islam
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کا عظیم کارنامہ دائرۃ المعارف
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کا عظیم کارنامہ دائرۃ المعارف
از: مولانا ڈاکٹر شیخ احمد محی الدین شرفی
، (پی ایچ ڈی) ناظم اعلیٰ دارالعلوم النعمانیہ حیدرآباد)
حضرت شیخ الاسلام حافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی تحریک پر ملا محمد عبدالقیوم حکومت نظام اور نواب عماد الملک کی مشترکہ کاوشوں سے سرزمین حیدرآباد پر ایک ایسے علمی ادارہ کا قیام عمل میں آیاجس کے باعث دنیا بھر کے اعلیٰ علمی ودینی حلقوں میں حیدرآباد کی شناخت گذشتہ ایک صدی سے قائم ہے، اور اس شہر کو گہوارہ علم و دانش سے موسوم کیا جاتا ہے، یعنی ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ جس کا قیام ۱۳۰۸ھ م۱۸۸۸ء میں عمل میں آیا۔ ’’دائرۃ المعارف‘‘ کے قیام کے ضمن میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت شیخ الاسلام فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نے اپنے سفر حج کے موقع پر مدینہ منورہ میں کچھ قدیم ترین اور نایاب مخطوطات و کتب کی نقولات تیار کروائیں اور اپنے ساتھ حیدرآباد لے آئے۔ وہ دل سے اس بات کے آرزومند تھے کہ ان کا علمی ذخیرہ دست برد زمانہ سے محفوظ رہے، اس کے لئے ایک ہی صورت تھی کہ ان کو طبع کرواکر محفوظ کیا جائے۔ حضرت شیخ الاسلامؒ کا سارا سرمایہ مدینہ منورہ میں ان مخطوطات کے نقل کروانے کے ضمن میں صرف ہوچکا تھا۔ بہر حال انہوں نے ان مخطوطات کی اشاعت کے بارے میں ملا محمد عبدالقیوم صاحب سے جو کمشنر انعام رہ چکے تھے اور سرکار میں بڑا رسوخ رکھتے تھے مشورہ کیا اور ایک ادارہ کے قیام کی تجویز پیش کی، تاکہ اس کے وسیلہ سے نایاب علمی ذخائر طبع کر کے محفوظ کئے جائیں۔ چنانچہ ملا عبدالقیوم نے حضرت شیخ الاسلام کی تجویز کے موافق نواب عمادالملک کے ساتھ مشاورت کی اور اس تحریک کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دائرۃ المعارف کی بنیاد ڈالی۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس کا قیام خود حضرت شیخ الاسلام نے عمل میں لا یا تھا اور اس کا نام ’’دائرۃ المعارف النظامیہ‘‘ رکھا۔ جو در حقیقت ایک مطبع تھا، جہاںسے پہلی کتاب ’’کنزالعمال‘‘ مؤلفہ شیخ علاء الدین برہانپوری رحمۃ اللہ علیہ طبع ہوئی۔ جب سرکار سے دائرۃ المعارف کے لئے ماہانہ پانچ سو روپئے کی امداد منظور ہوئی، تو حضرت شیخ الاسلامؒ نے دائرۃ المعارف کے انتظامات کے لئے ایک مجلس بنائی اور تمام ذمہ داری اس کے سپرد کردی۔ اس کے بعد سے دائرۃ المعارف مستحکم بنیادوں پر تدوین و تصحیح اور طباعت کے خالص علمی کام انجام دینے لگا۔ لگ بھگ ۶۵سال قبل کی ایک تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے قیام کے بعد سے چالیس سال کے دوران اس عظیم الشان اشاعتی مرکز سے ۷۶ نادر الوجود عدیم المثال کتابوں کے ۱۶۰ حصے شائع کئے جاچکے تھے۔ دائرۃ المعارف النظامیہ بعد میں دائرۃ المعارف العثمانیہ سے موسوم ہوا (۱)۔
تمام عالم اسلام سے یہاں قدیم اور نایاب عربی کتابیں اور مخطوطات وغیرہ تصحیح وطباعت کی غرض سے بھیجی جاتی تھی۔ لگ بھگ آٹھ دہوں تک دائرۃ المعارف اپنی معنوی خدمات کے سلسلہ میں پورے عالم عرب اور دنیا بھر کے علمی حلقوں کا مرکز نگاہ تھا۔ یہاں پر منتخب روزگار علماء ان علمی شہ پاروں کو زیور طبع سے آراستہ کرنے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہے۔ یقینا جب سے عرب دنیا میں مطابع کثرت سے قائم ہونے لگے، تدریجی طور پر اس کا اثر دائرۃ المعارف پر پڑنے لگا، تاہم اس ادارہ کا اعلی معیار، قدیمی وقار اور شہرت میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔
ہر دور میں دائرۃ المعارف سے بلند قامت علمی ودینی شخصیات وابستہ رہیں، جن پر دائرۃ کے اعلی روایتوں کی پاسداری اور علمی خدمات کے سلسلہ میں دائرہ کے معیار کی برقراری کی بھاری ذمہ داری ہوا کرتی۔ بانیان دائرۃ کی نیتوں کا حسن وکمال اور برکات کا اثر ہے کہ آج تک دائرۃ چنندہ علمی ہستیوں کے سبب منفرد شہرت رکھتا ہے۔ یہاں عربی زبان اور اسلامیات کی بے شمار وقیع ونادر کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن کی مکمل فہرست (کیٹلاگ) مطبوعہ شکل میں مل جاتی ہے۔ گزشتہ دس سال سے دائرہ کی علمی واشاعتی خدمات بجائے خود ایک زبردست علمی موضوع ہے، جس پر کئی محققین نے نہایت مبسوط کام کیا ہے اور دائرہ کی خدمات کے ضمن میں سینکڑوں مقالے اور مضامین دنیا کے اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ حیدرآباد آنے والی ہر علمی شخصیت کی اولین تمنا اس ادارے کا معائنہ و زیارت ہوا کرتی ہے اور دائرۃ المعارف کی بے مثال خدمات پر ان کے قلوب متاثر ہوا کرتے ہیں۔ حالیہ دور میں ہندوستان کی جن عظیم المرتبت علمی شخصیات نے دائرۃ المعارف کی خدمات انجام دیں، ان میں ڈاکٹر محمد نظام الدین صاحب، ڈاکٹر میر ولی الدین، پروفیسر محمد عبدالمعید خاں مرحوم، پروفیسر سید عبدالوہاب بخاری مرحوم، جسٹس شرف الدین صاحب، ڈاکٹر مہرالنساء، ڈاکٹر ایم اے احمد، ڈاکٹر سلیمان صدیقی، پروفیسر محمد احمد اللہ خاں اور پروفیسر محمد عبدالمجید شامل ہیں۔دائرۃ کی معنوی خدمات انجام دینے والوں میں مولانا شریف الحسینی صاحب، مولانا ہاشم ندوی صاحب، مولانا حبیب عبداللہ المدیحج صاحبؒ، ڈاکٹر عبدالستار خاں صاحب، حضرت علامہ سید محمد حبیب اللہ قادری(رشید پاشاہ) مؤظف صدر مصحح،حضرت مولانا حافظ عزیز بیگؒ، حضرت مولانا محمد عطاء اللہ نقشبندیؒ، حضرت مولانا ابوبکر الہاشمی، حضرت مولانا سید صدیق حسینی قادری، حضرت مولانا محمد الطاف حسین فاروقیؒ، حضرت مولانا محمد عمران اعظمی،حضرت مولانا قاضی محمد عبدالرشید، حضرت مولانا غوث محی الدین صدیقی، مولانا ڈاکٹر محمد سمیع اللہ خانصاحب، حضرت مولاناسیدعمرفاروق الہاشمی اور دیگر قابل احترام علماء شامل ہیں۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱)مولانا مفتی محمد رکن الدین، مطلع الانوار، ص67، (1405ھ) زیر اہتمام جمعیۃ الطلبہ جامعہ نظامیہ