islam
کنگال ياديواليہ ہونيکابیان
باب التفليس
کنگال ياديواليہ ہونيکابیان
کبيرہ نمبر205: ادا نہ کرنے کی نيت سے قرض لينا
کبيرہ نمبر206: ادائیگی کی اميد نہ ہونا
يعنی وہ مجبور نہ ہو اور نہ ہی اس سے پورا ہونے کی ظاہری صورت ہو نیز قرض دينے والا اس کے حال سے بے خبر ہو۔
(1)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نيتلف کرنے کے ارادے سے لوگوں کا مال ليا اللہ عزوجل اس پر تلف کر دے گا۔”(یعنی نہ ادا کرنے کی توفیق ہوگی نہ بروزِقیامت قرض خواہ راضی ہوگا)
(صحیح البخاری، کتاب الاستقراض والدیون، باب من اخذاموال الناس ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۳۸۷،ص۱۸۷)
(2)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے ادائیگی کی نيت سے قرض ليا قيامت کے دن اللہ عزوجل اس کی طرف سے ادا کر دے گا (یعنی قرض خواہ کو راضی کردے گا)اور جس نے ادا نہ کرنے کے ارادے سے قرض ليا اور مر گيا تو قيامت کے دن اللہ عزوجل اس سے ارشاد فرمائے گا:”تو نے يہ گمان کياکہ ميں اپنے بندے کوکسی دوسرے کے حق (کودبانے)کی وجہ سے نہيں پکڑوں گا۔”پس اس کی نيکياں لے لی جائيں گی اور دوسرے کی نيکيوں ميں ڈال دی جائيں گی اور اگر اس کے پاس نيکياں نہ ہوں گی تو دوسرے کے گناہ لے کر اس پر ڈالے جائيں گے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(کنزالعمال، کتاب الدَیْن والسلم،قسم الاقوال، فصل الثالث فی نیۃ المستدین ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۱۵۴۳۸،ج۶،ص۹۲)
(3)۔۔۔۔۔۔حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو بھی آدمی اس عزم سے قرض ليتا ہے کہ اد انہ کریگا تووہ اللہ عزوجل سے چوربن کر ملے گا۔”
(سنن ابن ماجہ،ابواب الصدقات ، باب من ادان دینالم ینوقضاء ہ ،الحدیث: ۲۴۱۰،ص۲۶۲۱)
(4)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو بھی آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس کا مہر ادا نہ کرنے کی نيت ہو تو وہ زانی مرے گا، جو بھی آدمی کسی آدمی سے کوئی چيز خريدے اور اس کی قيمت ادا نہ کرنے کی نيت ہو تو وہ خائن مرے گا اور خیانت کرنے والا جہنمی ہے۔” (المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۳۰۲،ج۸،ص۳۵)
(5)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو اس حال ميں مرا کہ اس پر درہم يادينار قرض تھيتو (اس قرض کو)اس کی نيکيوں سے پورا کيا جائے گا کیونکہ اس دن درہم يا دينار نہ ہو گا۔” (سنن ابن ماجۃ، ابواب الصدقات ، باب التشدیدفی الدین ،الحدیث: ۲۴۱۴،ص۲۶۲۱)
(6)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”قرض دو قسم کے ہيں:(۱)جو اس حال ميں مرا کہ اس کی قرض ادا کرنے کی نیت تھی تو ميں اس کا ولی ہوں اور (۲)جو اس حال ميں مرا کہ اس کی ادائیگی کی نيت نہ تھی تو يہ اس کی نيکيوں سے پورا کياجائے گا اس دن درہم يا دينار نہ ہو گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(الترغیب والترہیب، کتاب البیوع، باب الترہیب من الدین وترغیب المستدین۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۸۰۳،ج۲،ص۳۸۱)
(7)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کيتاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے کم يازيادہ مہر پر کسی عورت سے نکاح کيا لیکن اس کاا دا کرنے کاارادہ نہ تھا تو اس نے دھوکا کيا،اور ادائیگی کے بغير مر گيا تو قيامت کے دن اللہ عزوجل سے زانی ہو کر ملے گا،اور جس آدمی نے واپس نہ کرنے کے ارادے سے قرض لياتو اس نے دھوکا کيا يہاں تک کہ اس کامال لے کر مر گيا اور اس کا قرض ادا نہ کيا تو وہ اللہ عزوجل سے چور بن کر ملے گا۔” (المعجم الاوسط، الحدیث: ۱۸۵۱،ج۱،ص۵۰۱)
(8)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل قيامت کے دن قرض لينے والے کو بلائے گا يہاں تک کہ بندہ اس کے سامنے کھڑا ہو گا تو اس سے کہاجائے گا:”اے ابن آدم !تُو نے يہ قرض کيوں ليا؟ اور لوگوں کے حقوق کيوں ضائع کئے؟”وہ عرض کریگا:”اے رب عزوجل! تو جانتاہے کہ ميں نے قرض ليا مگرنہ اسے کھايا ،نہ پيا، نہ پہنا، اور نہ ہی ضائع کيا، البتہ وہ يا تو جل گيا ياچوری ہو گيا يا جتنے ميں خريدا تھا اس سے کم ميں بيچ ديا۔”تو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا: ”ميرے بندے نے سچ کہا، ميں اس بات کازيادہ حق رکھتا ہوں کہ تيری طرف سے قرض ادا کروں۔” اللہ عزوجل کسی چيز کو بلائے گااور اسے اس کيترازو ميں رکھے گا لہذا اس کی نيکياں برائيوں سے زيادہ ہو جائيں گی اور وہ اللہ عزوجل کے فضل ورحمت سے جنت ميں داخل ہو جائے گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث عبدالرحمن بن ابی بکر، الحدیث: ۱۷۰۸،ج۱،ص۴۲۰)
(9)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ميں نے دو جہاں کيتاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”ميں کفر اور قرض سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگتا ہوں۔” ايک آدمی نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کيا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کفر کو قرض کے ہم پلہ جانتے ہيں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”ہاں۔”
(سنن النسائی، کتاب الاستعاذۃ ، باب الاستعاذۃ من الدین،الحدیث: ۵۴۷۵،ص۲۴۳۸)
(10)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”صاحبِ قرض اپنے قرض کے ساتھ بندھا ہوا اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں تنہائی کی فریاد کرے گا۔” (المعجم الاوسط، الحدیث: ۸۹۳،ج۱،ص۲۵۹)
(11)۔۔۔۔۔۔حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”ان کبيرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ عزوجل نے منع فرمايا ہے اللہ عزوجل کے نزديک سب سے بڑا گناہ يہ ہے کہ بندہ مرنے کے بعد اس حالت میں اُس کی بارگاہ میں حاضرہوکہ اس پر ایسا قرض ہو جسے اس نے پورا نہ کيا ہو۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، باب فی التشدید فی الدین، الحدیث: ۳۳۴۲،ص۱۴۷۴)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(12)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کيتاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”4شخص ايسے ہيں جو جہنميوں کو ان کی اذيت پر مزيد تکلیف ديں گے، وہ حَمِيم اور جَحِيم کے درميان دوڑيں گے، ہلاکت اور تباہی کوپکاريں گے، جہنمی ایک دوسرے سے کہيں گے:”يہ کون لوگ ہيں جنہوں نے ہماری تکليف کواور زيادہ کر ديا؟” (۱)پہلے شخص پر انگاروں کا تابوت معلق ہو گا (۲)دوسرا اپنی انتڑيوں کو گھسيٹ رہا ہو گا (۳)تيسرے کے منہ سے پيپ اور خون بہہ رہا ہو گا اور (۴)چوتھا آدمی اپنا گوشت کھا رہا ہو گا، پس تابوت والے سے کہا جائے گا:”رحمتِ الٰہی عزوجل سے دور! اس شخص کو کيا ہے کہ اس نے ہماری تکليف کو اور زيادہ کر ديا۔” وہ بتائے گا کہ وہ بدنصیب اس حال ميں مرا تھا کہ اس کی گردن پر لوگوں کا بوجھ تھا جسے پورا کرنے کے لئے اس نے کچھ نہيں چھوڑا۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۲۲۶،ج۷،ص۳۱۱)
(13)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں:ايک آدمی فوت ہو گيا، ہم نے اسے غسل اور کفن ديااورخوشبولگائی، پھرہم اسے سرکارابد ِقرار،شافعِ روزِشمارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس لے کر حاضر ہوئے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم اس کا جنازہ پڑھائيں، ہم نے عرض کی:”اس کاجنازہ پڑھائيے۔”پس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم ايک قدم چلے پھر دریافت فرمايا:”کيا اس پر قرض ہے؟”ہم نے عرض کی:”اس کے ذمہ 2دينار ہيں۔”توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم واپس چلے گئے، حضرت سیدناابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ذمہ داری لے لی توہم دوبارہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”2دينارميرے ذمہ ہيں۔”توشاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تحقيق قرض خواہ کا حق پوراکردياگیاہے اور اب ميت اس سے بری ہے۔”حضرت سیدناابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”جی ہاں۔”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی،پھراس کے بعدايک دن استفسارفرمایا:”ان 2ديناروں کا کيا ہوا۔” ميں نے عرض کی:”وہ شخص توکل فوت ہوگيا۔”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشادفرمایا:”آنے والے کل اسے(يعنی قرض خواہ کو)لوٹادينا۔”حضرت سیدناابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”ميں نے وہ ادا کر دئيے ہیں۔”تو رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اب اس کا جسم عذاب سے بری ہوگياہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند جابربن عبداللہ ، ، الحدیث: ۱۴۵۴۳،ج۵،ص۸۳)
اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مقروض کی نمازِ جنازہ نہیں ادا فرمائی لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ(یعنی ختم)ہو گیا( اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی) جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ہے:
(14)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بارگاہ ميں جب کوئی ایسی ميت لائی جاتی جس پر قرض ہوتا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم دریافت فرماتے:”کيا اس نے اپنے قرض کو پورا کرنے کے لئے کچھ چھوڑا ہے۔” اگر کہا جاتا کہ اس نے پورا کرنے کے لئے کچھ چھوڑا ہيتو اس کاجنازہ پڑھاتے ورنہ فرماتے:”اپنے رفیق کی نمازجنازہ پڑھو۔” لیکن جب اللہ عزوجل نے حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم پر فتوحات کے دروازے کھول دئييتو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”ميں مومنين کے ان کی جانوں سے زيادہ قريب ہوں، لہذا جو قرض کی حالت ميں مر گيا اس کی ادائیگی ميرے ذمہ ہے اور جس نے مال چھوڑا وہ ورثاء کے لئے ہے۔”
(صحیح مسلم، کتاب الفرائض ، باب ترک مالاًلو رثتہ، الحدیث: ۴۱۵۷،ص۹۵۹)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(15)۔۔۔۔۔۔نبی کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم سے عرض کی گئی:”مقروض کی نماز جنازہ پڑھائيے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”تمہيں کيا نفع ديتا ہے کہ ميں ايسے آدمی کی نمازِ جنازہ پڑھاؤں جس کی روح اپنی قبر ميں رہن رکھی ہوئی ہے اور جو آسمان کی طرف بلند نہيں ہوتی، اگر کوئی آدمی اس کے قرض کا ضامن بنيتو ميں اس کی نماز پڑھاتا ہوں بے شک ميری نماز اس کو نفع دے گی۔”
(الترغیب والترہیب، کتاب البیوع، باب الترہیب من الدین ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۸۱۹،ج۲،ص۳۸۷)
(16)۔۔۔۔۔۔رسول اکرم، شفيع مُعظَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”مؤمن کی روح اس کے قرض کی وجہ سے معلَّق رہتی ہے(يعنی اپنے اچھے مقام سے روک دی جاتی ہے)يہاں تک کہ اس کا قرض پورا کر ديا جائے۔”
(جامع الترمذی، ابواب الجنائز، باب ماجاء ان نفس المؤمن ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۱۰۷۹،ص۱۷۵۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(17)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بے شک تمہارا رفیق جنت کے دروازے پر اپنے قرض کی وجہ سے روک ديا گيا ہے اگر تم چاہو تو اس کاقرض پورااداکرو اور اگر چاہو تو اسے(یعنی مقروض کو) عذاب کے حوالے کر دو۔”
(المستدرک ، کتاب البیوع،باب لوقتل رجل۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث:۶۱/۲۲۶۰،ج۲،ص۳۲۲)