس ميں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اسے اس ملاوٹ کا علم ہو تو اس قيمت سے وہ چيز کبھی نہ خريدے جيسا کہ،


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(38)۔۔۔۔۔۔نبی کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم سے صحيح حديث پاک مروی ہے:”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم ايک آدمی کے پاس سے گزرے جس کے سامنے اناج کاڈھير رکھاہواتھا، اللہ عزوجل نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی طرف وحی کی کہ اس ميں اپنا دستِ اقدس داخل کريں، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ايسا کياتو اس ڈھيرکے اندر کی تری سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا مبارکہ ہاتھ بھیگ گیا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے دستِ رحمت باہرنکال کر فرمايا:”اے صاحبِ طعام!(يعنی اناج والے)يہ کيا ہے؟اس نے عرض کی:”اے اللہ عزوجل کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم اس پر بارش ہو گئی تھی، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم نے بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کيوں نہ رکھا کہ لوگ ديکھ ليتے ،جس نے ملاوٹ کی وہ ہم ميں سے نہيں ۔ ” (المرجع السابق،الحدیث: ۲۸۳،ص۶۹۵ )
(39)۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں ہے:”حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اناج (کے ڈھیر)کے پاس سے گزرے جس کو اس کے مالک نے خوبصورت ظاہر کر رکھا تھا، لیکن جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّمَ نے اپنا دستِ اقدس اس میں ڈالا تو نیچے والے کو ردی پایاتو اس سے ارشاد فرمایا:”اِس کوالگ اوراُس کوالگ بیچو! جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔”
 (جامع الترمذی،ابواب البیوع، باب ماجاء فی کراہیۃ الغش فی البیوع ، الحدیث: ۱۳۱۵،ص۱۷۸۴)
(سنن ابی داؤد،کتاب الاجارہ، باب فی النھی عن الغش ، الحدیث: ۳۴۵۲،ص۱۴۸۱)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(40)۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں ہے:”جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّمَ نے اپنا دستِ مبارک اس غلے میں ڈالااور بھیگا ہوا باہر نکلا، اس سے استفسار فرمایا:” تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے ابھارا؟” اس نے جواب دیا:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اس ذات کی قسم جس نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے !یہ ایک ہی قسم کا غلّہ ہے۔”توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمایا:”تم نے ایساکیوں نہ کیا کہ تراورخشک غلے کو علیحدہ علیحدہ رکھتے تا کہ لوگ اس کو جان کر خریداری کرتے ، جس نے ہمیں دھوکادیاوہ ہم میں سے نہیں۔”
    (المعجم الاوسط ، الحدیث: ۳۷۷۳،ج۳،ص۲۹)
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب، الحدیث: ۵۱۱۳،ج۲،ص۳۰۹)
(41)۔۔۔۔۔۔مروی ہے:”جس نے مسلمانوں کو دھوکادیاوہ ان میں سے نہیں۔”
(المعجم الکبیر ، الحدیث: ۹۲۱،ج۱۸،ص۳۵۹)
    پيچھے روايت گزر چکی ہے کہ جس نے دودھ میں پانی ملايا پھر اسے بيچا اسے قيامت کے دن کہا جائے گا: دودھ سے پانی نکالو حالانکہ وہ اس پر قادر نہ ہو گا، لہذا اس کے ساتھ ايسے ہی ہو گا جيسا کہ تصويريں بنانے والوں کو قيامت کے دن کہا جائے گا: تم نے جو تصويريں بنائی ہيں انہيں زندہ کرو يعنی ان صورتوں ميں روح پھونکو جنہيں تم دنيا ميں بناتے تھے انہيں حقير اور ذليل کرنے کے لئے اور ان کے عجز اور اللہ عزوجل پر ان کی جرأت کو بيان کرنے کے لئے يہ کہا جائے گا، اسی طرح دودھ ميں پانی ملانے والے کو بھی بروزِ قیامت تمام لوگوں کے سامنے حقارت اور شرمندگی دلانے کے لئے دنيا ميں کی ہوئی ملاوٹ کی سزاديتے ہوئے دودھ سے پانی نکالنے کو کہا جائے گا۔ اسی طرح تمام ملاوٹ کرنے والوں کو اللہ عزوجل مسلمانوں سے دھوکا کرنے کی وجہ سے تمام لوگوں کے سامنے شرمسار کریگانیز ملاوٹ کرنے والے اس فرمان میں بھی غور کرليں کہ،


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(42)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شفيع مُعظَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”کسی کے لئے عيب بيان کئے بغير کوئی چيز بيچنا جائز نہيں اور جو عيب جانتاہو اس کے لئے عيب بيان نہ کرنا جائز نہيں۔”
(المسند لامام احمد بن حنبل، حدیث واثلۃ بن الاسقع، الحدیث: ۱۶۰۱۳،ج۵،ص۴۲۱)
(43)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے عيب والی چيز بيچی اور عيب بيان نہ کيا وہ ہميشہ اللہ عزوجل کی ناراضگی ميں رہتا ہے يافرشتے ہميشہ اس پر لعنت بھيجتے رہتے ہيں۔”
  (سنن ابن ماجۃ،ابواب التجارات ، باب من باع عیباً فلیبینہ،الحدیث: ۲۲۴۷،ص۲۶۱۱)
(44)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مؤمن ايک دوسرے کے لئے خيرخواہ ہيں ايک دوسرے سے محبت کرتے ہيں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام دور دراز ہوں اور فاجر لوگ ايک دوسرے سے دھوکااورخيانت کرتے ہيں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام قريب قريب ہوں۔”
(الترغیب والترہیب،کتاب البیوع وغیرہا ، الترہیب من الغش ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۷۵۰،ج۲،ص۳۶۸ )
    دھوکے بازی اورملاوٹ کے بارے میں اس کے علاوہ بھی کئی احادیث ہیں جن میں سے چند ایک پہلے گزر چکی ہیں، لہذا جس نے بھی ان پر غور و فکر کیا اور اللہ عزوجل نے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق دی تو وہ ملاوٹ سے بچ جائے گا اور اس کی عظيم برائی اور خطرے کو جان لے گا اور يہ کہ ملاوٹ کرنے والے ملاوٹ کے ذريعے جو کچھ ليتے ہيں اللہ عزوجل اسے مٹا دے گا جيسا کہ بندر اور لومڑی کے قصے ميں گزر چکا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کو ملاوٹ کرنے والوں پر مُسلَّط کر ديااور انہوں نے سمندر ميں پھينک کر ملاوٹ کے ذريعے حاصل کيا ہوا مال ضائع کر ديا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    جو ان احادیثِ مبارکہ میں غوروفکر کریگا وہ جان لے گاکہ گذشتہ سوال ميں مذکور اکثر صورتيں دھوکے بازی اور ملاوٹ ميں سے ہيں جس کا حرام ہونااس حدیث سے ثابت ہو چکا ہے کہ دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جب غلے ميں اپنا دستِ مبارک داخل کيا اور اس ڈھير کے اندر کی تری ديکھی تو ايسا کرنے والے پر ناراض ہوئے اور اسے ارشاد فرمايا:”تم نے تر حصہ عليحدہ اور خشک عليحدہ کيوں نہ کيااور عليحدہ کيوں نہ بيچا يا تر حصے کو ڈھير کے اوپر کيوں نہ رکھا يہاں تک کہ لوگ اسے جان ليتے اور ديکھ کر خريدتے۔”
    اس سے يہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ آدمی جسے اپنی چيز کے بارے ميں عيب معلوم ہو اس پرخریدار کو بيان کرنا لازم ہے اور اسی طرح اگر بيچنے والے کے علاوہ کسی کو عيب معلوم ہو جيسے اس کا پڑوسی يا دوست اور وہ کسی آدمی کو خريدتے ديکھے جو اس عيب کو نہ جانتا ہو تو اس پر بھی لازم ہے کہ اسے بيان کر دے۔
     جيساکہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عالیشان ہے:”کسی کے لئے عيب بيان کئے بغير کوئی چيز بيچنا جائز نہيں اور جو عيب جانتاہو اس کے لئے عيب بيان نہ کرنا جائز نہيں۔”
(المسند لامام احمد بن حنبل، حدیث واثلۃ بن الاسقع، الحدیث: ۱۶۰۱۳،ج۵،ص۴۲۱)
     اکثر لوگ خریدار کی رہنمائی نہيں کرتے يا پھر وہ خود بھی کسی عیب کو نہيں جانتے۔
    ايک گزرنے والاشخص کسی کو عيب والی چيز خريدتے دیکھتاجو عيب کو نہيں جانتااور وہ جاننے والا خیر خواہی کرنے سے خاموش رہتاہے يہاں تک کہ بيچنے والا اس کو دھوکا دے کر باطل طريقے سے اس کا مال لے ليتاہے، حالانکہ خاموش رہنے والا شخص یہ شعور نہیں رکھتا کہ وہ بھی حرام، کبيرہ گناہ، فسق اور ا س پر مترتب ہونے والی شديد وعيد ميں اس بیچنے والے کا برابر کا شريک ہے، اور وہ وعيد يہ ہے:”ملاوٹ کرنے والا جو خريدنے والے کو شئے کاعيب نہيں بتاتا ہميشہ اللہ عزوجل کی ناراضگی ميں رہتا ہے يا ہميشہ ملائکہ اس پر لعنت بھيجتے رہتے ہيں۔”
(45)۔۔۔۔۔۔اور يہ حديث پاک بھی اس کی تائيد کرتی ہے:”جس نے اسلام ميں برا طريقہ ايجاد کيا اس پر اس کا گناہ ہے اور قيامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث جریر بن عبد اللہ،الحدیث: ۱۹۲۲۱،ج۷،ص۶۴،بدون”الی یوم القیامۃ” )
    اس ميں کوئی شک نہيں کہ ملاوٹ کرنے والے نے برا طريقہ ايجاد کيا اور وہ مبيع (یعنی بیچی جانے والی چیز) کے عيب کو چھپانا ہے، پس اس مبيع ميں جو بھی ايسا عمل کریگا اس کا گناہ ايجاد کرنے والوں کو ہو گا اور عنقريب مَکْر اور خَدِيعہ کے باب ميں ملاوٹ کرنے والوں کے بارے ميں وعيد آئے گی کيونکہ ملاوٹ، مکر اور دھوکا کی جگہ پر ہی ہے اللہ عزوجل کا فرمان عاليشان ہے:
وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ
ترجمۂ کنز ا لايمان:اور برا داؤں(فريب ) اپنے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے۔(پ22، فاطر:43)
(46)۔۔۔۔۔۔نبئ کریم،رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم ميں سے نہيں اور مکر اور دھوکا دينے والا جہنم ميں ہے۔”
    (المعجم الکبیر، الحدیث: ۱۰۲۳۴،ج۱۰،ص۱۳۸)
(47)۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مکروفریب اور خيانت کرنے والاجہنم ميں ہے۔”
(المستدرک،کتاب الاھوال،باب تحشر ھذہ الامۃ علی ثلاثۃ اصناف،الحدیث:۸۸۳۱، ج۵، ص۸۳۳)
(48)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”دھوکا دينے والا جنت ميں داخل نہ ہو گا۔”(یعنی ابتداء )
   (المسند لامام احمد بن حنبل، مسند ابی بکر الصدیق، الحدیث:۲ ۳،ج۱،ص۲۷)
(49)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العٰلَمِین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بے شک جہنميوں ميں وہ آدمی بھی شامل ہے جو صبح شام تيرے اہل يامال ميں تجھ سے دھوکا کرتاہے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(صحیح مسلم،کتاب الجنۃ،باب الصفات التی یعرف بھافی الدنیا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۷۲۰۷،ص۱۱۷۴)
    يہ بحث اس جواب کے متعلق تھی اور بے شک ہم نے اس پر تفصيلی کلام کيا اس اُميد پر کہ جس کے دل ميں ايمان ہو وہ اسے توجہ سے سنے، اللہ عزوجل کے عذاب اور اس کی بزرگی سے ڈرے، جس کا دين اور وقار ہو اور جو اپنی موت کے بعد اپنی اولاد کے بارے ميں بھی ڈرتاہو پس وہ اللہ عزوجل سے ڈرے گا اور اس سوال ميں مذکور ملاوٹ کی تمام صورتوں کو چھوڑ دے گا اور جان لے گا کہ يہ دنيا فانی ہے اور بے شک حساب حقير اور معمولی چيزوں پر بھی واقع ہو گا اور عملِ صالح ہی اولاد کو نفع دے گا، تحقيق اللہ عزوجل کا فرمان موجود ہے:
وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ
ترجمۂ کنز الايمان:اور ان کا باپ نيک آدمی تھا۔(پ16، الکھف:82)
    حالانکہ وہ شخص ماں کی طرف سے ساتواں دادا تھا، پس اللہ عزوجل نے اس کے صدقے اس کے يتيم بچوں کو نفع ديا اور برا عمل بھی اولاد کے حق ميں مؤثر ہوتا ہے، اللہ عزوجل نے ارشاد فرمايا:
وَلْیَخْشَ الَّذِیۡنَ لَوْ تَرَکُوۡا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمْ ۪ فَلْیَتَّقُوا اللہَ وَلْیَقُوۡلُوۡا قَوْلًا سَدِیۡدًا ﴿9﴾
ترجمۂ کنز الايمان:اور ڈريں وہ لوگ اگر اپنے بعد ناتواں اولاد چھوڑتے تو ان کا کيسا انہيں خطرہ ہوتا تو چاہیے کہ اللہ سے ڈريں اور سيدھی بات کريں۔(پ4، النساء:9)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    پس جو اس آيت مبارکہ ميں غور کریگا تو اپنے برے اعمال کی وجہ سے اولاد کے بارے ميں ڈرے گا اور ان سے رُک جائے گا يہاں تک کہ اس کی مزيد نظير نہ مل سکے اور اللہ عزوجل ہی سيدھی راہ کی رہنمائی فرمانے والاہے اور اسی کی طرف سے طاقت و قوت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!