islam
ایک تاریخی مناظرہ
یہ نمرود اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا مناظرہ ہے جس کی روئیداد قرآن مجید میں مذکور ہے۔
نمرود کون تھا؟:۔”نمرود”بڑے طنطنے کا بادشاہ تھا سب سے پہلے اس نے اپنے سر پر تاج شاہی رکھا اور خدائی کا دعویٰ کیا۔ یہ ولد الزنا اور حرامی تھا اور اس کی ماں نے زنا کرالیا تھا جس سے نمرود پیدا ہوا تھا کہ سلطنت کا کوئی وارث پیدا نہ ہو گا تو بادشاہت ختم ہوجائے گی۔ لیکن یہ حرامی لڑکا بڑا ہو کر بہت اقبال مند ہوا اور بہت بڑا بادشاہ بن گیا۔ مشہور ہے کہ پوری دنیا کی بادشاہی صرف چار ہی شخصوں کو ملی جن میں سے دو مومن تھے اور دو کافر۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین تو صاحبان ایمان تھے اور نمرودو بخت نصر یہ دونوں کافر تھے۔ نمرود نے اپنی سلطنت بھر میں یہ قانون نافذ کردیا تھا کہ اس نے خوراک کی تمام چیزوں کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہ صرف ان ہی لوگوں کو خوراک کا سامان دیا کرتا تھا جو لوگ اس کی خدائی کو تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے دربار میں غلہ لینے کے لئے تشریف لے گئے تو اس خبیث نے کہا کہ پہلے تم مجھ کو اپنا خدا تسلیم کرو جبھی میں تم کو غلہ دوں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھرے دربار میں علی الاعلان فرما دیا کہ تو جھوٹا ہے اور میں صرف ایک خدا کا پرستار ہوں جو وحدہ لاشریک لہ ہے یہ سن کر نمرود آپے سے باہر ہو گیا
اور آپ کو دربار سے نکال دیا اور ایک دانہ بھی نہیں دیا۔ آپ اور آپ کے چند متبعین جو مومن تھے بھوک کی شدت سے پریشان ہو کر جاں بلب ہو گئے۔ اس وقت آپ ایک تھیلا لے کر ایک ٹیلے کے پاس تشریف لے گئے اور تھیلے میں ریت بھر کر لائے اور خداوند قدوس سے دعا مانگی تو وہ ریت آٹا بن گئی اور آپ نے اس کو اپنے متبعین کو کھلایا اور خود بھی کھایا۔ پھر نمرود کی دشمنی اس حد تک بڑھ گئی کہ اس نے آپ کو آگ میں ڈلوا دیا۔ مگر وہ آگ آپ پر گلزار بن گئی اور آپ سلامتی کے ساتھ اس آگ سے باہر نکل آئے اور علی الاعلان نمرود کو جھوٹا کہہ کر خدائے وحدہ لاشریک لہ کی توحید کا چرچا کرنے لگے۔ نمرود نے آپ کے کلمہ حق سے تنگ آ کر ایک دن آپ کو اپنے دربار میں بلایا اور حسب ذیل مکالمہ بہ صورت مناظرہ شروع کردیا۔
(تفسیر صاوی،ج۱،ص۲۱۹،۲۲۰،پ۳، البقرۃ، : ۲۵۸)
نمرود:اے ابراہیم! بتاؤ تمہارا رب کون ہے جس کی عبادت کی تم لوگوں کو دعوت دے رہے ہو؟
حضرت ابراہیم:اے نمرود! میرا رب وہی ہے جو لوگوں کو جلاتا اور مارتا ہے۔
نمرود: یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں چنانچہ اس وقت اس نے دو قیدیوں کو جیل خانہ سے دربار میں بلوایا ایک کو موت کی سزا ہوچکی تھی اور دوسرا رِہا ہوچکا تھا۔ نمرود نے پھانسی پانے والے کو تو چھوڑ دیا اور بے قصور کو پھانسی دے دی اور بولا کہ دیکھ لو کہ جو مردہ تھا میں نے اس کو جِلادیا اور جو زندہ تھا میں نے اس کو مردہ کردیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ نمرود بالکل ہی احمق اور نہایت ہی گھامڑ آدمی ہے جو ”جِلانے اور مارنے” کا یہ مطلب سمجھ بیٹھا ،اس لئے آپ نے اس کے سامنے ایک دوسری بہت ہی واضح اور روشن دلیل پیش فرمائی۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا:
حضرت ابراہیم:اے نمرود! میرا رب وہی ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تو خدا ہے تو ایک دن سورج کو مغرب سے نکال دے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دلیل سن کر نمرود مبہوت و حیران رہ گیا اور کچھ بھی نہ بول سکا۔ اس طرح یہ مناظرہ ختم ہو گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مناظرہ میں فتح مند ہو کر دربار سے باہر تشریف لائے اور توحید ِ الٰہی کا وعظ علی الاعلان فرمانا شروع کردیا۔ قرآن مجید نے اس مناظرہ کی روئیداد ان لفظوں میں بیان فرمائی کہ:۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبْرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنْ اٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ ۘ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحْیٖ وَیُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیۡتُ ؕ قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ؕ وَاللہُ لَا یَہۡدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿258﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے کہ جلاتا اور مارتا ہے بولا میں جلاتا اورمارتا ہوں ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے پورب سے تو اس کو پچھم سے لے آ تو ہوش اُڑ گئے کافر کے اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو۔ (پ3،البقرۃ:258)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے چند اسباق کی روشنی ملتی ہے کہ:
(۱)حضرت ابراہیم علیہ السلام خداوند تعالیٰ کی توحید کے اعلان پر پہاڑ کی طرح قائم رہے نہ نمرودکی بے شمار فوجوں سے خائف ہوئے، نہ اس کے ظلم و جبر سے مرعوب ہوئے بلکہ جب اس ظالم نے آپ کو آگ کے شعلوں میں ڈلوادیا اس وقت بھی آپ کے پائے عزم و استقلال میں بال برابر لغزش نہیں ہوئی اور آپ برابر نعرہ توحید بلند کرتے رہے پھر اس بے رحم نے آپ پر دانہ پانی بند کردیا۔ اس پر بھی آپ کے عزم و استقامت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ پھر اس نے آپ کو مناظرہ کا چیلنج دیا اور دربارِ شاہی میں طلب کیا تاکہ شاہی رعب و داب دکھا کر آپ علیہ السلام کو مرعوب کردے لیکن آپ نے بالکل بے خوف ہو کر مناظرہ کا چیلنج قبول فرمالیا اور دربارِ شاہی میں پہنچ کر ایسی مضبوط اور دندان شکن دلیل پیش فرمائی کہ نمرود کے ہوش اڑ گئے اور وہ ہکا بکا ہو کر لاجواب اور خاموش ہو گیا اور بھرے دربار میں اس کلمہ حق کی تجلی ہو گئی کہ
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا
ترجمہ کنزالایمان:حق آیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل کو مٹناہی تھا۔(پ15، بنی اسرائیل:81)
بالآخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صداقت و حقانیت کا پرچم سربلند ہو گیا اور نمرود ایک مچھر جیسی حقیر مخلوق سے ہلاک کردیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُسوہ حسنہ سے علماء حق کو سبق لینا چاہے کہ باطل پرستوں کے مقابلہ میں ہر قسم کے خوف و ہراس اور تکالیف سے بے نیاز ہو کر آخری دم تک ڈٹے رہنا چاہے اور یہ ایمان و یقین رکھنا چاہے کہ ضرور ضرور نصرتِ خداوندی ہماری امداد و دستگیری فرمائے گی اور بالآخر باطل پرستوں کے مقابلہ میں ہم ہی فتح مند ہوں گے اور باطل پرست یقینا خائب و خاسر ہو کر ہلاک و برباد ہوجائیں گے۔
(۲)یہ ایمان و عقیدہ مضبوطی کے ساتھ رکھنا چاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم حق پرستوں کو غیب سے روزی کا سامان دے گا کیونکہ ظالم نمرود نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غلہ دینا بند کردیا اور ملک بھر میں ان کو کہیں ایک دانہ بھی نہیں ملا تو اللہ تعالیٰ نے ریت اور مٹی کو ان کے لئے آٹا بنادیا اور اسلام کے اس عقیدہ کی حقانیت کا سورج چمک اٹھا کہ
اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیۡنُ ﴿58﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ بے شک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے۔(پ27،الذاریات:58)
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ طرزفکر و عمل اور آپ کا یہ اُسوہ تمام حق پرست عالموں کے لئے چراغ راہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے والے ضرور ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے یہ وہ تابندہ حقیقت ہے جو آفتاب عالم تاب سے بھی زیادہ تابناک اور روشن ہے۔ سبحان اللہ! کس قدر حقیقت افروز ہے یہ شعر کہ
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا