islam
کبيرہ نمبر201: جھوٹی قسم کھا کر سامان بيچنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مَحبوبِ ربُّ العٰلَمِین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تین شخص ايسے ہيں کہ اللہ عزوجل ان کی طرف نہ تو نظرِ رحمت فرمائے گا اور نہ ہی انہيں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے تین بار يہ بات کہی تو ميں نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! خائب و خاسر ہونے والے وہ لوگ کون ہيں؟” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:”(۱)تہہ بند لٹکانے والا (۲)احسان جتلانے والا اور (۳)جھوٹی قسم کھا کر سامان بيچنے والا۔”
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث:۲۹۳،ص۶۹۶)
(2)۔۔۔۔۔۔جبکہ ایک اور روایت میں اس طرح ہے:”اپنے تہہ بند کو گھسیٹنے والا اور اپنی بخشش کو جتلانے والا۔” (سنن النسائی، کتاب الزکاۃ ، باب المنان بمااعطی، الحدیث:۲۵۶۴،ص۲۲۵۳)
(3)۔۔۔۔۔۔ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تین شخص ايسے ہيں کہ اللہ عزوجل قيامت کے دن ان کی طرف نظرِ رحمت نہيں فرمائے گا:(۱)بوڑھا زانی (۲)تکبر کرنے والافقير اور (۳)ايسا آدمی جسے اللہ عزوجل نے مال ديا اور وہ جھوٹی قسميں کھا کرخریدتا اوربيچتاہے۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۶۱۱۱،ج۶،ص۲۴۶)
(4)۔۔۔۔۔۔ مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل نہ تو ان سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی انہيں پاک کریگا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المعجم الاوسط، الحدیث: ۵۵۷۷،ج۴،ص۱۶۳)
(5)۔۔۔۔۔۔ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تین شخص ايسے ہيں کہ اللہ عزوجل کل(بروزِقیامت) ان کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا:(۱)بوڑھا زانی(۲)وہ شخص جو اپنا سامان ہرجائز اور ناجائز (جھوٹی ) قسميں کھا کر بيچتا ہے اور (۳)تکبر کرنے والا فقير۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۴۹۲،ج۱۷،ص۱۸۴)
(6)۔۔۔۔۔۔سرکارِ مدينہ، راحتِ قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”تین شخص ايسے ہيں کہ اللہ عزوجل ان کی طرف قيامت کے دن نہ تو نظرِ رحمت فرمائے گا اور نہ ہی انہيں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا:(۱)جو بيابان ميں اپنے فالتو پانی سے مسافروں کو روکتا ہے۔ایک اور روایت میں ہے:اللہ عزوجل اس سے ارشاد فرمائے گا:”آج ميں تم سے اسی طرح اپنافضل روک لوں گا جس طرح تم نے اس چيز کا فضل روکا تھا جس ميں تمہارے ہاتھوں نے کچھ نہيں کيا تھا، (۲)وہ آدمی جو عصر کے بعد اپنا مال بيچے اور قسم اٹھائے کہ ميں نے اتنے اتنے ميں ليا ہے اور خريدار اُسے سچا سمجھے حالانکہ اس نے اتنے کا نہ خريدا ہو اور (۳)ايسا شخص جو کسی امام(حکمران) کی دنيا کی خاطر بيعت کرے اگر وہ اسے اس کی خواہش کے مطابق کچھ دے تو اس سے وفا کرے اوراگر کچھ نہ دے تووفا نہ کرے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح البخاری، کتاب المساقاۃ،باب اثم من منع ابن السبیل من الماء، الحدیث: ۲۳۵۸،ص۱۸۴)
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۹۷،ص۶۹۶)
اور ایک روایت میں وہ تین شخص یہ ہیں:”(۱)ايسا شخص جو مال کے بارے ميں قسم اٹھاتا ہے کہ مجھے اس کی قیمت اس سے زيادہ مل رہی تھی حالانکہ وہ جھوٹاہے (۲)ايسا شخص جو عصر کے بعد جھوٹی قسم کھاتا ہے تاکہ اس سے مسلمان بندے کا مال ختم کرے اور (۳)ايسا شخص جوفالتو پانی روکے اللہ عزوجل اس سے فرمائے گا:”آج ميں تم سے اسی طرح اپنافضل روک لوں گا جس طرح تم نے وہ زائد چيز روک لی تھی جسے تم نے پیدا نہيں کيا تھا۔”
(صحیح البخاری، کتاب المساقاۃ،باب من رای ان صاحب الحوض۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۶۹،ص۱۸۵)
(7)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”چارآدمی ايسے ہيں جن پر اللہ عزوجل غضب فرمائے گا:(۱)جھوٹی قسميں کھا کر بيچنے والا (۲)متکبر فقير(۳)بوڑھا زانی اور (۴)ظالم حکمران۔” (سنن النسائی، کتاب الزکاۃ ، باب الفقیرالمحتال، الحدیث: ۲۵۷۷،ص۲۲۵۴)
(8)۔۔۔۔۔۔ نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل تين افراد سے محبت فرماتاہے اورتين کوناپسندکرتاہے۔”(حدیث بیان کرتے ہوئے راوی کہتے ہيں کہ)ميں نے عرض کی:”وہ تين کون ہيں جن پر اللہ عزوجل غضب فرماتا ہے؟”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشادفرمایا:”(۱)تکبراورفخرکرنے والا،اورقرآنِ حکيم ميں تم پاتے ہو:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ18﴾
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللہ کو نہيں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا۔(پ21، لقمان: 8 1 )
(۲)احسان جتلانے والابخيل (۳)قسميں کھانے والاتاجرياجھوٹی قسميں کھاکربيچنے والا۔”
(المستدرک ، کتاب الجہاد، ذکر رجال یبغضھم اللہ تعالی،الحدیث:۲۴۹۱،ج۲،ص۴۱۱)
(9)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :”ايک اعرابی بکری لے کر گزرا ميں نے اس سے پوچھا اسے تین درہم ميں بيچتے ہو؟” اس نے کہا:”اللہ عزوجل کی قسم! نہيں بيچتا۔” پھر تین درہم کی بيچ دی، ميں نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اس کا ذکر کيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:”اس نے دنياکے بدلے اپنی آخرت بيچ دی۔”
(صحیح ابن حبان،کتاب البیوع، الحدیث:۴۸۸۹،ج۷،ص۲۰۵)
(10)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہماری طرف آتے جبکہ ہم تجارت کر رہے ہوتے توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم ارشاد فرماتے:”اے تاجروں کے گروہ! جھوٹ سے بچو۔” (المعجم الکبیر، الحدیث: ۱۳۲،ج۲۲،ص۵۶)
(11)۔۔۔۔۔۔ سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ ذیشان ہے: ”(جھوٹی)قسم،سامان کوفروخت کروانے والی لیکن کمائی کومٹانے والی ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(سنن النسائی ، کتاب البیوع، باب المنفق سلعتہ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۴۴۶۶،ص۲۳۷۸)
اور ابو داؤد شریف میں ہے:”لیکن برکت کومٹانے والی ہے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی کراہیۃ الیمین فی البیع ،الحدیث: ۳۳۳۵،ص۱۴۷۳)
(12)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”خریدوفروخت ميں زيادہ قسميں کھانے سے بچو!کيونکہ قسم مال توبِکواتی ہے لیکن اس کی برکت مٹاديتی ہے۔”
(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب النھی عن الحلف فی البیع، الحدیث: ۴۱۲۶،ص۹۵۷)
(13)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”سچاامانت دارتاجر انبياء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، صديقین اور شہداء کے ساتھ اٹھايا جائے گا۔”
(جامع الترمذی ،ابواب البیوع، باب ماجاء فی التجار۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۱۲۰۹،ص۱۷۷۲)
(14)۔۔۔۔۔۔ سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”سچا، امانت دار مسلمان تاجر قيامت کے دن شہداء کے ساتھ اٹھايا جائے گا۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب التجارات ، باب الحث علی المکاسب، الحدیث: ۲۱۳۹،ص۲۶۰۵)
(15)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”سچا تاجر قيامت کے دن عرش کے سائے کے تلے ہو گا۔”
(کنزالعمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، باب الاول فی الکسب،الحدیث: ۹۲۱۴، ج۴،ص۵)
(16)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ ہدايت نشان ہے:”بے شک سب سے اچھی کمائی ان تاجروں کی ہے جو بات کريں تو جھوٹ نہ بوليں، جب امين بنائے جائيں توخيانت نہ کريں جب وعدہ کريں تو وعدہ خلافی نہ کريں کوئی چيز خريديں تو اس کی مذمت نہ کريں، جب بيچيں تو اس کی بيجا تعريف نہ کريں اور جب ان پر قرض ہو تو(ادائیگی میں ) ٹال مٹول نہ کريں اور ان کا کسی پر قرض ہو تو اس پر(وصولی ميں)تنگی نہ کريں۔” (شعب الایمان،باب فی حفظ اللسان،الحدیث: ۴۸۵۴،ج۴،ص۲۲۱)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(17)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے:”خريدنے اور بيچنے والے کو جدا ہونے سے پہلے پہلے اختيار ہے، اگر دونوں نے سچ بولا اور گواہ بنائے تو ان کے سودے ميں برکت دی جائے گی اور اگر دونوں نے چھپايا اور جھوٹ بولا تو ہو سکتاہے ان کو نفع تو ہو لیکن ان کے سودے سے برکت اٹھا لی جائے، کیونکہ جھوٹی قسم مال کو بِکوانے والی لیکن کمائی کی برکت مٹانے والی ہے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی خیار المتبایعین ،الحدیث: ۳۴۵۹،ص۱۴۸۱،بدون”فعسی ان یربحا”)
(18)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نماز کے لئے تشريف لائے اور لوگوں کو ديکھا کہ وہ خريد و فروخت کر رہے ہيں، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:” اے تاجروں کے گروہ!” انہوں نے نبی کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کو جواب ديا اور اپنی گردنيں اورآنکھيں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی طرف اٹھا ليں (یعنی پوری طرح متوجہ ہو گئے) تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:” تاجر قيامت کے دن فاجر(یعنی بدکار) اٹھائے جائيں گے مگر جو(اللہ عزوجل سے) ڈرے، لوگوں سے بھلائی کرے اور سچ بولے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(جامع الترمذی ،ابواب البیوع، باب ماجاء فی التجار۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۱۲۱۰،ص۱۷۷۲)
(19)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شفيع مُعظَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”بے شک تاجر ہی فاجر ہيں۔”صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! کيا اللہ عزوجل نے خريد و فروخت حلال نہيں فرمائی؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:”کيوں نہيں، ليکن وہ قسميں کھاتے ہيں،تو جھوٹے ہوتے ہيں اور بات کرتے ہيں تو جھوٹ بولتے ہيں۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث عبد الرحمٰن بن شبل، الحدیث: ۱۵۵۳۰،ج۵،ص۲۸۸)
تنبیہ:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس کو کبيرہ گناہ ميں شمار کيا گيا ہے اگرچہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسے صرا حتًاذکر نہيں کيا، شديد وعيد والی کثير احادیثِ مبارکہ کی بناء پر اسے کبيرہ قرار دينا ظاہر اور واضح ہے۔