حکایت نمبر35: اِسے کفن کون دے گا………؟
حضرت سیدنا ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک مسجد میں مُؤذِّن تھے ۔آپ ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” میرا ایک نوجوان پڑوسی تھا، جیسے ہی میں اذان دیتا وہ فوراً مسجد میں آجاتا اور ہر نماز میرے ساتھ باجماعت پڑھتا ، نماز کے فوراً بعد جوتے پہنتا اور اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوجاتا، میری یہ خواہش تھی،اے کاش !یہ نوجوان مجھ سے گفتگو کرے یا مجھ سے اپنی کوئی حاجت طلب کرے ، پھرایک دن وہ نوجوان میرے پاس آیا اور کہنے لگا:” اے ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!کیا تم مجھے کچھ دیر کے لئے عاریتاََ قرآن پاک دے سکتے ہو تا کہ میں تلاوت کرسکو ں؟” میں نے اسے قرآن پاک دے دیا، اس نے قرآن حکیم کو اپنے سینے سے لگایا اور کہنے لگا :”آج ہمیں ضرور کوئی عظیم واقعہ پیش آنے والا ہے۔” یہ کہہ کر وہ نوجوان اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوگیااور سارا دن مجھے نظر نہ آیا۔ میں نے مغر ب کی اذان دی اور نماز پڑھی لیکن وہ نوجوان نہ آیا پھر عشاء کی نماز میں بھی وہ نہ آیا تو مجھے بڑی تشویش ہوئی ۔ نماز کے فوراً بعدمیں اس کے گھر کی طر ف روانہ ہوگیا۔جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس نوجوان کی میت وہاں موجود ہے اور ایک طر ف بالٹی اور لوٹا پڑا ہوا ہے اور قرآن پاک اس نوجوان کی گو د میں ہے۔ میں نے قرآن پاک اٹھایا اور لوگو ں کو اس کی موت کی خبردی اور پھر ہم نے اسے اٹھا کر چار پائی پر رکھا۔ میں ساری رات یہ سوچتا رہا کہ اس کا کفن کس سے مانگوں ؟اسے کفن کون دے گا؟ جب نماز فجر کا وقت ہوا تو میں نے اذان دی اور پھر جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا تو مجھے محراب میں ایک نور سا نظر آیا۔جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک کفن وہاں پڑا ہوا ہے ، میں نے اسے اٹھایا اور اپنے گھر رکھ آیا اور اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ اس نے کفن کا مسئلہ حل فرمادیا پھر میں نے نما ز فجر پڑھنا شروع کی جب سلام پھیرا تو دیکھاکہ میری دائیں طرف حضرت سیدنا ثابت بنائی ، حضرت سیدنا مالک بن دینار، حضرت سیدنا حبیب فارسی اور حضرت سیدنا صالح المری رحمہم اللہ تعالیٰ موجود ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا:” اے میرے بھائیو! آج صبح صبح آپ لوگ یہاں کیسے تشریف لائے؟ خیریت تو ہے؟”وہ فرمانے لگے:” کیا تمہارے پڑوس میں آج رات کسی کا انتقال ہوا ہے ؟” میں نے کہا :”جی ہاں ! ایک نوجوان کا انتقال ہوا ہے جو میرے ساتھ ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔” انہوں نے کہا:” ہمیں اس کے پا س لے چلو۔” میں انہیں لے کر اس نوجوان کے گھر پہنچا تو حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفار نے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور اس کے سجدے والی جگہ کو بو سہ دینے لگے، پھر فرمایا :”اے حجاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ !میرے ماں باپ تجھ پر قربان ! جہاں بھی تیرا حال لوگو ں پر ظاہر ہوا تو نے اس جگہ کو چھوڑ دیا اور ایسی جگہ سکونت اختیار کرلی جہاں کوئی تجھے جاننے والا نہ تھا ۔”
اس کے بعد ان بزرگوں نے اس نوجوان کو غسل دینا شرو ع کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک کفن تھا ، ہر ایک یہی
کہنے لگا:” اس نوجوان کومیں کفن دو ں گا۔” جب معاملہ طول پکڑ گیا تو میں نے ان سے کہا:” میں ساری رات اسی پریشانی میں رہا کہ اس نوجوان کوکفن کون دے گا،پھر صبح جب میں مسجد میں آیا اور اذان دینے کے بعد نماز پڑھنے لگا تو سامنے محراب میں مجھے یہ کفن نظر آیا، میں نہیں جانتاکہ کس نے یہ کفن وہاں رکھا تھا۔”اس پرسبھی کہنے لگے :”اس نوجوان کویہی کفن دیا جائے گا ۔” پھر ہم نے اسے وہی کفن دیا اور اسے لے کر قبرستان کی طر ف چل دیئے، اس نوجوان کے جنازہ میں اتنے لوگ شریک ہوئے کہ ہمیں کندھا دینے کا بھی موقع نہ مل سکا ، معلوم نہیں کہ اتنے زیادہ لوگ کہاں سے اس نوجوان کے جنازے میں شرکت کے لئے آگئے تھے؟
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)