islam
ان رسموں کی خرابیاں:
انسان کے لئے نزع کا وقت بہت سخت وقت ہے کہ عمر بھر کی کمائی کا نچوڑ اس وقت ہورہا ہے ۔اس وقت قرابت داروں کا وہاں دنیاوی باتیں کرنا سخت غلطی ہے کیونکہ اس سے میت کا دھیان ہٹنے کا اندیشہ ہے فقط آنکھوں سے آنسو بہیں یا معمولی آواز منہ سے نکلے اورکچھ صبر وغیرہ کے لفظ بھی منہ سے نکل جائیں تو کوئی حرج نہیں مگر پیٹنا،منہ پر طمانچہ مارنا ، بال نوچنا ، کپڑے پھاڑنا،بے صبری کی باتیں منہ سے نکالنا نوحہ ہے اورنوحہ حرام ، نوحہ کرنے والے سخت گنہگار ہیں ۔ یہ سمجھ لو کہ نوحہ کرنے اورنوچنے،پیٹنے سے مردہ واپس نہیں آجاتابلکہ صبرکاجوثواب ملتاہے وہ بھی جاتارہتا ہے۔ دوہی وقت امتحان کے ہوتے ہیں ۔ ایک خوشی کا دوسرا غم کا ۔ جوان دو وقتوں میں قائم رہا وہ واقعی مرد ہے ۔ مصیبت کے وقت یہ خیال رکھو کہ جس رب نے عمر بھر آرام دیا اگر وہ کسی وقت کوئی رنج یا غم بھیج دے تو صبر چاہے ۔ کسی قرابت دار کے آنے کے انتظار میں میت کے دفن میں دیر لگانا سخت منع ہے اوراس میں ہر طرح کا خطرہ ہی ہے اگر زیادہ رکھنے سے میت کا جسم بگڑ جائے یا کسی قسم کی بو وغیرہ پیدا ہوجائے یا کسی قسم کی خرابی وغیرہ پیدا ہوجائے تو اس میں مسلمان میت کی توہین ہے ۔ قرابت دار آکر میت کو زندہ نہیں کرلیں گے اورمنہ دیکھ کر بھی کیا کریں گے ۔ اس لیے دفن میں جلدی کرنا ضروری ہے ۔ چند چیزوں میں بلاوجہ دیر لگانا منع ہے لڑکی کی شادی ، قرض کا ادا کرنا، نماز کا پڑھنا ، توبہ کرنا ، میت کو دفن کرنا، نیک کام کرنا ، کسی کے مرنے سے محلہ میں روٹی پکانا یا کھانا منع نہیں ہوجاتا۔ہاں چونکہ میت کے خاص رشتہ دار دفن میں مشغول ہونے اور زیادہ رنج وغم کی وجہ سے کھانا نہیں پکاتے ان کے لئے کھانا تیار کرنا بلکہ انہیں اپنے ساتھ کھلانا سُنت ہے ۔ مگر خیال رہے کہ کھانا صرف ان لوگوں کے لئے پکایا جائے اوروہی لوگ کھائیں جو رنج وغم کی وجہ سے گھر نہ پکا سکیں محلہ والوں اوربرادری کو رسمی طریقہ پر کھلانا بھی ناجائز ہے اورکھانا بھی ۔ غم اور رنج دعوتوں کا وقت نہیں،میت کے ساتھ دیگ یا کچھ غلہ لے جانے میں حرج نہیں مگر دو باتوں کا ضرور خیال رہے۔اول یہ کہ لوگ اس خیرات کو اتنا ضروری نہ سمجھ لیں کہ نہ ہو تو قرض لے کرکر یں ۔اگر میت کے وارثوں میں سے کوئی وارث بچہ ہو یا کوئی سفر میں ہوتو میت کے مال سے خیرات نہ کریں بلکہ کوئی شخص اپنی طرف سے کردے ۔ دوسرے یہ کہ قبرستان میں تقسیم کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ فقراء وغرباقبروں کو پاؤں سے نہ روندیں اوریہ کھانا یا غلہ نیچے نہ گرے ۔ بہتر تو یہی ہے کہ گھر پر ہی خیرات کردی جائے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ خیرات لینے والے فقراء غلہ لینے کے لیے قبروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورچاول وغیرہ بہت خراب کرتے ہیں ۔