islam
حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمَّ نے وضو اورنمازکاطریقہ سکھایا:
(15)۔۔۔۔۔۔مروی ہے کہ ايک شخص نے نماز ادا کی، پھر مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر سلام عرض کیا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے سلام کا جواب ديا اور ارشاد فرمايا :”واپس جاؤاور نماز پڑھو کيونکہ تم نے نماز ادا نہيں کی۔” وہ شخص لوٹ آيا اور نماز دوبارہ پڑھی اور حاضرِ بارگاہ ہو کر سلام عرض کیا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے سلام کا جواب عطا فرمايا اور پھر دوبارہ وہی حکم ديا وہ شخص لوٹ آيا پھر نماز پڑھی اور حاضرِ بارگاہ ہوا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے پھر نماز لوٹانے کا حکم ديا تو اس نے عرض کی :”مجھے معلوم نہيں کہ مجھ ميں کيا خامی ہے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”تم ميں سے کسی کی نماز اس وقت تک کامل نہيں ہوتی جب تک وہ اللہ عزوجل کے بتائے ہوئے طريقے کے مطابق وضو نہ کر لے يعنی اپنا چہرہ دھوئے، کہنيوں سميت دونوں ہاتھ دھوئے، اپنے سر کا مسح کرے اور ٹخنوں سميت دونوں پاؤں دھوئے، پھر تکبير کہے، اللہ عزوجل کی حمد اور بزرگی بيان کرے اور جس قدر اللہ عزوجل اسے توفيق دے اتنی قراء ت کرے، پھر تکبير کہے اور رکوع کرے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے يہاں تک کہ اس کے تمام جوڑ ڈھيلے ہو کر پر سکون ہو جائيں، پھر سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہہ کر سيدھا کھڑا ہو جائے
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
يہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجائے اور اپنی پيٹھ سيدھی کرے، پھر تکبير کہہ کر سجدہ کرے اور زمين پر اپنی پيشانی کو خوب جمائے يہاں تک کہ اس کے جوڑ آرام پا کر ڈھيلے ہو جائيں، پھر تکبير کہہ کر سجدے سے سر اٹھائے اور سيدھا ہو کر بيٹھ جائے اور اپنی پيٹھ سيدھی کرے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے نماز کا پوراطريقہ بيان کرنے کے بعد ارشاد فرمايا :” جب تک تم ميں سے کوئی اس طريقے کے مطابق نماز ادا نہ کریگا اس کی نماز کامل نہ ہو گی۔”
(جامع التر مذی،ابواب الصلاۃ،باب ما جاء فی وصف الصلاۃ،الحدیث:۳۰۲،۳۰۳،ص۱۶۶۸،مختصراً)
(16)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”نماز تین تہائيوں کا نام ہے، ايک تہائی طہارت ، ايک تہائی رکوع اور ايک تہائی سجود ہے، جس نے اسے پورے حقوق کے ساتھ ادا کيا اس کی نمازاور تمام اعمال مقبول ہو گئے اور جس کی نماز مردود ہو گئی اس کے تمام اعمال مردود ہوگئے۔” (مجمع الزوائد،کتاب الصلاۃ ، باب علامۃ قبول الصلاۃ ، الحدیث ۲۸۹۰ ، ج ۲ ، ص ۳۴۵ )
تنبیہ:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا واضح ہے اگرچہ ميں نے کسی کو اسے کبيرہ گناہوں ميں ذکر کرتے ہوئے نہيں پايا مگر ميں نے ان احادیثِ مبارکہ ميں وارد سخت وعيد کی بناء پر اسے کبيرہ گناہ قرار ديا ہے کيونکہ نمازمیں جس چیز کے واجب ہونے پر اجماع ہو اس کا ترک کرنا ترکِ نماز کو مستلزم ہے اور يہ کبيرہ گناہ ہے، اسی طرح جس کے واجب ہونے ميں اختلاف ہو اس کا ترک کرناان افراد کے نزديک کبيرہ گناہ ہے جو اسے واجب سمجھتے ہيں کيونکہ ان کے نزديک اس واجب کا ترک ترکِ نماز کولازم ہے نیز ترکِ نماز کی گذشتہ وعيديں بھی اس گناہ کو شامل ہيں۔