islam
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے پسندید ہ صوفی الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کے پسندید ہ صوفی
الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی
بقلم : بحر العلوم حضرت عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ علیہ الرحمہ (سابق ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ )
نام مع ولدیت :۔ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی۔ یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائی کی اولاد میں سے ہیں ۔
ولادت :۔سترھویں رمضان ۵۶۰ھ میں تولد ہوئے آپ کی تاریخِ ولادت ’’نعمت‘‘ہے۔
مولد:۔ مریسیہ ازمتعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ ۔
وفات:۔ بائیس ربیع الثانی ۶۳۸ھ میں اس جہانِ فانی سے جہان باقی کی طرف توجہ کی ۔ آپ کا سال وفات ’’صاحبُ الارشاد‘‘ سے نکلتا ہے۔
مزار:۔ آپ کا مزار دمشق شام میں ہے مزار پر نہایت عمدہ گنبد ہے اور ایک بہت عمد ہ مسجداس سے ملحق ہے یہ مزار محلہ صالحیہ میں ہے پاس قاسون پہاڑ ہے جس پر غارِ اہلِ کہف ہے اس پہاڑ پر ہابیل کا خون بھی بتاتے ہیں ۔
شیخ ابن عربی کا طریقہ اکبریہ
سید المرسیلن حبیب رب العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
وعنہ الامام مظہر العجائب علی ابن أبی طالب رضی اللہ عنہ
وعنہ سید نا الحسن البصری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا أبو محمد الحبیب العجمی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا داؤد الطائی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا معروف کرخی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا السری السقطی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا سید الطائفہ ابوالقاسم جنیدالبغدادی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابوبکر محمد بن خلف شبلی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا عبدالعزیز التمیمی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا عبدالواحد بن عبدالعزیزالتمیمی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو الفرح محمد بن عبداللہ الطرطوسی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا علی بن احمد الہنکاری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا أبو سعید المبارک بن علی المخرمی المخزومی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو محمد الغوث الأعظم محی الدین عبدالقادرالحسنی الحسینی الکیلانی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو السعود ابن الشبلی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد الاندلسی الدمشقی المشہور بالشیخ اکبرر ضی اللہ عنہ
شیخ کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے
سیدنا مرآۃ الذّات واوّل التجلیات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
وعنہ الامام الہمام أسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا الشیخ الحسن البصری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا عبدالواحد بن زید رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا فضیل بن العیاض رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا سلطان ابراہیم بن أدہم البلخی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابوعلی شقیق بن علی بن ابراہیم رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا أبو تراب عسکر بن الحصین النخشی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو عمر والا ضطخری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا جعفر الحذاء رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو عبداللہ بن الحفیف رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا الحسن الاکّار رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو اسحاق بن شہر یا ر المرشد رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابوالفتح محمودبن احمدبن علی رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدناابو الحسن علی بن محمد البصری رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا ابو الفتح محمدبن قاسم الفاسی العد ل رضی اللہ عنہ
وعنہ سیدنا شیخ الاکبر محی الدین بن علی العربی الطائی الاندلسی الدمشقی رضی اللہ عنہ
شیخ کے معاصرین
الشیخ شہاب الدین عمرالصدیقی السہروردی رضی اللہ عنہ
الشیخ اوحدالدین الکرمانی رضی اللہ عنہ
الشیح صدرالدین القونوی رضی اللہ عنہ
الشیخ موئد الدین الجندی رضی اللہ عنہ
الشیخ عمر بن فارص البکری المصری رضی اللہ عنہ
الشیخ فخر الدین العراقی رضی اللہ عنہ
شیخ کے آخر زمانے میں جلال الدین صدیقی رومی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ کے تصنیفات
عقلہ المستوفرہ
عقیدۂ مختصرہ
عنقائے مَعَرَّب
قصیدہ البلادرات العینیہ
القول النفیس
کتاب تاج الرسایل
کتاب الثمانیہ والثلاثین وہو کتاب الازل
کتاب الجلالہ
کتاب مااتی بہ الوارد
کتاب النقبا
کتاب الیاد ہو کتاب الہود
مجموعہ رسایل ابن العربی
مراتب الوجود
مواقع النجوم
فتوحاتِ مکیہ : چار بڑی بڑی جلدوں میں ہے۔
نقش النصوص :۔ اس کی شرح مولانا جامیؔ نے کی ہے اور اس کانام نقد النصوص ہے بمبئی میں ملتی ہے ۔
تفسیر صغیر:۔ جو مطبوعہ مصر ہے عام طور سے ملتی ہے ۔
تفسیر کبیر :۔جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے
کتب مندرجۂ بالاکتب خانہ آصفیہ میں موجو دہ ہیں اور ان میں کی بہت سی کتابیں فقیر کے پاس بھی موجود ہیں ان کے سوا شیخ کی بہت سی تصنیفات ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔
عقاید شیخ اکبر
شیخ فتوحات مکیہ جلداوّل صفحہ (۳۶)میں فرماتے ہیں۔
اے میرے برادران واحباب اللہ تعالیٰ تم سے راضی رہے۔تم کو گواہ بناتا ہے ـضعیف مسکین جوہرآن ہر لحظہ فقیرومحتاج الی اللہ ہے ۔ وہ اس کتاب کا مصنف ومنشی ہے۔وہ تم کو اپنے نفس پر گواہ کرتا ہے بعد اس کے کہ وہ گواہ کرتا ہے اللہ کو اس کے فرشتوں کو اور تمام حاضرمومنین کو اور جو سنیں ان کو بھی اپنے قول وعقیدے پر شاہد بناتاہے کہ
اللہ ایک ہے ، الوہیت میں اس کا ثانی نہیں وہ بیوی بچوں سے پاک ہے منزہ ہے وہ سب کا مالک ہے، اسکا کوئی شریک نہیں بادشاہ ہے ، اسکاکوئی وزیر نہیں ، صانع ہے اس کو کوئی تدبیر بتانے والا نہیںوہ بذاۃ موجودہے ، وہ کسی موجد کا محتاج نہیں اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں اپنے وجود میں سب اس کے محتاج ہیں پس تمام عالم اس سے موجود ہے ۔ وجو دبالذّات وبنفسہ سے صرف وہ موصوف ہے،وہ عرض نہیں ہے کہ اس کی بقا مستحیل ہو، وہ جسم نہیں ہے کہ اسکے لئے جہت اور مقابلہ ہو، وہ جہات واقطار سے مقدس وپاک ہے اس کا دیداردل سے بھی ہوسکتا ہے اور آنکھوں سے بھی جب چاہے اپنے عرش پر مستوی وجلوہ گر ہوتاہے اس استوا سے اللہ کی جو مراد ہومیں اس پر ایمان رکھتاہوں ، عرش وماسوائے عرش حق جل وعلاہی سے قائم ہے دنیا بھی اسی کی ہے آخرت بھی، اول آخر سب اسی کا ہے، اس کا مثل معقول نہیں ، اسکی بے نظیری مجہول نہیں ،زمانہ اس کو محدود نہیںکرسکتا، مکان اس کو بلند نہیں کرسکتا ، وہ اس دم بھی تھا جب مکان نہ تھا وہ جیسا تھا ویسا ہی رہا او ررہے گا ، مکان اور متمکن دونوں کو ا س نے پیدا فرمایا، زمانے کو بھی اس نے پید اکیا، وہ فرماتا ہے میں ایک ہوں زندہ ہو ں مجھے حفاظت مخلوقات دشوارنہیں ، اس کی کوئی صفت ایسی نہیںجو مصنوعات کے پیدا کرنے میں پہلے سے نہ تھی اللہ تعالی اس سے اعلیٰ ہے کہ حوادث اس میں حلول کریں یااس کے صفات اس کے بعد پیداہوئے ہوں یااللہ تعالیٰ اپنے صفات سے پہلے ہو، کیونکہ یہ قبل ومابعد زمانے کے لحاظ سے ہیں جو اس کا مخلوق ہے وہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری شئے نہ تھی، وہ قیوم ہے اس پر سب کا قیام ودارومدار ہے، وہ کبھی نہیں سوتا، وہ قہار ہے اس کی ساحت عزت تک کسی کی رسائی نہیں، اس کا مثل کوئی نہیں، اس نے عرش پیداکیا اور استوا کو سلطنت کی حدبنایا، اس نے کرسی پیدا، پست زمین اور بلند آسمانوں سے اس کو وسیع تر پیدا کیا ، اس نے لوح وقلم کوپید اکیا او رروزقیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اپنے علم کے مطابق قلم سے لکھوایا، اس نے بغیر کسی سابقہ نمونے کے عالم کوپیدا کیا ، مخلوقات کوپیداکیا اور ان کو کہنہ بھی کردیا ، ارواح کو اجساد میں امین بناکر اتار ا۔ جن میں روح اتری ہے اپنا خلیفہ بنایا، آسمان زمین میں جو کچھ ہے اسکو اپنی قدرت سے انسان کا مطیع فرمادیا، جو ذرّہ حرکت کرتا ہے اس سے اسی کی طرف حرکت کرتا ہے، سب کچھ اس نے پیدا کیا، اس کو کسی کی حاجت نہ تھی، اس پر ان کے پیدا کرنے کو کسی نے واجب نہیں کیا، پیداکرنے سے پہلے اس کو ان سب کا علم تھا لہذا وہی اوّل ہے وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے، وہ ہر شئی پر قادر ہے سب کوعلم سے احاطہ کیا ہوا ہے، تمام اشیا کے عدد سے وہ واقف ہے، وہ رازوں کو اورخفی تر چیزوں کو جانتا ہے، آنکھوں کی خیانت اور سینے جن چیزوں کو چھپا تے ہیں سب کو جانتاہے ، بھلا جس کو اس نے پیدا کیا ہواس کو کیوں نہ جانے گا، کیا خود خالق بھی ہوگا اور پھر مخلوق کو نہ جانے گا ، وہ لطیف وخبیر ہے ، اشیاء کے پہلے ان کو جانتا تھا پھر اپنے علم کے موافق ان کو پیدا کیا، جب علم کے مطابق اشیا مخلوق ہوئے تواسکا علم متجدد نہ ہوا،تمام چیزوں کواتفاق وضبط سے پید ا کیا، اسی علم کے موافق تمام اشیاپر حکومت کرتا ہے اور ان پر دوسروںکو حاکم بناتاہے ، وہ تمام کلیات کو جانتاہے، جیسے وہ تمام جزئیات کا علم رکھتاہے، اس مسئلے پر تمام عقل سلیم ورائے صحیح رکھنے والوںکا اتفاق واجماع ہے پس وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے، جن چیزوں سے لوگ شرک کرتے ہیں ان سے وہ اعلیٰ وارفع ہے، اس کی قدرت کسی شئے سے متعلق ہوتی ہے تو اس سے پہلے اس کا ارادہ متعلق ہوتاہے، اس کا ارادہ کسی شئے سے متعلق نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس سے پہلے علم متعلق رہتا ہے، یعنی جان کر ارادہ کرتا ہے ، ارادہ کرکے کام کرتا ہے، عقل محال سمجھتی ہے کہ بغیر علم کے ارادہ کرے اورپھر فاعلِ مختار صاحب قوت واقتدار بھی ہو، ترک فعل کی طاقت رکھتا بھی ہو ،اسی طرح محال ہے کہ صفات بغیر ذات کے قائم رہیں، پس پہلے ذات کا مرتبہ ہے پھر صفات کا، صفات میں پہلے حیات ہے پھر علم پھر ارادہ پھر قدرت وکلام ، اس سے معلوم ہوگیا کہ تمام چیزیں ارادہ الہیٰ ہی سے ہیں، خواہ طاعت ہوخواہ عصیان خواہ فائدہ ہو خواہ نقصان ، بند ہ ہویا آزاد حیات ہو یا موت حصول ہو یا قوّت، دن ہو یا رات، اعتدال ہو یا میل، برہویابحرجفت ہو یا طاق ، جوہر ہو یا عرض، صحت ہو یا مر ض ، خوشی ہو یا غمی روح ہو یا جسد، روشنی ہویاتایکی، زمین ہویا آسمان، ترکیب ہو یا تحلیل، کثیر ہو قلیل، صبح ہویا شام، سپیدی ہو یا سیاہی ، سونا ہو یاجاگنا، ظاہر ہویاباطن، متحرک ہو یا ساکن،خشک ہو یا تر،پوست ہو یا مغز ،یہ نسبتیں جو متضاد بھی ہیں مختلف بھی ، مماثل بھی سب تحت ارادہ حق جل وعلا ہیں، یہ تحت ارادہ الہی کیونکر نہ ہوں گی جب کہ اللہ ان کا ایجاد کرنے والا ہے، کیا بے ارادہ کام کرنے والا مختار بھی ہوسکتا ہے، کوئی اس کے ارادے کو روک نہیں سکتا ،کوئی اس کے حکم سے پیٹھ نہیںپھیر سکتا، جس کو چاہتا ہے ملک حکومت دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے ملک وحکومت کو نکال لیتاہے، جس کوچاہتا ہے عزّت دیتاہے، جس کوچاہتا ہے ذلّت دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے گم راہ کرتاہے جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے ، جو چاہا ہو ا جو نہ چاہا نہ ہوا، بغیر اللہ کے ارادے کے کوئی ارادہ بھی نہیں کرسکتا بندے کسی کام کا لاکھ ارادہ کریں جب تک خدانہ چاہے وہ کام نہ ہوگا ، نہ اس کے کرنے کی استطاعت وقوّت ہی پید ا ہوگی، پس کفروایمان طاعت وعصیان اس کی مشیت وحکمت وارادت سے ہیںخدائے تعالی کا ارادہ ازلی ہے، عالم، بالذّات معدوم ہے غیر موجود فی الخارج ہے اگر چہ ذات الہی میں ثابت موجود ذہنی کے طور پر ہے، عالم کو خدانے ایجاد کیا مگر اس نے نہ فکرکی نہ جہل وعدم علم سے تدبیر کیا اور نہ تفکر وتدبر سے علم مجہول حاصل ہوا، وہ اس سے اعلیٰ وارفع ہے، اللہ نے عالَم کو ایجاد کیا تو اپنے علم سابق کے موافق اور ارادہ منزہ ازلی کے فیصلے اور تعیین کے مطابق خواہ مکان ہو یا زمان یا اکوان حقیقی وبالذّات ارادہ اللہ ہی کا ہے ، وہ خود فرماتا ہے وماتشاؤ ن الاان یشاء اللہ، اللہ تعالی نے علم کے موافق حکم کیا ، ارادے کے موافق خصوصیتیں عطاء کیں اندازہ وتقدیر کے موافق ایجاد کیا جو متحرک وساکن ہے، جو عالم اعلیٰ واسفل میں ناطق وگویاہے سب کو دیکھتا سنتاہے بُعد اس کی سماعت کا حجاب نہیں ہو سکتا، وہ قریب ہے قرب اس کی بصارت کا حجاب نہیں ہوسکتا، وہ بعید ہے دل ہی دل میں جو گفتگو کرو اسکو وہ سنتا ہے،ہاتھ کی رگڑکی خفیف سی خفیف آواز سنتا ہے، سیاہ چیز کو اندھیری وظلمت میں پانی کو پانی میں دیکھتا ہے نہ ریزش وامتزاج حجاب ہوتاہے نہ ظلمات ونور مانع ، ھوالسمیع البصیر، اللہ تعالیٰ کلام فرمایا ، مگر اس سے پہلے نہ وہ صامت تھانہ ساکت جیسا اس کا علم ، ارادہ اور قدرت قدیم ہے اسی طرح اس کا کلام بھی قدیم ہے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایااپنے کلام کا نام تنزیل وزبور وتورات انجیل رکھا، اس کاکلام نہ انسان کی طرح حرف ہے نہ صوت نہ نغمہ نہ لغات بلکہ وہ خالق اصوات وحروف ولغات ہے، اس کے کلام کے لیے نہ زبان کی ضرورت ہے نہ کوّے کی حاجت۔ جس طرح کہ اس کی سماعت کیلئے نہ سوراخ گوش کی ضرورت ہے نہ کان کی جس طرح اس کی بصر کے لیے نہ دید ے کی ضرورت ہے نہ پپوٹے کی، جیسے اس کے ارادے کا مقام نہ دل ہے نہ دماغ ،اسکاعلم نہ اضطرارسے ہے نہ دلیل وبرہان میں غور وفکر سے، نہ اس کی حیات اس بخار سے ہے جو امتزاجِ ارکان سے تجویف قلب سے نکلتاہے، اس کی ذات نہ قابل زیادت ہے نہ نقصان، سبحان اللہ وہ قریب بعیدہے، اس کی سلطنت عظیم ہے اس کے احسانات عمیم ہیں اس کاامتنان کثیر ہے، ماسویٰ اللہ اس کے جو د وسخا سے فایـــض ہے اس کا فضل وعد ل ، باسط ہے قابض ہے، عالم کی پیدایش کو کامل وعجیب وغریب بنایا جب کہ اس کو ایجاد کیا اختراع کیا، اس کا اس کے ملک وسلطنت میں کوئی شریک نہیں،نہ اسکے ملک میں کوئی اس کے ساتھ مدبر ہے نہ مشیر ہے، اگر اس نے انعام عطا کیا اور اچھا انعام عطا کیا تو ا س کا فضل ہے، اگر عذاب میں مبتلا کیا تو اس کا عدل ہے، اپنے غیر کے ملک میں اس نے تصرف نہیں کیا کہ جو روستم کی اس کی طرف نسبت کی جائے، کوئی اس پر حکم نہیں لگا سکتا کہ اسے جزع وفزع کرنا پڑے، ہر ایک اس کے سلطان قہر کے ماتحت ہے، وہ اپنے ارادے وامر سے متصرف ہے، وہ نفوس مکلفین میں تقویٰ وفجور ڈالتا ہے، لوگوں کے گناہو ں سے جس سے چاہتاہے تجاوزکرتاہے ،اور جس سے چاہتاہے مواخدہ کرتا ہے، یہاں بھی اور روزقیامت میں بھی، فضل کے موقع پر عدل نہیں کرتا اور عد ل کے موقع فضل نہیں کرتا، عالم دومٹھیوں سے نکالا، اور ان کے دودرجے کیے پھر فرمایا یہ جنت کیلئے اور مجھے اسکی کیا پرواہے اور یہ دوزخ کیلئے اور مجھے اس کی کچھ پروا نہیں،اس وقت اس پر کسی نے اعتراض نہ کیا کیونکہ اس وقت اس کے سوا کوئی تھا ہی نہیں، سب اس کے اسما کے زیر تصرف ہیں ایک مٹھی میں کے توبلاانگیزاسماکے ماتحت ہیں اور ایک مٹھی میں انعام واکرام بخش اسماکے ماتحت ہیں، اللہ سب کو خوش بخت کرنا چاہتا توہو سکتا، بدنصیب کرنا چاہتا تو کرسکتا ، مگر اس نے ایسا نہ چاہا، ہو ا وہی جیسا کہ اس نے چاہا، لہذا اُن میں سے بعض شقی ہیں بعض سعید ، یہاں بھی اور آخرت میں بھی، اللہ کے حکم قدیم میں تغیر وتبدل نہیں ہے، نمازکے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا بظاہر یہ پانچ ہیں او ردرحقیقت پچاس ہیں ۔
میری بات بدل نہیں سکتی، میں بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا، میراتصرف میری ملک میں ہے اور میری مشیت میری ملک میں ہے، اس کی ایک حقیقت ہے، جہاں تک نہ بصارت کی رسائی ہے نہ بصیرت کی اور نہ فکر وضمیر کو اس سے واقفیت ہے مگر یہ کہ اللہ کی موہبت اور رحمان کی سخاوت ان بندوں سے متعلق ہو، جن پرتوجہ خاص مبذول ہے، اُس کے نظام نامے میں مکتوب ہے، ان سب سے معلوم ہوگیا کہ شان الوہیت نے یہ تقسیم کی ہے، اور اس میں حکمت قدیم ہے، سبحان اللہ اس کے سواکوئی فاعل نہیں ،وہ سب کاخالق ہے۔اس کا کوئی خالق نہیں خلقکم وماتعملوناللہ نے تم کو بھی پیدا کیا او رتمہارے افعال کو بھی، لا یسئل عمایفعل وھم یسئلون اسکے کام پر کسی کو سوال کرنے کا مقدرونہیں ، بندوںسے جواب پر سی کا اس کو حق ہے، للہ الحجۃ البالغۃ لوشاء لھدکم اجمعین، اللہ کی حجت تام ہے ، وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کردیتا۔
دوسری شہادت :۔
میں گواہ بناتاہوں اللہ کو نیزاس کے فرشتوں کو اور تمام خلق کو اور تم کو اپنے نفس پر کہ میں توحیدالہی کا قائل ومعتقدہوں نیز اللہ سبحانہ کو گواہ بناتاہوں اور فرشتوں کو اورتم کو اپنے نفس پر کہ میں حضرت محمد مصطفی مختار ومجتبیٰ برگزیدہ خلایق وموجودات صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتاہو ں، اللہ تعالی نے آپ کو تمام لوگوں پر بشیرونذیر بناکر بھیجا، آپ اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، آپ سراج منیر ہیں ، شمع روشن ہیں، اللہ تعالی نے آپ پرجوکچھ اتارا اس کی تبلیغ کی، اللہ کی امانت کو آپ نے ادا، کیاآپ نے حجۃ الوداع آخرحج میں تمام حاضرین کے سامنے خطبہ پڑھا، آپ نے نصیحت کی ڈرایا دھمکایا خوشخبری دی وعدووعید فرمایا، گویا آپ بر سے بھی گرجے بھی، آپ کی نصیحت کسی سے خاص نہ تھی یہ سب بحکم واحد وصمدتھا، پھرآپ نے فرمایا دیکھو کیا میں نے تبلیغ نہیں کردی، لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ نے تبلیغ کی سب کچھ پہنچا دیا، آپنے فرمایا اللہ تو گواہ رہ، پھرآپ سے کہتاہوں کہ حضرت جو کچھ عقایدو احکام لائے ہیں میں اس پر ایمان لایاہوں، میں اس کامومن ہوں، احکام نبوی میں سے جن کو جانتا ہوں جن کو نہیں جانتا سب پر ایمان ہے ، میں ایسا ایمان رکھتاہوں جس میں نہ شک ہے نہ شبہ ، میں ایمان رکھتاہو ںکہ وقت مقرر پر موت حق ہے میں ایمان رکھتا ہوں کہ قبرمیں ، منکرنکیر کا سوال حق ہے اجساد کا قبروں سے بعث اور اٹھنا حق ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض اور پیش ہونا حق ہے، حو ض کوثر حق ہے میزان حق ہے، اعمال ناموں کا اڑکر ہاتھوں میں آنا حق ہے، صراط پر سے گزرناحق ہے، جنت بھی حق ہے دوزخ بھی حق ہے۔بعض لوگوں کا جنت میں جانا اور بعضـ کا دوزخ میں جانا حق ہے، بروزقیامت بعض لوگوں پر کرب وبے قراری بھی حق ہے، بعض لوگوں کو اس پر یشانی کے وقت حزن وغم نہ ہونا بھی حق ہے، انبیاء ملائکہ اور مومنین کی شفاعت بھی حق ہے،ارحم الراحمین کاسب کی شفاعتوں کے بعد بعض کو دوزخ سے نکالنا بھی حق ہے، خواہ کبیرہ گناہ کرنے والے گناہگاروںکو دوزخ میں ڈالنا پھر نکالنا بھی حق ہے، خواہ شفاعت سے، خواہ امتنان واحسان سے مومنین وموحدین کا جنت میں دائمی نعمتوںمیں ابدتک رہنابھی حق ،دوزخیوں کا ابدتک دوزخ میں رہنا بھی حق ہے ۔کتب آسمانی اور انبیاء سے جو کچھ پہنچا ہے حق ہے، خواہ ہم کو معلوم ہو یا نہ ہو، یہ میر ی شہادت ہے میرے نفس پر، یہ میری امانت ہے جس کے پاس یہ امانت پہنچے ، اگراس سے کوئی سوال کرے تووہ اس کو ظاہر کردے ، اللہ تعالی ہم کو تم کو اس ایمان سے نفع بخشے،جب ہم اس دار فانی سے انتقال کریں اس پر ثابت وقائم رکھے۔
شیح کا فلسفہ شیح کے فلسفے یا تصوّف کا دارومدار ان اصول پر مبنی ہے۔
(۱) وجود بالذّات حق تعالی میں منحصر ہے ، ماسوااللہ کا وجود بالعرض ہے۔
ممکن کا بالعرض وجود
ہستی حق ہی حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۲)وجود بمعنی مابہ الموجودیۃ عینِ ذات حق ہے، حق تعالیٰ کے سوا جتنے ہیں سب انتزاعی ہیں ان کا وجود مستقل تو کجا وجود انضمامی بھی نہیں ہے۔
خارج میں ہے اصل وجود
علم میں ساری حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۳)اسمائے الٰہہ نیزممکنات لاعین ولاغیرہیں یعنی ان کا منشا ذات حق ہے اوربعد انتزاع ومفہوم ہونے کے غیر ہیں۔
ذات وصفت ہیں فہم میں
منشا میں عینیت ہے
(حسرتؔ)
(۴)علم ومعلومات حق یعنی اعیان ثابتہ کا مرتبہ قبل قدرت وارادہ ہے یعنی غیر مخلوق ہیں۔
کن سے پہلے جو کچھ ہے
وہ مافوق القدرت ہے
(حسرتؔ)
(۵)اعیان ثابتہ وحقایق أشیا ظہورات اسمائے الہی کے امکانات ہیں جن کو وجود خارجی کی بوتک نہیںپہنچی۔
اعیان، امکانات ہی ہے
ان میں کب موجودیت ہے
(حسرتؔ)
(۶)کُن سے پہلے مراتب داخلی والہی ہیں، اورکن کے بعد مراتب خارجی ومخلوقات ہیں۔
(۷)اعیانِ ثابتہ مخلوقات وحقایق کونیہ ، وطباع ممکنات پر اسماء صفات الہی کی تجلی ہوتی ہے یا یوں کہو کہ علم کے ساتھ قدرت الہی ملتی ہے ، توان دونوں کے ملنے سے جو چیز نمایاں ہوتی ہے وہ مخلوقات وممکنات ہیں۔
عین سے جب کن ملتاہے
حادث ساری خلقت ہے
(حسرتؔ)
(۸)اعیانِ ثابتہ وحقایق ممکنات پر ویسی ہی تجلی ہوتی ہے جیسا ان کا اقتضا ہے ،
دیتا ہے ہر اک کو حکیم
جس کی جیسی لیاقت ہے
وہی نمایاں ہوتا ہے
جس کی جیسی فطرت ہے
(حسرتؔ)
(۹)حقیقت کلی پرتجلی کلی ، اور حقیقت جزئی پر تجلی جزئی ہوتی ہے۔
قدرِ وسعِ آئینہ
ظاہر ہوتی صورت ہے
(حسرتؔ)
(۱۰)اَعیان وحقایق کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ایسے کیوںہیں۔
کیونکہ سوال کی حد بھی ہے
خارج اس سے حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۱۱)تقدیر کیا ہے۔ عالم میں جو کچھ نمایاں ہونے والا ہے ، اس کا نظام العمل یا پر وگرام ہے ۔
ترتیب اعیاں میں ظہور
عینِ قدر و قسمت ہے
(حسرتؔ)
(۱۲)اسے ب پید ا ہوا، ب کا نیتجہ ج ہے ج کو د لازم ہے تویہ استلزام ہے نہ کہ جبر ، جبر کیا ہے کسی کو اس کے اَفعالِ طبیعی سے کسی خارجی قوّت کا روکنا۔
استلزام نہیں ہے جبر
جبر تو غیرکی قوت ہے
(حسرتؔ)
(۱۳)وجودِمطلق،غیرِمطلق ہے اور عدمِ محض شرِمحض وجود اضافی کے ساتھ عدمِ اضافی لگارہتاہے لہذا اس سے کچھ شر ظاہر ہوتاہے۔
شرّیت سب عدم سے ہے
ہست میں سب خیریت ہے
فہم میں جو شرآتاہے
مرجع اس کا اضافت ہے
(حسرتؔ)
(۱۴)مرکبات کو جو اعتباری مگر واقعی ہونے میں مخلوقیت مجھولیت یعنی پیدا ہونا عارض ہوتا ہے نہ کہ بسایط کو۔
(۱۵)مرکب گو اعتباری ہوتاہے مگر اس کی بھی ایک طبیعت وحقیقت ہوتی ہے اور اس کے لوازم وآثارہو تے ہیں جو اجزاء کے آثار کے سوا ہیں۔
خلق بسیط نہیں ہوتا
غیرمیں مخلوقیت ہے
اجزاکے احکام ہیں اور
کل کی اور علامت ہے
(حسرتؔ)
(۱۶)علم معلوم کا تابع ہوتا ہے یعنی جیسی چیزہوتی ہے ویساہی خدائے تعالیٰ جانتاہے یہ کہ کچھ او رہے اور جانتاکچھ اور طرح ہے۔
(۱۷)انقلاب حقایق جائزنہیں پس عدم ، وجود نہیں ہوسکتا نہ وجودعدم ۔
نیست بھلا کیا ہوگا ہست
باطل قلبِ حقیقت ہے
(حسرتؔ)
(۱۸)وجود علمی کو ثبوت ، اوروجود خارجی کو وجودکہتے ہیںبعض دفعہ ثبوت وجودعلمی کو عدم بھی کہہ دیتے ہیں لہذا اعیانِ ثابتہ ، جو معلوماتِ حق ہیں غیر موجو دفی الخارج اور معدوم ہیں
(۱۹)عین ثابتہ کی استعداد کلی کے مطابق عین خارجی کے استعدادات پیدا ہوتے ہیں۔
(۲۰)حق تعالیٰ سے ہردم وہر لحظہ امداد وجود ہے اورممکن ومخلوق ہر لحظہ اس کی طرف محتاج ہے حق تعالیٰ قیوم السماوات والارض ہے ۔
(۲۱)ظہورات وتعلقات کے حدوث سے اصل شئے کا حدوث لازم نہیں آتا۔
(۲۲)شئے کے دو تعین ہوتے ہیں ایک تعینِ ذاتی، ذات کے لحاظ سے جو کبھی نہیں بدلتا، دوم تعینِ وصفی جو اوصاف کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے اس تعین کے بدلنے سے ذات کی جزئیت وتشخص پر کوئی اثرنہیںپڑتا ۔
(ماخوذ از: فصوص الحکم (ترجمہ )اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دہلی، جون۱۹۸۷ء)