islam
یہودیوں کی جلاوطنی
ہجرت کے بعد جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ اور اطرافِ مدینہ کے یہودیوں سے ”صلح و عہد” کا معاہدہ فرمالیا۔ مگر یہودی اپنے عہد و پیمان پر قائم نہیں رہے بلکہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کا جال بچھانا شروع کردیا۔ اسی دوران یہودیوں میں سے قبیلہ ”بنونضیر”کے ذمہ دار افراد نے ایک روز یہ سازش کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر یہ عرض کریں کہ ہم کو آپ سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے اور جب وہ تشریف لے آئیں تو دیوار کے قریب ان کو بٹھایا جائے اور وہ جب گفتگو میں مصروف ہوجائیں تو چھت کے اوپر سے ایک بھاری پتھر ان کے اوپر گرا کر ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا جائے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کی بستی میں تشریف لے گئے۔ مگر ابھی آپ دیوار کے قریب بیٹھے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی یہودیوں کی سازش سے آپ کو مطلع کردیا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی کے ساتھ فوراً واپس تشریف لے گئے۔ اس طرح یہودیوں کی سازش ناکام ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجا کہ وہ بنونضیر کے یہودیوں تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ چونکہ تم لوگوں نے غداری کر کے معاہدہ توڑ ڈالا ہے اس لئے تم لوگوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ حجاز مقدس کی سرزمین سے جلا وطن ہو کر باہر نکل جاؤ۔ منافقین نے یہ سنا تو جمع ہو کر بنو نضیر کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے اس حکم کو ہرگز تسلیم نہ کرو اور یہاں سے ہرگز جلاوطن نہ ہو۔ ہم ہر طرح تمہارے شریک کار ہیں۔ بنو نضیر نے منافقین کی پشت پناہی دیکھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تیاری شروع کردی، اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا امیر بنا کر صحابہ کرام کی ایک فوج لے کر بنو نضیر کے قلعہ پر حملہ آور ہوگئے۔ یہودی اس قلعہ میں بند ہو گئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اب مسلمان ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور پھر حکم دیا کہ ان کے درختوں کو کاٹ ڈالو کیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر یہودی اسلامی لشکر پر چھاپہ مارتے۔ ان حالات کو دیکھ کر بنونضیر کے یہودیوں پر ایسا رعب بیٹھ گیا اور اس قدر خوف طاری ہو گیا کہ وہ لرز اُٹھے، اور ان کو منافقین کی طرف سے بھی بجز مایوسی اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہ آیا، آخر کار مجبور ہو کر یہودیوں نے درخواست کی کہ ہم لوگوں کو جلا وطن ہونے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کو اجازت دی گئی کہ سامانِ جنگ کے علاوہ جس قدر سامان بھی وہ اونٹوں پر لاد کر لے جانا چاہتے ہیں، لے جائیں۔ چنانچہ بنونضیر کے یہودی چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے مدینہ سے نکلے اور کچھ تو ”خیبر”چلے گئے اور زیادہ تعداد میں ملک شام جا کر ”اذرعات” اور ”اریحاء” میں آباد ہو گئے اور چلتے وقت یہودیوں نے اپنے مکانوں کو گرا کر برباد کردیا تاکہ مسلمان ان مکانوں سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔
(مدارج النبوت، بحث غزوہ بنی نضیر، ج۲ ،ص ۴۸۔۱۴۷، )
اللہ تعالیٰ نے بنونضیر کے یہودیوں کی اس جلاوطنی کا ذکر قرآن مجید کی سورہ حشر میں اس طرح فرمایا ہے کہ:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخْرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنْ اَہۡلِ الْکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ؕؔ مَا ظَنَنۡتُمْ اَنۡ یَّخْرُجُوۡا وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللہِ فَاَتٰىہُمُ اللہُ مِنْ حَیۡثُ لَمْ یَحْتَسِبُوۡا ٭ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمْ وَ اَیۡدِی الْمُؤْمِنِیۡنَ ٭ فَاعْتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ ﴿2﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کے لئے تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے تو اللہ کا حکم ان کے پاس آیا جہاں سے ان کا گمان بھی نہ تھا اور اُس نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا کہ اپنے گھر ویران کرتے ہیں اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں تو عبرت لو اے نگاہ والو۔ (پ28،الحشر:2)
درسِ ہدایت:۔یہودیوں کی قوم اپنے روایتی حسد و بغض اور تاریخی منافقت میں ہمیشہ سے مشہور ہے۔ خاص کر غداری اور بدعہدی تو اُن کا قومی خاصہ ہے اس کے علاوہ ان بدبختوں کا ظلم بھی ضرب المثل ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے بہت سے انبیاء کرام کو قتل کردیا۔ دراں حالیکہ ان بدبختوں کو یہ اعتراف تھا کہ ہم ان کو ناحق قتل کررہے ہیں۔ خداوند قدوس نے ان کی بدعہدیوں اور
وعدہ شکنیوں کا قرآن مجید میں بار بار ذکر فرما کر مسلمانوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ یہودیوں کے عہد و معاہدہ پر ہرگز ہرگز مسلمانوں کو بھروسا نہیں کرناچاہے اور ہمیشہ ان بدبختوں کی مکاریوں اور دسیسہ کاریوں سے ہوشیار رہنا چاہے۔
اور بدعہدی اور عہد شکنی کے یہ خبیث خصائل اور بدترین شرارتوں کے گھناؤنے رذائل زمانہ دراز سے آج تک بدستور یہودیوں میں موجود ہیں جیسا کہ اس دور میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ آج کل اسرائیل کی غاصبانہ حکومت بنا کر فلسطینی عربوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں؟ اور امریکہ کے یہودی کس طرح ان کی بدعہدیوں پر ان کی پیٹھ ٹھونک کر خود اترا رہے ہیں، اور اسرائیلی حکومت کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں، حالانکہ پوری دنیا اسرائیل اور امریکہ پر لعنت و ملامت کررہی ہے مگر ان بے ایمان بے حیاؤں کی شرم و حیا اس طرح غارت ہوچکی ہے کہ ان ظالموں کو اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ فلسطینی عرب تو ظاہر ہے کہ امریکی جیسی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے، مگر ہم ناامید نہیں ہیں اور قرآنی وعدوں سے پُر امید ہیں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بدستور و سابق ان لوگوں کو کوئی نہ کوئی عذابِ الٰہی تو ضرور ہلاک و برباد فرما دے گا۔