ہم مسلمانوں کے وہ عذر بھی پیش کردیں جو کہ وہ بیان کرتے ہیں اور جس سے اپنی مجبور یوں کا اظہار کرتے ہیں۔ (۱)خدا دِل کو دیکھتا ہے۔شکل کو نہیں دیکھتا، دل صاف چاہے حدیثِ میں ہے ”اِنَّ اللہَ لَاَیَنْظُرُاِلٰی صُوَرِکُمْ بَلْ یَنْظُرُاِلیٰ قُلُوْبِکُمْ” (یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے نہیں بلکہ تمہارے دل دیکھتا ہے۔)
یہ عذر پڑھے لکھے مسلمان کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ۔۔۔۔۔۔الخ،باب تحریم ظلم المسلم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۵۶۴،ص۱۳۸۷)
جواب:اچھاصاحب اگر ظاہر کا کوئی اعتبار نہیں دل کااعتبار ہے تو آپ میرے گھرکھانا کھاؤ یا شربت پیؤ اور میں نہایت عمدہ بادام کا شربت یا عمدہ بریانی کھلاؤں پلاؤں مگر گلاس یا رکابی میں اوپر کی طرف خوب اچھی گندگی پلیدی لگادوں۔آپ اس برتن میں کھالو گے؟ہر گز نہیں کیوں جناب !برتن کا کیا اعتبار ؟ اس کے اندر کی چیز تو اچھی ہے جب تم بُرے برتن میں اچھی غذا نہیں کھاتے پیتے رب تعالیٰ تمہاری بُری صورتوں کیساتھ اچھے اعمال کیونکر قبول فرماویگا۔اگر قرآن شریف پڑھو تو لطف جب ہے کہ منہ میں قرآن شریف ہو۔اور صورت پر اس کا عمل ہو اگرتمہارے منہ قرآن ہے اور صورت قرآن شریف کے خلاف تو گویا اپنے عمل سے تم خود جھوٹے ہو۔بادشاہ کے آنے کیلئے گھر اور گھر کا دروازہ دونوں صاف کرو کیونکہ بادشاہ دروازے سے آوےگا اور گھر میں بیٹھے گا اسی طرح قرآن شریف کیلئے دل اور صورت دونوں سنبھالو حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف تمہاری صورتوں کونہیں دیکھتا بلکہ صورتوں کے ساتھ دل کو بھی دیکھتا ہے اگر اس کا وہ مطلب ہوتا جو تم سمجھتے ہو تو پھر سر پر چوٹی کان میں جنیوااور پاؤں میں دھوتی باندھ کر نماز پڑھنا جائز ہونا چاہے تھا،حالانکہ فقہافرماتے ہیں کہ چوٹی رکھنا، زنا رباندھنا کفر ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۲)اسلامی شکل سے ہماری عزت نہیں ہوتی جب ہم انگریزی لباس میں ہوتے ہیں تو ہماری عزت ہوتی ہے کیونکہ وہ ترقی یافتہ قوم کا لباس ہے۔
جواب:آدمی کی عزت لباس سے نہیں بلکہ لباس کی عزت آدمی سے ہے اگر تمہارے اندر کوئی جوہر ہے یا اگر تم عزت اور ترقی والی قوم کے فرد ہو۔تو تمہاری ہر طرح عزت ہوگی کوئی بھی لباس پہنو اگر ان چیزوں سے خالی ہو تو کوئی لباس پہنو عزت نہیں ہوگی۔ابھی کچھ دن پہلے گاندھی اور اس کے دوسرے ساتھی گول میز کانفرس میں شریک ہونے کیلئے لندن گئے جب خاص پارلیمنٹ کے دفتر پہنچے تو مسٹر گاندھی اسی چوٹی اور اسی لنگوٹی میں تھے جو ان کا اپنا قومی لباس ہے سوبھاش چندر بوس نے ایک بارلندن کا سفر کیا تو اپنی گائے اپنی دھوتیا،لٹیا اپنے ساتھ لے گئےکہے کیا اس لباس سے ان کی عزت گھٹ گئی ؟آج مسلمانو ں کے سوا تمام قومیں سکھ ہندوبلکہ کاٹھیاواڑ میں بہرے اور خوجہ ہمیشہ اپنے قومی لباس میں رہتے ہیں سکھ کے منہ پر داڑھی سرپر بال ہاتھ میں لوہے کا کڑا ہر جگہ رہتا ہے کیوں صاحب !کیاوہ دنیا میں ذلیل ہیں سچ ہے کہ جوانکی اس لباس میں عزت ہے وہ تمہاری بوٹ سوٹ میں نہیں،دوستو!اگر عزت چاہتے ہو تو سچے مسلمان بنو اور اپنی مسلم قوم کو ترقی دو۔
(۳)آخر داڑھی میں فائدہ کیا ہے؟کہ مولوی اس کے اتنے پیچھے پڑے ہیں؟
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جواب:داڑھی اورتمام اسلامی لباس کی خوبیاں ہم بیان کرچکے ہیں اب بھی عرض کرتے ہیں کہ اسلام کے ہر کام میں صدہا حکمتیں ہیں سنو!مسواک سنّت ہے اس میں بہت فائدے ہیں دانتوں کو مضبوط کرتی ہے مسوڑھوں کو فائدہ مند ہے منہ کو صاف کرتی ہے گندہ د ہنی کی بیماری کو فائدہ مند ہے معدہ درست کرتی ہے یعنی ہضم کرتی ہے آنکھوں کی روشنی بڑھاتی ہے زبان میں قوت پیدا کرتی ہے دانتوں کو صاف رکھتی ہے جانکنی کو آسان کرتی ہے، بلغم کو کاٹتی ہے، پِت دور کرتی ہے سَر کی رگوں کو مضبوط کرتی ہے موت کے وقت کلمہ یاد دلاتی ہے غرضیکہ اسکے فائدے۳۶ ہیں دیکھو شامی اور طب کی کتابیں ۔اسی طرح ختنہ ڈیڑھ سو بیماريوں کے لئے فائدہ مند ہے باہ کو قوی کرتا ہے انسان کی قوت مردی کوبڑھاتا ہے، اس جگہ میل وغيرہ جمع نہیں ہونے دیتا ،اولاد قوی پیدا کرتا ہے ،ختنہ والے کی عورت کسی طرف رغبت نہیں کرتی بعض بیماریوں میں ڈاکٹر ہندوؤں کے بچوں کا بھی ختنہ کرادیتے ہیں۔ ناخن میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے اگر ناخن کھانے یا پانی میں ڈبوئے جائیں تو وہ کھانا بیماری پیدا کرتا ہے اسی لئے انگریز وغیرہ چھری کانٹے سے کھانا کھاتے ہیں کیونکہ عیسائیوں کے یہاں ناخن بہت کمکٹواتے ہیں اور پرانے زمانے کے لوگ وہ پانی نہیں پیتے تھے جس میں ناخن ڈوب جائیں مگر اسلام نے اسکا یہ انتظام فرمایا کہ ناخن کٹوانیکا حکم دیا اور چھری کانٹے کی مصیبت سے بچایا اسی طرح مونچھوں کے بالوں میں زہریلا مادہ موجود ہے اگر مونچھیں بڑی بڑی ہوں اور پانی پیتے وقت پانی میں ڈوب جائیں تو پانی صحت کے لئے نقصان دہ ہوگا اسی لئے اب موجودہ فیشن کے لوگ مونچھ منڈوانے لگے۔اس کا اسلام نے یہ انتظام فرمایا کہ مونچھیں کاٹنے کا حکم د ے دیا۔کیونکہ مونچھیں منڈانے سے نامردی پیداہوتی ہے۔
داڑھی کے بھی بہت فائدے ہیں سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ داڑھی مردکے چہرے کی زینت ہے اور منہ کا نور جیسے عورت کیلئے سر کے بال یا انسان کیلئے آنکھوں کے پلک اور بھویں(بروٹے)زینت ہیں۔ اسی طرح مرد کیلئے داڑھی۔اگر عورت اپنے سر کے بال منڈادے تو بری معلوم ہوگی یا کوئی آدمی اپنی بھویں (بروٹے)اور پلکیں صاف کرادے وہ بُرا معلوم ہوگا۔اسیطرح مرد داڑھی منڈانے سے بُرا معلوم ہوتا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دوسرا فائدہ :یہ ہے کہ داڑھی مرد کو بہت سے گناہوں سے روکتی ہے کیونکہ داڑھی سے مرد پر بزرگی آجاتی ہے اسکو بُرے کام کرتے ہوئے یہ غیر ت ہوتی ہے کہ اگر کوئی دیکھ لے گا تو کہے گا کہ ایسی داڑھی اور تیرے ایسے کام۔داڑھی کی بھی تجھ کو لاج نہ آئی اس خیال سے وہ بہت سی چھچھوری باتیں اور کھلم کھلا برے کام سے بچ جاتا ہے یہ آزمائش ہے کہ نماز اور داڑھی بفضلہ تعالیٰ برائیوں سے روکتی ہے تیسرا یہ کہ داڑھی کے بالوں سے قوت مردی بڑھتی ہے۔ ایک حکیم صاحب کے پاس ایک نامرد آیا جس نے شکایت کی کہ میں نے اپنی کمزوری کا بہت علاج کیا کچھ فائدہ نہ ہوا انہوں نے فرمایا کہ داڑھی رکھ لے یہ اس کا آخری اور تیر بہدف نسخہ ہے ۔پھر فرمانے لگے کہ قدرت نے انسان کے بعض عضوؤں کا بعض سے رشتہ رکھا ہے اوپر کے دانت اور داڑھوں کا آنکھوں سے تعلّق ہے اگر کوئی شخص اوپر کی داڑھیں نکلوادے تو اسکی آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں پاؤں کے تلوؤں کا بھی آنکھو ں سے تعلق ہے کہ اگر آنکھوں میں گرمی ہو تو تلوؤں کی مالش کی جاتی ہے اگر نیندنہ آوے تو پاؤں کے تلوؤں میں گھی اور نمک کی مالش نیند لاتی ہے اسی طرح داڑھی کا تعلق خاص مرد کی قوتوں اور منی سے ہے اسی وجہ سے عورت کے داڑھی نہیں ہوتی اور نابالغ بچہ جسمیں منی کا مادہ نہيں ہوتا اور ہجڑا (نامردیعنی زنانہ)کے داڑھی نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی مرد کے داڑھی ہو اور اسکے فوطے نکال دیئے جائیں تو داڑھی خوبخود جھڑ جائیگی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگوں میں مشہور ہے کہ مولویوں کے اولاد بہت ہوتی ہے اور مولوی کی بیوی آوارہ نہیں ہوتی اسکی وجہ داڑھی ہی ہے اور ناف کے نیچےکے بال قوتِ مرد ی کیلئے نقصان دہ ہیں اسی لئے شریعت نے انکے صاف کرنیکا حکم دیا ہے اگر ہوسکے تو آٹھویں روز استرے سے ورنہ پندرہویں یا بیسویں دن ضرور لے۔ غرضیکہ سنت کے ہر کام میں حکمتیں ہیں ہم نے ایک کتاب لکھی ہے ”انوار القرآن”جس میں نمازکی رکعتیں، وضو،غسل اور تمام اسلامی کاموں کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ حتٰی کہ یہ بھی اس میں بتایا ہے کہ جو سزا ئیں اسلام نے مقرر فرمائی ہیں مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، زنا کی سزا رجم کرنا اس ميں کیا حکمتیں ہیں نیز ہم نے اپنی تفسیرِ نعیمی میں اسلامی احکام کے فوائد اچھی طرح بیان کردیئے اس کا مطالعہ کرو۔مونچھ کے بال بھی قوتِ مردی کیلئے فائدہ مند ہیں مگر ان کی نوکوں میں زہریلا اثر ہے اس لئے ان کو کاٹ تو دومگر بالکل نہ مونڈو۔
(۴)آج دنیا میں ہر جگہ داڑھی منڈوں کی ہی بادشاہت ہے مال، دولت، حکومت،انہی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برکت والی چیز ہے (مسلمان یہ مذاق میں کہتے ہیں)۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جواب:اگر داڑھی منڈانے سے بادشاہت مل جاتی ہے حکومت، دولت،عزت ہاتھ آتی ہے تو جناب والا !آپ کو داڑھی منڈاتے، ہیٹ لگاتے، کوٹ پتلون پہنتے ہوئے عرصہ گزر گیا۔آپ کو توحکومت کیا کوئی چیز بھی نہیں ملی،پھر تمام بھنگی، چمار، چوہڑے اور ہر قوم یہ کام کرتی ہے وہ کیوں بادشاہ نہیں بن گئی؟ دوستو! عزت، حکومت، دولت تم کو جوبھی ملے گا وہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی غلامی سے ملے گا۔
وَاَنۡتُمُ الۡاَعْلَوْنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ (پ4،اٰل عمران، 139)
ترجمہ کنزالایمان:تمہیں غالب آؤ گے اگرایمان رکھتے ہو۔
آج غیروں کو اس لئے تمہارا حاکم کردیا گیا کہ تم میں حکومت کی اہلیّت نہ رہی ورنہ یہ تمام عزتیں تمہارے ہی لئے تھیں، یاد رکھو !ساری قومیں آگے بڑھ کر ترقی کريں گی،مگر تم ساڑھے تیرہ سو برس پیچھے ہٹ کر۔ سلطان اور نگزیب شاہجہان وغیرہ اسی طرح عرب و عجم کے تقریباً سارے اسلامی بادشاہ داڑھی والے ہی گزرے۔
لطیفہ:ایک مسلمان ہم سے کہنے لگے کہ اسلام نے ہم کو ترقی سے روکا۔میں نے کہا وہ کیسے ؟فرمانے لگے کہ اس نے سود تو حرام کردیا اور زکوٰۃ فرض کردی۔ پھر یہ شعر پڑھا۔
کیونکر ہو ان اصولوں میں افلاس سے نجات
یاں سود تو حرام ہے اور فرض ہے زکوٰۃ!
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
آج دوسری قومیں سود کی وجہ سے ترقی کررہی ہيں۔اگر ہم سود کا لین دین کریں تو ہم بھی ترقی کرسکتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا آج دنیا میں جو بھی مصیبت ہے وہ سود ہی کی وجہ سے ہے، بڑے بڑے بیوپاریوں کا ایک دم جو دیوالیہ ہوجاتا ہے وہ یا تو سٹے(جوئے)کی وجہ سے یا ہنڈی کے لین دین (سودی کاروبار)سے، اگر آدمی اپنی پونجی کے مطابق کام کرے اور محنت، مشقت اور دیانت داری سے تجارت کرے تو اس کی تجارت ٹھوس اور ان شا ء اللہ عزوجل! لازوال ہوگی اور زکوٰۃ نکالنے سے اپنا مال محفوظ ہوجاتا ہے جیسے گورنمنٹ کا حق ادا کرنے سے مال محفوظ ہوتا ہے زکوٰتی مال برباد نہیں ہوتابلکہ بڑھتا ہے انگور اور بیر کے درخت کی شاخيں کاٹنے سے زیادہ پھل آتا ہے اسی طرح زکوٰۃ دینے سے مال زیادہ ہوتا قدرت نے ہر چیز سے زکوٰۃ لی ہے آپ کے جسم پر بیماریاں آتی ہیں یہ تندرستی کی زکوٰۃ ہے ناخن اور بال کٹوائے جاتے ہیں یہ عضو کی زکوٰۃ، تو چاہے کہ مال کی بھی زکوٰۃ ہو مسلمانوں کے زوال کی وجہ سے ان کی بیکاری، تجارت سے نفرت اور آوارگی ہے اور یہ تو تجربہ ہے کہ مسلمان کے لئے سود پھیلتا نہیں۔آخر کار تباہی لاتا ہے دوسری قوم سود سے بڑھ سکتی ہے مگر مسلمان اِن شا ء اللہ عزوجل! سود لینے سے نہ بڑھے گا۔بلکہ زکوٰۃ دینے سے۔ پائخانہ کا کیڑا پائخانہ (گو)کھا کر زندگی گزارتا ہے مگر بلبل کی غذا پھول ہے۔ مسلمانو! تم بلبل ہو پھول یعنی حلال کمائی حاصل کرکے کھاؤ۔حرام پر نہ للچاؤ۔حلال میں برکت ہے حرام میں بے برکتی، دیکھو ایک بکری سال میں ایک یا دو بچے ہی دیتی ہے اور ہزار ہا بکریاں ہر روز ذبح ہوجاتی ہیں اور کتیا سال میں چھ سات بچے دیتی ہے اور کوئی کتا ذبح نہیں ہوتا مگر پھر بھی بکریوں کے جھنڈ کے جھنڈ اور ریوڑدیکھنے میں آتے ہیں اور کتوں کا ریوڑ آج تک نظرنہ پڑا کیوں؟ اس لئے کہ بکری حلال اور کتا حرام لہٰذا بکری میں برکت ہے ۔
{5} داڑھی، مونچھ، کپڑا ہماری اپنی چیزیں ہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں مولوی لوگ اس پر کیوں پابندیاں لگاتے ہیں، گھر کی کھیتی ہے جس وقت چاہو اور جس طرح چاہو کاٹو اور استعمال کرو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جواب:یہ غلط خیال ہے کہ یہ چیزیں ہماری اپنی ہیں نہیں ہر چیز رب تعالیٰ کی ہے ہم کو چندروزہ استعمال کیلئے دی گئی ہے پھر چیز مالک کی ہی ہوگی، کسی نے کسی سے چرخہ مانگا تو جو سوت کات لیا وہ اپنا اور پھر چرخہ چرخے والے کا، اعمال سوت ہیں اور یہ جسم چرخہ، کارخانے سے کسی کو ایک مشین ملی مگر وہ آدمی اس مشین کے کل پُرزوں کو چلانے سے بے خبر ہے تو مشین کے ساتھ ایک کتاب بھی ملتی ہے جس میں ہر پُرزے کے استعمال کا طریقہ لکھا ہوتا ہے اور کمپنی کی طرف سے کچھ آدمی بھی مشین سکھانے والے مقرر ہوتے ہیں کہ بے علم لوگ اس کتاب کودیکھیں اور اس استاد سے مشین چلانا سیکھیں۔اگر یونہی کوئی غلط سلط مشین چلانا شروع کردے تو بہت جلد مشین توڑڈالے گااور ممکن ہے کہ مشین سے خود بھی چوٹ کھا جائے اسی طرح ہمارا جسم مشین ہے ہاتھ پاؤں وغیرہ اس کے پرزے ہیں یہ مشین ہم کو قدرت کے کارخانے سے ملی ہے اس کا استعمال سکھانے کیلئے کارخانہ کے مالک نے ایک کتاب اتاری (1)جس کا نام ہے ’’قرآن مجید‘‘ اور اس مشین کا کام سکھانے کیلئے ایک استادوں کا اُستاد دنیا بھر کا معلّم بھیجا جس کا نام پاک ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،اس استاذُ الْکُل نے ہم کو مشین چلا کر دکھادی اور قرآن مجید نے پکار دیا کہ
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌحَسَنَۃٌ
اے غافلو!اے مشین والو!اگر مشین صحيح طریقہ سے چلانا چاہتے ہو تو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے طریقہ پر چلاؤ جیسے جسم پر جان حکومت کرتی ہے کہ ہر عضو اس کی مرضی سے حرکت کرتا ہے اس طرح اس جان پر اس سلطان کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کوحاکم بناؤکہ جوحرکت ہوان ہی کی رضا سے ہو اسی کانام تصوّف ہے اور یہ ہی حقیقت، معرفت،اور طریقت کا مغز ہے حضرت صدر الافاضل دام ظلہم نے خوب فرمایا:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کھول دو سینہ مرا فاتحِ مکہ آکر
کعبۂ دل سے صنم کھینچ کے کردو باہر
آپ آجائيے قالب میں مرے جاں بن کر
سلطنت کیجئے اس جسم میں سلطاں بن کر
1…اس مقام پرمختلف نسخوں میں”ایک کتاب بنائی”لکھاہواتھاجوکہ کتابت کی غلطی ہے لہذا ہم نے اسے “ایک کتاب اتاری” کردیا۔۔۔۔علمیہ
2…ترجمۂ کنزالایمان:بے شک تمہیں رسول اللّٰہ کی پیروی بہترہے۔(پ۲۱،الاحزاب:۲۱)