طاہرؔ سلطانی کی حمدیہ شاعری کا انتقادی مطالعہ
انتقادی مطالعہ
محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
ہر وہ بات حمد ہے ، جو انسانی شعور و ادراک اور مشاہد لے کے آئینہ خانے میں منعکس ہوجائے۔ جب انسانی آنکھ مظاہر و مرئیات کو دیکھتی ہے۔ تو معاً ایک مابعد الطبعاتی تصور دل کی نگاہ کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے۔ جو خود بخود کسی ذات ماورا کی طرف ذہن کو منتقل کردیتا ہے۔ عقل انسانی جرح و تعدیل کے عمل سے گزرنے کے بعد، آخر ھواللہ احد کی طرف مُنعطف ہوجاتی ہے ، اور خالق کائنات و معبود مطلق کا احساس دلاتی ہے۔ ذاتِ واحد کا تصور مبدئِ حمد و ثنا بن کر ، عالمِ امکاں کی ، ہر چیز پر محیط ہوجاتا ہے ، انسان ذاتِ واجب الوجوب کے صحیح ادراک سے قاصر ہے لیکن اُس کا وجدان سلیم یقین دلاتا ہے ، کہ ہے! کوئی ذات جو واجب الوجود ہے، اور وہ اپنی صفات میں بھی بالذات ہے۔ اُس کی ذات کی طرف صفات بھی حادث نہیں ، قدیم ہیں۔ وہ غیر منقسم ہیں اور انسانی اوصاف سے ان کو مماثل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ذات کے ساتھ اس کی صفات کا اقرارِ زبانی و قلبی لازمی ہے۔
اللہ ہی ہر علت کی علّتِ واحد ہے۔ اسی لیے فلاسفہ کی زبان میں اُسے علت العلل بھی کہتے ہیں۔ وہ فاعل مطلق ہے۔ ہر علت کو حرکت و عمل اور تغیّر بخشتا ہے۔ مثلاً کوئی دہقان ، اگر بیج بوتا ہے اور اُسے سیراب کرتا ہے ۔ وہ سیج پھر درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ تو اس کی قوت نامیہ ، نشوو نما ، اس میں حرکت و تغیر سب کچھ اللہ ، خالقِ کائنات کے ارادہ و امر کے تابع ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے۔ ’’وَمَا اَمْرَنا اِلَّا وَاحِدَۃً کَلَمح بِالبَصَر‘‘(ہماری ایجاد میں ہمارا حکم ، صرف ایک حکم ہے اور اس کا عرصہ پلک جھپکنا ہے) اشیائے کائنات اپنی چندوں اور فقدان یعنی ہونے اور نہ ہونے سے پہچانی جاتی ہیں ، لیکن اللہ کے لیے حدوث و زوال نہیں۔ وہ حی و قیوم ہے ، ادراک انسانی سے بلند ہے۔ اللہ کی ذات کو ہم امثلہ سے سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ ہماری یہ امثلہ اگرچہ ناقص محض ہیں۔ کیونکہ مخلوقات سے اس کی مثالیں دیا صرف اپنے تذبذب کو
جُزو سے کل کا اعتبار ، نہروں سے دریا کا اعتبار ، روشنی سے سورج کا اعتبار ہے ۔ جو مخلوق ہیں۔ خدا ، اپنی مخلوقات پہچانا جاتا ہے۔ اسی لیے حمد کہنے میں رب العالمین کی مخلوقاتِ فزئی سے اس کی قدرت و صفات کو علامات بنایا جاتا ہے۔ ارشادِ قرآن حکیم ہے ’’وَفِی کُلِّ شَیئٍ لَہٗ اٰیَۃٌ قَدر علٰی اِلٰہٌ وَاحِدٌ ‘‘ (ہرچیز میں اس کے لیے نشانیاں ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ بلا شبہ وہ ایک ہے) کائنات مع اپنی جملہ اشیاء کے مٹ والی ہیں۔ ارشاد ربّی ہے’’ کُلُّ شَیئٍ ھَالِک اِلَّا وَجْھَہٗ ‘‘ (ہر چیز فانی ہے سوائے اس ذات کے) وجود باری تعالیٰ ہر نفس سے پاک ہے۔ اس کا ظہور جو مظاہر عالم سے سمجھا جاتا ہے۔ وہ اتحاد و حلول سے منزّہ ہے۔ اشیاء میں اس کا ظہور بالکل اس طرح ہے جیسے آفتاب کی شعاعیں ہر پاک اور ناپاک چیز پر منعکس ہوتی ہیں، مگر وہ شعاعیں ناپاک نہیں ہوتیں۔
تصوّر توحید ، شریعت و طریقت ہیں جس انداز سے ملتا ہے۔ اس روشنی میں طاہرؔ سلطانی اپنی حمود میں لاتے ہیں۔ اُن کی حمدوں میں کسی اعتبار سے بھی شرک جلی و خفی کا نقص موجود نہیں۔ اُن کے اکثر اشعار اس حقیقت کا مظہر ہیں، کہ یہ کائنات آئینہ خاہ ہے اس میں ذات وجب الوجود کے صفاتی انوار نظر آتے ہیں۔ اُن کے بعض اشعار میں متکلمین اسلام اور فلاسفہ جس طرح ذات کو واجب الوجوب مانتے ہیں۔ اسی طرح اہل طریقت کا بڑا طبقہ واجب الوجود کو ، وحدت الوجود اور وحدت الشہود ہی کی روشنی میں دیکھتا ہے۔
الحمد للہ رب العالمین(تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے) لفظ اللہ اسم عَلَم ہے۔ یہ خدائے عزّوجل کا ذاتی نام ہے۔ باقی جتنے اسمائے الٰہی ہیں وصفاتی ہیں۔ اللہ ، واجب الوجود کی تمام صفات اور کمالات کا جامع ہے۔ لفظ اللہ سے کسی کو بھی مخاطب نہیں کیا جاسکتا ۔ اُس کا درست ترجمہ کسی بھی زبان میں بھی ممکن نہیں۔ اس لفظ کی جمع بھی نہیں ہے۔ قدیم شعرائے عرب کی شاعری سے بھی اس کی سند ملتی ہے۔ اُنھوں نے بھی ذات واجب الوجود ہی کے لیے استعمال کیا ہے۔ قرآن میں بھی یہ کسی خاص صفت کے لیے نہیں آیا ہے۔ بلکہ جملہ صفات کی متجمع ہستی ، رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا لفظ ’’دو ہزار پانچ سو چوراسی‘‘ مرتبہ آیا ہے۔ یہ کسی لفظ سے مشتق بھی نہیں ہے۔
عبرانی ، سُریانی ، آرامی ، کلدانی ، حُمیری اور عربی زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ ملتا ہے۔ یعنی ’’ اللہ ‘‘ کا مادّہ الف ، لام ،ہ ہے۔ جو مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے۔ مثلاً عبرانی ، کا اُلُوہ ، سُریانی اور کلدانی کا الاہیا اور عربی کا الٰہ جو حرف تعریف کے اضافے کے بعد ’’اللہ ‘‘ بن گیا ، جس کے حقیقی معنی حیرت و استعجاب اور درماندگی کے ہیں۔ اللہ کے ادراک ہیں انسان مجبور و عاجز محض ہے اور اس کی ذات و صفات کے بارے میں تحیّر میں رہتا ہے۔ اس تناظر میں لفظ اللہ ذات واجب الوجوب کے لیے بولا جانے لگا۔ اس لفظ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ربِّ کریم کی ذات کے ساتھ اس کی صفات کی معنوی جامعیت کا بھی حامل ہے۔ اس روشنی میں توحید فی الذّات، توحید فی الصّفات اور توحید فی العبادات پر قائم رہنا حقیقی بندگی اور اللہ کے اقرار کا صحیح مفہوم ہے۔ ربِّ کریم کی ذات کے اقرار کے ساتھ صفات کا بھی اقرار لازمی ہے۔ ایمان باللہ کے حقیقی معنی میں یہ شامل ہے۔ ارشادِ ربّ ہے:
’’قُل امنت باللہ کما ھوا باسمائہٖ وصفاتہٖ و قبلتُ جمیع احکامہٖ‘‘
(تو کہہ! کہ میں ایمان لا باللہ پر جیسے کہ وہ اپنے ناموں سے اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے)
جناب طاہر سلطانی کی محور میں ایسے اشعار بھی کم نہیں جن میں باری تعالیٰ کے، کسی نہ کسی اسم و صفت کا ذکر بالتصریح یا بالکنا یہ موجود نہ ہو۔ حمدیہ ادب، خواہ عربی ہو یا فارسی یا ؟؟ و یا کسی دیگر زبان کا اُس کا بڑا حصہ آسما و صفات کی جلوہ گری سے معمور ہے۔ ذاتِ باری کی جلوہ گری اور ؟؟ تو کسی کے بس کا نہیں، لیکن ربِّ عالم کے اپنے اسما و صفات کی تجلّیاں مختلف انداز میں کائناتی کینوس پر بکھیر دی ہیں۔
جناب طاہر سلطانی اُس طبقۂ شعراء سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے ماضی الضمیر کے اظہار کے لیے شفّاف آئینے تلاش کرتے ہیں۔ اُن کے لفظیات کا ذخیرہ روز مرّہ بول چال سے منتخب ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری کی اہم خوبی سلاست و روانی ہے۔ وہ سہل ممتنع کی، کارگہہ شیشہ گری کے آئینہ گر ہیں، مگر ان کے اندازِ سہل ممتنع میں فکری و معنوی جمال کمزور نظر نہیں آتا۔ اُن کے حِسّی پیکر شفافیت کے لباس میں نظر آتے ہیں۔ اُن کا اسلوبِ بیان سادہ ہے، مگر پُر تاثیر ہے اور اپنے لہجے میں انفرادیت کا آئینہ دار ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی ہے۔ شعریت خر کی ہے۔ عقیدت آفریں ہے۔ دل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ شاعرِ موصوف بنیادی طور پر حمدونعت کے شاعر ہیں۔ اُن دونوں اصناف میں شعریت سمونا، آسان کام نہیں، لیکن
جناب طاہر سلطانی کی شاعری محاسن و روائع سے خالی نہیں۔ جو علامات اور لوازماتِ شعری لاتے ہیں وہ نہایت عام فہم ہوتے ہیں۔ اُن میں غرابت کا نقص موجود نہیں ہوتا۔ وہ اسقام و معائبِ سخن سے بڑی حد تک بچتے ہیں۔ ژولیدگیِ بیان، اثقال اور تنافرِ حروف، ابہام و اہمال، تعقیب و تعقید، لفظی و معنوی، تنافرِ کلمات، توالی اضافت، اخلال، ضعف تالیف، تغیرِ الفاظ، ابتذال اور بے ضرورت فکِّ اضافت اور صرفی و نحوی اصولوں کو نظر انداز کردینا۔ خلاف محاورہ اور روزمرہ زبان استعمال کرنا ان کے یہاں موجود نہیں۔ ان کی حمدوں اور نعتوں کے اکثر اشعار اور ؟؟ ایجاز و اختصار اور حُسن برجستگی کی خوبی سے آراستہ ہیں۔ انتقادی تناظر میں اُن کی شاعری کی اصل صفت سادگی اور شستگی ہے۔ ان کی حمدوں کے اکثر اشعار قرآنی احکامات سے مصوّر ہیں۔ جنہیں وہ تلمیحی انداز میں لاتے ہیں۔ اور انہیں سریع للتاثیر بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی حمدوں میں تمدیحی انداز کے ساتھ مناجاتی و التجائی طرز بھی ملتا ہے۔ وہ اس ضمن میں قرآن حکیم کی سورۂ فاتحہ جو بندوں کی زبان میں نازل فرمائی ہے، اُس میں حمدِ ربِّ کریم کے بعد دعائیہ اور مناجاتی انداز ہے۔ جس میں عبدیت کا بھرپور انداز موجود ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کے علاوہ بھی قرآن کریم میں انبیاء کی دعائیں ہیں جن میں حمدوثنا کے ساتھ التجا اور استمدادیت و استعانت بھی موجود ہے۔ دعا اور مناجات بھی حمدِ واحد الوجود کا ایک رُخ ہے۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس بھی دعا کی صورت میں ہیں۔ قرآن حکیم میں جگہ جگہ دعا اور استغاثہ ملتا ہے۔ شاعرِ موصوف اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور حمد و ثنا کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے ہیں۔ ایمان و ایقان میں استقامت کے لیے گزار ش کرتے ہیں ؎
مجھ کو ایمان کی دولت سے تونگر کردے
خیر کی راہ چلوں ، دُور ہر اک شر کردے
ہر اک شر سے میرے وطن کو بچانا
رہے سب ، بلائوں سے یہ دُور یارب
راہِ حق پر ہم کو چلاکر
اپنا عرفاں ہم کو عطا کر
غیر کے آگے ہاتھ نہ پھیلے ، اس کی دے توفیق
میری زباں پر ، یہ ہی دعا ہے اے میرے رزّاق
اس میں کلام نہیں، دعا، عبادت کی روح کا درجہ رکھتی ہے۔دعا اظہارِ بندگی اور اطاعت و سپردگی کا اقرار ہے۔
میں نے ان کی حمدوں کا بالاستیعاب تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے حمد لکھنے کے آداب کو پوری طرح نبھایا ہے اور بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ اُن کی حمدیں شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں پر پوری اُترتی ہیں۔ ان میں شرکِ جلی تو درکنار، شرکِ خفی کا بھی شائبہ نہیں۔ یہ خوبی انہیں ، ان کے بہت سے معاصر شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔انتقادی تناظر میں وہ اس معاملے میں بے حد حسّاس ،زیرک اور ذمّے دار حمد گو شاعر کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ ان کی حمدیہ شاعری کا تانا بانا مستحکم اور اس کی بُنت ماہرانہ ہے۔ وہ احساسِ بندگی اور عظمت معبودیت کے درمیان حظِ فاصل کھینچنا جانتے ہیں۔ اُن کی دُرونلی اور بُرولی آنکھیں کھُلی ہوئی ہیں۔ اس لیے اُن کا مشاہدہ سطحی نہیں۔ وہ بڑا عمیق اور جہات نگر ہے۔ وہ خالقِ عالم کی صنعتوں سے اپنی حمدیہ شاعری کے لیے مواد و موضوعات استباط کرتے ہیں۔ اُن کی فکر معروضی بھی ہے اور موضوعی بھی۔ دونوں ہی طریقے سے اپنے حمدیہ کینوس پر اُس کی تجلّیاتِ صفات کو شعری پیکروں میں ڈھالتے ہیں۔ اس انتقادی روشنی میں وہ مجھے احکامِ تکوینی و تشریعی میں سانس لینے محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی حمدیں ربِّ عالم کی تخلیقات کی آب و ہوا میں پنپ رہی ہیں اور مزید مشق و ریاضت اور تجزیۂ شاعرانہ سے نکھار آئے گا۔
جناب طاہر سلطانی فلسفہ الٰہّیات کے عمیق و دقیق مسائل میں الجھ کر حمدوں کو مشکل نہیں بناتے۔ وہ صرف وہی افکار اپنی حمدوں میں سمیٹتے ہیں جو عام فہم ہوں اور معمولی استعداد کے قارئین بھی فیضیاب ہوسکیں۔ وہ اشیائے کائنات کے تناظر میں، زود فہم اسرار و رموز کا اظہار، اُن کی حمود کا طُرّۂ امتیاز ہے۔ وہ چونکہ ایک باعمل صوفی اور طریقت کے راز آشنا ہیں، لہٰذا وہ فلسفۂ وحدت والوجود (ہمہ اوست)اور فلسفۂ وحدت الشہود (ہمہ از اوست) کی روشنی میں بھی اپنی حمدوں کے لیے مضمون تلاش کرتے ہیں۔ اس نازک
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں طاہر سلطانی نے راہِ تصوّف کے بھی راہزو ہیں۔ اُن میں شریعت و طریقت کا حسین امتزاج موجود ہے۔ ان کی طریقت سے وابستگی روایتی اور اندھے عقیدے کی پیرو نہیں۔ ان کا ذوقِ تصوف و معرفت، شریعت و طریقت میں اس طرح گُندھا ہوا ہے کہ ان میں ہر خوب و رشعت کے درمیاں خطِ امتیاز کھینچنے کا شعور پوری طرح موجود ہے۔ اس کیفیت نے ان میں مشت فکر و نظر اور درست عقیدے کی روشنی پھیلادی ہے۔ میں نے ان کے اعمال و افکار کی روشنی میں اُن کی زندگی کی بہت سی جہتوں کو تنقیدی تناظر میں پرکھا ہے۔ وہ بحیثیت انسان بھی بہت اچھے ہیں۔ اُن کے یہاں تصوّرِ توحید اور ذاتِ واجب الوجوب سے محبت و عقیدت اور تصدیق ؟؟ کا سُونا بالکل کھرا ہے۔ جس کی چمک دمک نے ان میں عین الیقین کا نور بھردیا ہے۔ طاہر سلطانی کے حمدیہ اشعار سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اُن کے یہاں یقین کی تمام صورتیں لغوی معنیٰ سے بہت بلند ہیں۔ ان کا یقین، اُن کے صوفیانہ شعور کے تناظر میں خاص معرفتِ الٰہ کے سبب اصطلاحی ہے۔ یعنی یقین کا پہلا درجہ شریعت کی روشنی میں تصوّرِ توحید، علم الیقین کا ہے۔ اس میں جس قدر خلوصِ عبدیت ہوگا وہ عین الیقین کی شکل اختیار کرلے گا۔ یہ عین الیقین، ذاتِ واحد الوجود کی صفات جو کائنات میں مختلف اشکال و انوار میں پھیلی ہوئی ہیں، اُن سے ذاتِ احد کا عرفان و آگہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد کا درجہ حق الیقین کا ہوتا ہے۔ جو انبیاء و رُسل کو حاصل ہوتا ہے، اور بعض اہل اللہ کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ شاعرِ موصوف کی حمدوں کی ، علّت نمائی اور علّت فاعلی، ان کے صوفیانہ علم الیقین اور عین الیقین کا امتزاج رکھتی ہیں۔ علماء، صوفیاء اور مفکرین خدا کی ذات کے بارے میں غور و فکر کرنے سے منع کرتے ہیں اور یہ بات مذکورہ گروہ علماء و صوفیا اور مفکرین نے انبیاء و رُسل کی تعلیمات اور خصوصاً ختمی مرتبت رسولِ کریمﷺ سے لی ہے، اس لیے کہ ہر انسان وجدان سلیم نہیں رکھتا۔ اس کے گُمراہ ہونے یا منکر ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ اس نُکتے کو سمجھ لینا ضروری ہے، بلکہ انسان کتنا ہی عبقری الذہن اور نابغہ ہی کیوں نہ ہو، ذات و صفات الٰہی کی درست تفہیم سے قاصر ہے۔ اسی لیے حضور کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ے:
’’تفکّروا فی خلق اللہ ولا تفکّروا فی اللہ‘‘
(خدا کی ذات(وجود) پر غور و فکر نہ کرو بلکہ اُس کی مخلوق پر غور کرو)
سیّد الانبیاء کے اس ارشاد کی روشنی میں، شاعرِ موصوف، مظاہر و مخلوق ہی کے مشاہدے سے حمدوثنا کا مواد، اخذ کرتے ہیں۔ چند شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
آسماں اور زمین ، گلشن و صحرا ،د ریا
خالقِ کُل نے ہیں صد رنگ نظارے بخشے
…٭…
وہ گَلزار جس پر خزاں چھاگئی تھی
اُسے تُونے پھر سے نِکھارا الٰہی
…٭…
آسماں پر ، جو چمکتے ہیں ستارے اُس کے ہیں
دن کو سورج کی یا ، شب کو قمر اُس نے دیا
…٭…
صبح اُس کی بہارِ نظر
شام اُس کی لگی دلنشیں
طاہر سلطانی کی حمدیہ شاعری میں کچھ ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں تصوف کی چاشنی بھی ہے۔ حمدِ الٰہی کے ساتھ عشقِ ربِّ ذوالجلال کا بھی اظہار ہے۔ حمد و متصوّفانہ شاعری کے امتزاج نے اُن کیایک سچے صوفی اور اہلِ دل ہونے دی ہے۔ وہ اس انداز شاعری میں خواجہ میر دردؔ رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و نظر آتے ہیں۔
ذاتِ واجب الوجود، جو انسان کے عقل و شعور سے ماورا ہے۔ انسانی ادراک کی آنکھ اُسے دیکھنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے بندوں سے کس قدر قریب تر ہے۔ قرآن حکیم اس راز کو صریح انداز میں بیان کرتا ہے۔
’’نحنُ اقرب من حبل الورید‘‘
(ہم تمہاری رگِ گردن سے قریب تر ہیں)
اس حقیقت کو جناب طاہر سلطانی ، نہایت سادگی سے سہل ممتنع میں ایجاز و اختصار کی خوبی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ؎
اس بات کی ، قرآن سے ملتی ہے شہادت
انسان کی شہ رگ سے قریں صرف خدا ہے
ایک ہی بات کو مختلف انداز میں لکھنے کا شاعرانہ ہنر، شاعرِ حمدونعت جناب طاہر سلطانی کو بھی اللہ ربُّ العزت نے ودیعت فرمایا ہے۔ اس عنایتِ ربِّ تعالیٰ کا اظہار مندرجہ ذیل شعر میں بھی کرتے ہیں ؎
میں حمدونعت کو ، سو سو طرح بھی لکھتا ہوں
وہی تو ہے جو مجھے یہ خیال دیتا ہے
محّولۂ بالا شعر کے تناظر میں مندرجہ ذیل شعر بھی دیکھیے ، جو شعریت کی موجِ نرم رو کی خوبی سے آراستہ ہے ؎
یہ دل اس بات پر ، کامل یقیں ہے
مرے مولا! تُو شہ رگ سے قریں ہے
شعر میں کتنی روانی ہے جو سریع الاثر ہونے کی خوبی سے بھی معمور ہے۔ ایسے ہی رواں اور سلیس شعر مطبوع (آمد) کی تعریف میں آتے ہیں۔ شعر کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے ، شاعر، خبر کو انشائی حُسن کے ساتھ بیان کرنے پر قادر ہے، سادہ اُسلوب بیان میں بھی شعریت کی نبض مدّھم نہیں، سخن سنجی کا وجدان اسے محسوس کرتا ہے۔اسی مضموں کے دو شعر اور ملاحظہ فرمائیے جن میں مندرجہ بالا اشعار کی طرح اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہونے اور اس کی نشانیوں کا ذکر سورۂ ذاریات میں بڑے واضح الفاظ میں کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربّی ہے:
’’وفی الارضِ اٰیتٌ للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون‘‘
(اور یقین لانے والوں کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی اور کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا)
اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس پر یقینِ مکمل، زمیں کی مخلوقات ہی کے ذریعے نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذات و صفات کی واضح آگہی تو خود انسانوں کی ذات سے ہوتی ہے۔ اس کی معرفتِ حقیقی، انسان خود اپنے عرفان سے کرسکتا ہے، صرف غور تامّل اور وجدان سلیم کی آنکھ سے اپنے آپ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خدائے تعالیٰ اپنے حکم کی صورت میں ہر چیز پر محیظ ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:
’’من عرف نفسہٗ عرف ربہٗ‘‘
(جس نے خود کو پہچانا، اُس نے ربّ کو پہچانا)
شاعرِ موصوف کا مطالعۂ قرآن حکیم، اُن کے اکثر حمدیہ اشعار میں شعریت کے ساتھ ڈھل گیا ہے۔ فرماتے ہیں ؎
بندہ نوازی دیکھو! شہ رگ سے ہے قریں وہ
طاہرؔ! نہیں تو فاصلہ بے حد دراز ہے
…٭…
شہ رگ سے تُو قریں ہے ہر قلب میں مکیں ہے
تیرا قیام ہر جا اے مالکِ حقیقی
…٭…
یقیں ہے کہ شہ رگ سے بھی ہے قریں تر
نہیں ہے کسی سے بھی تُو ، دُور یارب!
مندرجہ بالا دونوںشعر بھی اسلوب بیان کی سادگی اور شگفتگی کے آئینہ دار ہیں، نہ تعقید لفظی ہے نہ معنوی۔ معمولی سی معمولی استعداد علمی رکھنے والا بھی آسانی سے حظّ شعریت سے محظوظ ہوسکتا ہے۔
خدا کے لیے لفظ ’’نور‘‘ کا استعارہ اہلِ طریقت اور اہلِ شریعت نے بطور تصریحِ ذات لِلٰہ کے لیے استعمال کیا ہے، متکلمینِ اسلام اور بعض فلاسفر بھی ’’نور‘‘ سے ذات واجب الوجوب کے ادراک میں مدد لیتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
(اللہ زمین و آسماں کا نور ہے)
اسی تناظر میں ایک اور شعر دیکھیے ؎
زمین و زماں ہو ، مکاں لا مکاں ہو
مسلّم ہے ، ہر جا تِرا نُور یارب!
اللہ ربُّ العزت کی صفات بھی بالذّات ہیں، اُس کی صفت اختیار اور حاکمیت میں کوئی کسی طرح ساجھی نہیں۔ اُس کی ذٓت ھُوالکل ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسی کے حکم سے ہورہا۔ اُسی کی فضا اور قدر میں ہر چیز گُندھی ہوئی ہے۔ عملِ ارتقا میں صرف اُسی کا ارادہ و منشا شامل ہے۔ اس کی قدرت سے کوئی سرمو باہر نہیں۔ وہی نگارندۂ آفات ہے۔ رات دن، اُسی کی حکمت اور اختیارِ کُل کے شاہد ہیں۔ مظاہرِ عالم اُسی کی حاکمیت مطلق کے سراپا حمد کناں ہیں۔ شاعرِ موصوف نے اسی حقیقت کی طرف مندرجہ شعر میں اظہار کیا ہے۔ روزمرّہ کی زبان میں کتنی خوبصورتی سے مصوّر کردیا ہے۔
شب سے نکالے دن تُو ، نکالے وہ دن سے رات
ہر شے پہ اختیار ہے ، اُس کارساز کا
شاعرِ موصوف نے ربّ العالمین کے صانع مطلق ہونے کو دیکھیے کتنے خوبصورت ڈھنگ اور سہل ممتنع کے اسلوب میں بیان کردیا ہے۔ وہ اپنے صنائع سے پہچانا جاتا ہے۔ وجدانِ سلیم رکھنے والا مشاہدۂ اشیائے عالم سے علم الیقین سے حق الیقین تک پہنچ جاتا ہے اور ذات واجب الوجود کے اختیار و قدرت پر ایمان لائے بغیر نہیں رہتا۔ وہ اقرار زبانی و قلبی کرتا ہے اور مان لیتا ہے، کوئی ذات ہے جو نظامِ کائنات چلا رہی ہے۔ اُسی کو برتری حاصل ہے، مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
حکمِ ربّ سے نبضِ ہستی چل رہی ہے رات دن
عالمِ کُل پر اُسی کی برتری ہے رات دن
چل رہا ہے حکمتِ ربّ سے نظامِ کائنات
مالک ِا رض و سما کی رہبری ہے رات دن
عقیدۂ آخرت ایک اہم موضوع ہے۔ طاہر سلطانی صاحب نے اسے بھی قرآن کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ مَرنے کے بعد وہ پھر اٹھائے گا۔ زندگی اور موت اُسی کے اختیار میں ہے۔ شعر دیکھے ؎
قبروں سے وہ مُردوں کو اُٹھائے گا یہ حق ہے
یہ عمر جو حاصل ہے ، ودیعت ہے خدا کی
…٭…
قادر ہے ، ہر اک شے پہ وہی مالک و مولا
اُس کے ہی تصّرف میں فنا اور بقا ہے
اللہ ربُّ العزت ہی عدم سے وجود میں لاتا ہے اور وجود سے عدم میں لے جاتا ہے۔ وہی سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بناتا ہے، لیل و نہار کا خالق ہے۔
خلوصِ قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر، چاہے جلی ہو یا خفی وہ دل کو روحانی سکون بخشتا ہے۔ نفسِ امّارہ زیر ہوجاتا ہے۔ نفس لوامہ مل جاتا ہے۔ احساس ذمہ داری اور خوفِ خدا سے دل معمور ہوجاتا ہے۔ آخری منزل اُس کی یہ ہے کہ نفسِ مطمئنّہ حاصل ہوجاتا ہے۔ صبر و قناعت، توکّل، تحمل و برداشت، استقامت کی صفات سے متصف ہوکر منزلِ راضیہ و مرضیّہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ارشادِ ربّی ہے:
’’یا ایتھا النفس المطمئنّہ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ‘‘
(اے نفسِ مطمئنّہ والو! رجوع کرو تم اپنے رب کی طرف خوشی اور رغبت سے)
سورۂ رعد کی ایک آیت میں فرمایا:
’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘
(یا د رکھو! اللہ کے ذکر سے دل سکون پاتے ہیں)
ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
’’واذکرو اللہ کثیراً لعلکم تفلحون‘‘
(اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم نجات پائو)
جناب طاہر سلطانی قرآنی حکم کو نظر میں رکھتے ہیں اور کہہ اُٹھتے ہیں ؎
یہ جہانِ حمد ہے محفل سجی ہے حمد کی
ذکرِ ربّ سے ہے معطّر نور و نکہت کا گلاب
…٭…
خدا کی یاد کو رکھّو! مسلسل آئینہ دل کا
یہی یادِ خدا تو ہے حقیقی ناطقہ دل کا
وہ جس کے حکم سے ہے آمد و رفت جاریاُسی مالک سے رکھنا
خدا کے ذکر سے معمور کرلے زندگی اپنی
کہ روزِ حشر بھی روشن رہے گا آئینہ دل کا
…٭…
خیر البشر کا درس یہی بار بار ہے
ذکرِ خدا ہی دل کا سکون و قرار ہے
…٭…
پیغام ملا ہے ہمیں قرآن سے طاہرؔ
دل کا تو سکوں صرف محبت ہے خدا کی
قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’اقم الصلوٰۃ لذکری‘‘
(تو نماز کو میری یاد کے لیے قائم کر)
مجازاً ذکر کو نماز کے مفہوم میں بھی لیا جاتا ہے۔ رسمی ذکر تو نماز ہی ہے۔ غیر رسمی ذکر کئی طرح کے ہیں جو اہلِ شریعت اور اہلِ طریقت و عرفاء کے بتائے ہوئے ہیں۔ مثلاً (۱) ذکر لسانی یا لفظی (۲) ذکرِ قلبی (۳) ذکرِ روحی (۴) ذکرِ سِرّی (۵) ذکرِ خفی (۶) ذکرِ اخفی (۷) اخفی الاخفی اور پھر اہلِ سلوک مزید اذکار کے طریقے بھی اختیار کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا چھے اشعار میں سے دوسرا اور تیسرا شعر اسلوب بیان کی خوبی کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بھی گہری معنویت کے آئینہ دار ہیں۔ خدا کی یاد کو حقیقی ناطقہ اور مالک سے رابطہ دل کا ، اہلِ سلوک کی نظر میں ذکر اخفی الاخفی سے مراد ہے یعنی وہ ذکر ،جو ذکر اور ذاکر مطلوب۔ لذتِ ذکر، علم لذت سب کچھ درمیان سے اٹھ جائے اور صرف مطلوب رہ جائے۔ ذکر کا یہ مقام فنا فی اللہ ہوتا ہے۔ جناب طاہر سلطانی سلوک و طریقت کے آدمی ہیں، وہ اذکار کے تمام مجازی و حقیقی طریقوں سے واقف ہیں اور وہ علم ان اشعار میں ڈھل گیا ہے۔ یہ ذکر، ذوقِ فی معرفۃ اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان شعروں میں وہ ایک صوفی فی الذوق نظر آتے ہیں۔ اس نہج کے شعر ان کے حمدیہ کلام میں اور بھی ہیں جو اپنی ظاہری اور معنوی خوبی سے بدرجہ اتم آراستہ ہیں۔
جناب طاہر سلطانی اپنی حمدیہ شاعری میں بہت سے موضوعات قرآن حکیم سے لیتے ہیں مثلاً ، اللہ ربُّ العزت نے جو مرتبہ، جملہ مخلوقات میں انسان کو عنایت کیا ہے، اور اس کے سر پر احسن تفویم اور قل و شعور کا تاج سجاکر اپنے نائب ہونے کا مرتبۂ اعلیٰ تفویض کردیا ہے۔ انسان کو جو اعزاز اور فضیلت بخشی ہے اس کا ذکر واضح الفاظ میں کئی آیات قرآن میں موجود ہیں۔ ان آیات کا آزاد مفہوم اپنے حمدیہ کینوس پر منتقل کردیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں ؎
کرکے تخلیق ہمیں کردیا ،ا شرف ربّ نے
آدمیت کو شرف اُس کے نرالے بخشے
فہم و ادراک دیا ، راہ دکھائی حق کی
کرمِ خاص کیا ، عِلم کے دھارے بخشے
…٭…
میرا رُتبہ خوب بڑھایا
تُونے خلیفہ مجھ کو بنایا
فکر و نظر کا عطیہ دے کر
اقرا کہہ کر مجھ کو پڑھایا
ادنیٰ غلام ہوں تیرا سائیں
ہوجائے اک پھیرا سائیں
مندرجہ بالا اشعار آیاتِ قراانی کے تناظر میں دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘
(اور البتہ پیدا کیا انسان کو ہم نے بہترین ڈھانچے اور شکل و صورت میں)
ایک دوسری آیت میں فرمایا:
’’وسخر لکم مافی السمٰوات ومافی الارض‘‘
(اور تمہارے تابع بنایا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں)
ایک جگہ ارشاد ہوا:
’ثم جعلکم خلائف فی الارض‘‘
(پھر ہم نے تم کو زمین پر اپنا جانشیں مقرر کیا)
اللہ نے انسان کو عزت عنایت فرمائی، اور فرمایا:
’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘
(اور البتہ عزت بخشی ہم نے بنی آدم کو)
جناب طاہر سلطانی اپنے حمدیہ اشعار ارشادِ ربانی سے بھی مزین کرتے ہیں جو صنعتِ تلمیح کے حُسن کے آئینہ دار ہیں۔ شاعر موصوف بے ضرورت تشبیہات و استعارات کا اہتمام کرکے شعروں کو بوجھل نہیں کرتے۔ ان کی شاعری کا حُسن ان کی سادہ بیانی میں مستور ہے۔ طاہر موصوف اُس قبیلۂ شعراء سے ہیں جو روز مرّہ بول چال کی زبان میں اپنے مافی الضمیر کی شعری صورت گری کرتے ہیں۔ ان کے اشعار کے خزانے میں برجستگی بیان کے جواہرات بھی ملتے ہیں جو شعری و فنی تراش خراش میں مکمل ہیں۔
جملہ الہامی کتابوں میں قرآن حکیم آخری کتاب ہے۔یہ وحی متلو کا مجموعہ ہے جو رہتی دنیا تک رہے گا۔ یہ احکامِ الٰہی کی جامع تریں صحیفہ ہے اور تمام بنی نوع کے لیے دستور حیات ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک کے لیے۔ جناب طاہر سلطانی اپنی حمود میں آیاتِ قرآنی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے اس سے بڑا، کوئی ذریعہ نہیں۔ جسے حضور ختمی مرتبت کے اپنی حیات میں ڈھال کر دکھایا، اور ہدایت مطلق کے خواہش مندوں کے لیے آئین زندگی ہے۔ اس حقیقت کی طرف شاعر موصوف اشارہ کرتے ہوئے سادگیِ بیان کے ساتھ فرماتے ہیں ؎
تُو خالق ہے ، مالک ہے ، قرآن تیرا
دیا تُونے بندوں کو دستور یاربّ
اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ اللہ ربُّ العزت کا یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ اُس نے اصولِ فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے قرآن کریم کی صورت میں نبی کریمﷺ کے ذریعے رہنمائی فرمائی۔ شعر دیکھیے ؎
لب پر ہے شکر یارب! اس بندہ پروری کا
تُونے دیا ہے ہم کو آئیں زندگی کا
قرآن حکیم کی تشریح و تفسیر حضور کریمﷺ کی زندگی ہے۔ اُن کو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے وحی متلو، جو (وحی جلی ہے) عنایت فرمائی۔ جناب طاہر سلطانی اس حقیقت کی شعری صورت گری فرماتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے ؎
سرورِ کونینﷺ کو تحفے میں دینے کے لیے
مالکِ ارض و سما نے تیس پارے ہی چُنے
قرآن کے تیس پاروں میں آیاتِ وعدہ ایک ہزار، آیاتِ وعید ایک ہزار، آیاتِ نہی ایک ہزار، آیاتِ اَمر ایک ہزار، آیاتِ مثال ایک ہزار، آیاتِ قصص ایک ہزار، آیاتِ ملل دو سو پچاس، آیاتِ خرام دو سو پچاس، آیاتِ تسبیح ایک سو، آیاتِ متفرقہ چھیاسٹھ، چھے ہزار چھے سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) آیات میں احکامِ تکوینی و تشریعی سمٹے ہوئے ہیں۔ متقی لوگوں کے لیے مکمل ہدایت اور ضابطۂ حیات ہے۔سورۂ البقرہ کی پہلی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
’’المّ ذالک الکتب لاریب فیہ ھدی للمتقین‘‘
(یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کے لیے مکمل ہدایت ہے)
محوّلہ بالا آیت کی روشنی میں شعر دیکھیے ؎
پڑھو! دل سے پیامِ خالقِ کُل
مدلّل ہے کلامِ خالقِ کُل
اللہ ربُّ العزت کے حکم پر سچائی سے چلنے والے کے لیے قرآن حکیم میں جو صریح خوش خبری ہے۔ ارشادِ خدا ہے:
’’لئن شکر تم لازید لکم‘‘
(اگر تم نے میرا شکریہ ادا کیا میں ضرور ضرور اپنی نعمتوں میں اضافہ کردوں گا)
شاعر موصوف کہتے ہیں ؎
ملے گا تاجِ رفعت بھی اُسی کو
جو سچّا ہے غلامِ خالقِ کُل
طاہر سلطانی احکامِ قرآنی کو نظر میں رکھتے ہیں۔ کسبِ حلال پر آیتِ قرآن ’’ولا تاکلؤ اموالکم بینکم بالباطل‘‘ (اور آپس میں ایک دوسرے کے مالوں کو ناجائز طور پر مت کھائو) آیت مبارکہ نے ہر اس مال کو جو کسی بھی ناجائز ذریعے یا جبر و ظلم سے حاصل کیا جائے اسے حرام کہا ہے اور اس سے منع کیا ہے۔ اسی آیت کے تناظر میں مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ فرمائیے جو رزقِ حلال حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے ؎
ہے یہی پیغامِ ربّ حاصل کرو رزقِ حلال
نُور پیشانی کا بن جائے گا محنت کا گلاب
محنت میں عظمت ہے۔ رزقِ حلال سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ جو حرام مال پر گزر کرتا ہے اس کی عزت نہ معاشرے میں ہے نہ آخرت میں اس کی عزت ہوگی۔ قرآن وحی متلو ہے جس کی روشنی میں
پہلے تعمیرِ اخلاق ہو
یہ صراحت ہے قرآن کی
ہم بزرگوں کی خدمت کریں
یہ نشانی ہے ایمان کی
مسکرا کر سبھی سے مِلیں
یہ ہدایت ہے رحمان کی
گھر میں مہمان آئے اگر
دل سے خدمت ہو مہمان کی
نیکی کرکے جتائیں نہ ہم
یہ ہی صورت ہے احسان کی
بھیجو طاہرؔ درود و سلام
ہے رِضا ، ربّ رحمان کی
مندرجہ بالا اشعار کو پڑھنے کے بعد قرآن و احادیث کی تعلیمات کا احساس ہونے لگتا ہے۔ شاعر موصوف کا یہ علم اور صلاحیت جو اشعار کی صورت میں ڈھل گئی ہے ان کی قرآن فہمی اور احادیث کے مطالعے کی شہادت ہے۔
جس سے محبت صادق ہو ،اُس کی نسبت سے ہر چیز سے عقیدت و شیفتگی لازمی ہے۔ بیت اللہ شریف جو حضرت آدم علیہ السّلام کی پیدائش سے قبل مسجدِ بیت المعمور کے مقابل (سیدھ) میں اللہ کے حکم سے فرشتوں نے تعمیر کیا تا۔ اس کے بعد آدمؑ و خلیلؑ کے ہاتھوں اس کی تجدید ہوئی۔ حق تعالیٰ نے اس کے متعلق قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
’’ان اوّل بیت وضع للناس للذی بیکۃ مبارکا وھدی للعٰلمین‘‘
(بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا ، وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت تمام جہان کے لیے)
اس تناظر میں ایک سچے مسلمان کے لیے اس سے محبت و عقیدت باعثِ خیر و برکت اور ثواب ہے اور اس کا طواف فرض ہے۔ وہ اللہ ربُّ العزت کی صریح نشانیوں میں سے ہے جو اس میں داخل ہوا وہ مامون ہوگیا۔ مندرجہ ذیل اشعار طاہر سلطانی کے حُسنِ عقیدت و محبت کے آئینہ دارہیں ۔ملاحظہ فرمائیے ؎
تُو کتنا حسیں ربّ کا ہے گھر خانۂ کعبہ
خیرہ ہیں مِرے قلب و نظر خانۂ کعبہ
مومن کا ہے مقصودِ نظر خانۂ کعبہ
یہ تیری کشش تِرا اثر خانۂ کعبہ
ہر دل میں مچلتی ہے ترے طوف کی خواہش
دیوانہ ہے ہر ایک بشر خانۂ کعبہ
ہوں اُس کے لیے ہیچ یہ دنیا کے نظارے
دیکھے جو تِری نوری سحر خانۂ کعبہ
مندرجہ بالا اشعار سے عظمتِ بیت اللہ، اس کا طواف و زیارت ہر مسلمان کے لیے باعثِ ثواب اور برکت ہے اور وہ اللہ ربُّ العزت کی مادّی نشانیوں کی شہادت ہے اور مسلمانانِ عالم کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی علامتِ روشن ہے۔ اسی نہج چند شعر اور دیکھیے ؎
تیرے حرم کے نوری پھیرے
دیکھوں جلوے ہر سُو تیرے
تیرے گھر کی دید ، عبادت
آنکھوں کو ملتی ہے راحت
حمد لکھوں اک تیری سائیں
خواہش ہے یہ میری سائیں
طاہر سلطانی ایک حسّاس، دیدہ ور اور جہات نگر شاعر ہیں۔ وہ معاشرہ و عمل ہیں، المملکتی اور بین الاقوامی واقعات و سانحات سے بے خبر نہیں رہتے، اس لیے ان کی شاعری خصوصاً حمدیں بھی زندگی اور کائنات سے گُندھی ہوئی ہیں۔ اپنے ملک اور ؟؟ میں ہونے والی ہلاکتوں اور فتنہ و شر کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ان کی حمود میں مناجاتی اور التجائی انداز مظہری طور پر نظر آتا ہے اور بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں ؎
میرے وطن کو خدا! دُور رکھ اندھیروں سے
میرے وطن کا درخشاں ہر آفتاب رہے
…٭…
خود کش دھماکے بند ہوں امن و اماں رہے
یاربّ! کرم ہو ایسا غموں کا اثر نہ ہو
…٭…
یہ ارضِ پاک موجِ تلاطم کی زد میں ہے
بس ربّ ہی ناخدا ہے شکستہ جہاد کا
پاکیزہ ملک میرا ، زد میں ہے تِیرگی کی
یاربّ! مرے وطن میں ڈیرا ہو روشنی کا
وطن کی محبت سنّتِ نبوی ہے۔ وطن، اغیا اور دوست نما دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔ اس کی حفاظت کی دعا اسی سے مانگ رہے ہیں جو غوث الاغواث ہے۔ جو سب سے بڑا پناہ دینے والا ہے۔ اُس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوسکتا ۔ ’’ایاک نستعین‘‘ (ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں) کے تناظر میں ان مناجاتی و التجائی اشعار کی اصل روح پوشیدہ ہے۔ طاہر سلطانی کے حمدیہ کلام کا تامّل کے ساتھ مطالعہ ان کی شاعرانہ انفرادیت اور اپنے حمدیہ مافی الضمیر کو سادگی و سلاست کے ساتھ بیان کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ان کے اشعار ژولیدہ بیانی ابہام و سست بیانی اور دیگر نقائص و اسقام شعری سے پاک ہیں۔ ان کی حمدیں استحسان کے نور سے منوّر و آراستہ ہیں۔
٭٭٭٭٭