islam
رشک اور مقابلہ بازی کے احکام
دوسری صورت یعنی رشک اور مقابلہ بازی حرام نہیں بلکہ یہ کبھی واجب ہوتا ہے تو کبھی مستحب اور کبھی مباح۔ چنانچہ،
اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمْ
ترجمۂ کنز الایمان:بڑھ کر چلو اپنے رب کی بخشش کی طرف۔(پ27، الحدید:21)
مسابقت یعنی مقابلہ بازی کسی چیز سے محروم رہ جانے کے خوف کا تقاضا کرتی ہے جیسے دو غلام اپنے آقا کی خدمت میں ایک دوسرے سے اس لئے سبقت لے جانا چاہیں تا کہ اس کے منظورِ نظر ہو جائیں،اور یہ دینی امورِواجبہ میں واجب ہے جیسے ایمان، فرض نماز اور زکوٰۃ کی نعمت پر رشک کرنا لہٰذا ان اُمور کو ادا کرنے والے کی طرح ہونے کو پسند کرنا واجب ہے ورنہ تم گناہ پر راضی ہونے والے بن جاؤ گے جو کہ حرام ہے، جبکہ فضیلت کے کاموں میں رشک کرنا مستحب ہے جیسے علم یا نیک کاموں میں مال خرچ کرنے پر رشک کرنا، جبکہ مباح نعمتوں پر رشک کرنا بھی مباح ہے جیسے نکاح وغیرہ پررشک کرنا، البتہ مباح اُمور(یعنی جائز کاموں ) میں مقابلہ بازی فضائل میں کمی کر دیتی ہے ، نیز یہ زہد، رضا اور توکل کے بھی منافی ہے اور ایسے کاموں میں مقابلہ کرنا گناہ میں مبتلاہوئے بغیربھی مقاماتِ رفیعہ سے روک دیتا ہے۔
البتہ! یہاں ایک باریک و دقیق نکتہ کی بات سے آگاہ ہونا ضروری ہے تا کہ انسان بے خبری میں حسد کے حرام فعل میں مبتلانہ ہو جائے، اور وہ یہ ہے کہ جو انسان غیر جیسی نعمت کے حصول سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ خود کو اس نعمت کے حامل شخص سے کم ترو ناقص سمجھنے لگتا ہے، نیز اس کا نفس یہ پسند کرنے لگتا ہے کہ اس کا نقص کسی طریقہ سے دور ہو جائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اس نعمت کے حصول میں کامیاب ہو کر یا پھراس نعمت کے حامل شخص کی نعمت کے زائل ہو جانے کے سبب اس کے ہم پلہ و برابر ہوجائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فرض کیا کہ وہ اس صاحبِ نعمت شخص کے مساوی ہونے سے مایوس ہو گیا تو تب بھی اس کے دل میں اس چیز کی محبت باقی رہ جائے گی کہ وہ نعمت اس شخص کے پاس بھی نہ رہے جس کی وجہ سے وہ اس پر ممتاز حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس نعمت کے ختم ہوتے ہی ا س کا اس صاحبِ نعمت شخص سے کمتر ہونا بھی ختم ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب وہ اس پر فضیلت لے جائے۔
اس شخص کو قابلِ مذمت حسد کرنے والا حاسد اسی صورت میں کہا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس نعمت کو اس شخص سے زائل کرنے پر قادر ہو کہ اُسے زائل کر دے، اور اگر اس نعمت کے زوال پر قدرت کے باوجود اس کاتقوی وپرہیزگاری اسے اس کام سے اور اس کی نعمت کے زوال کی تمنا سے روک دے تواس پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ ایک فطرتی اَمر ہے، نفسِ انسانی اس سے خالی نہیں ہوتااور ہو سکتا ہے کہ اس حدیث مبارکہ کا یہی مفہوم ہو کہ،
(114)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ہرآدمی حاسد ہے ۔”
(جامع الاحادیث،الحدیث:۱۵۷۷۱،ج۶،ص۴۳۲)
(115)۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مسلمان تین چیزوں سے الگ نہیں ہو
سکتا: (۱)حسد (۲)گمان اور (۳)بدشگونی، اس کے لئے ان سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب تم حسد کرو تو حد سے تجاوز نہ کر و ۔ ”
(اتحاف السادۃالمتقین،کتاب ذم الغضب والحقدوالحسد،باب بیان حقیقۃ الحسدحکمہ اقسامہ مراتبہ،ج۹،ص۵۰۱)
یعنی اگرتم اپنے دل میں کسی کے بارے میں کوئی چیز پاؤ تو اس پر عمل نہ کرو۔لیکن جو شخص غیر سے کسی نعمت میں برابری حاصل کرنا چاہے اور پھر اس سے عاجزآ جائے، بالخصوص جب وہ اس کا ہم مرتبہ ہو تو اس سے بعید ہے کہ وہ اس کے زوال کی تمنا نہ کرے، مقابلہ بازی کی یہ صورت حرام حسد سے مشابہ ہے، لہٰذا کامل احتیاط ضروری ہے کیونکہ آدمی جب اپنے نفس کی پسند پر کان دھرے گا اوراپنے اختیار سے ذی نعمت سے نعمت کا زوال چاہنے کے سبب مساوات و برابری کی طرف مائل ہو گا تو یقیناحرام حسد کا شکار ہو جائے گا، اور اس سے نجات صرف وہی پا سکتا ہے جو پختہ ایمان اور تقوٰی میں راسخ ہو،
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بعض اوقات دوسرے سے کم تر ہونے کا خوف انسان کوحرکت دیتا اوراس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ممنوع حسد کا شکار ہو جائے اور اس کی طبیعت بھی غیر کی نعمت کے زوال کی طرف مائل ہوجائے تاکہ دونوں میں مساوات ہو سکے، اس مقام میں کوئی رخصت نہیں خواہ یہ دینی مقاصد میں برابری کی خواہش ہو یا دنیوی معاملہ میں برابری کی تمنا ہو۔
سیدناامام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں :”مگر جب تک وہ اپنی خواہش پر عمل نہ کرے تو اگر اللہ عزوجل نے چاہا تو اسے اس حسد کی لعنت سے عافیت عطا فرمائے گا، اور اس کا اپنی اس خواہش کو ناپسند کرنا ہی اس کے لئے کفارہ ہو جائے گا۔”