islam
حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے والد ماجد امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت مظعون رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہیں جو ایک مشہورصحابیہ ہیں۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی پہلی شادی حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہوئی ا ور انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ طیبہ کو ہجرت بھی کی تھی لیکن ان کے شوہر جنگ بدر یا جنگ احد میں زخمی ہو کر وفات پا گئے اور یہ بیوہ ہو گئیں پھر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ۳ھمیں ان سے نکاح فرمایا اور یہ ام المؤمنین کی حیثیت سے کاشانۂ نبوی کی سکونت سے مشرف ہوگئیں۔
یہ بہت ہی شاندار،بلندہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں۔ حق گوئی حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد بزرگوار کا مزاج پایا تھا۔ اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں اور تلاوت قرآن مجید اور دوسری قسم قسم کی عبادتوں میں مصروف رہا کرتی تھیں۔ ان کے مزاج میں کچھ سختی تھی اسی لئے حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہروقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ان کی کسی سخت کلامی سے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے حفصہ! تم کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے طلب کر لیا کرو، خبردار کبھی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کسی چیز کا تقاضا نہ کرنا نہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کبھی ہر گز ہر گز دل آزاری کرنا ورنہ یاد رکھو کہ اگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تم سے ناراض ہو گئے تو تم خدا کے غضب میں گرفتار ہو جاؤ گی۔
یہ بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ساٹھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں۔
علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت مشہور ہیں۔ شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اس وقت حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ اسی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازہ کو بھی اٹھایا پھر حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دئیے چلتے رہے۔ ان کے دو بھائی حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداﷲ و حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ و حضرت حمزہ بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان کو قبر میں اتارا اوریہ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے پہلومیں مدفون ہوئیں۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔(1) (زرقانی جلد۳ ص۲۳۶ تا ۲۳۸)