Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

۔۔۔۔۔۔افعال مدح وذم کا بیان۔۔۔۔۔۔

وہ افعال جو کسی کی تعریف یامذمت بیان کرنے کیلئے وضع کئے گئے ہوں یہ چار ہیں۔
۱۔نِعْمَ     ۲۔حَبَّذَا     ۳۔بِئْسَ     ۴۔ سَاءَ
افعال مدح وذم میں فاعل کے علاوہ ایک اور اسم معرفہ آتاہے جو مخصوص بالمدح یا مخصوص بالذم کہلاتاہے۔جیسے نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ  (زید کیا ہی اچھا آدمی ہے) ،بِئْسَ الرَّجُلُ خَالِدٌ  (خالد کیا ہی برا آدمی ہے) ۔ان مثالوں میں اَلرَّجُلُ فاعل جبکہ زَیْدٌ مخصوص بالمدح اور خَالِدٌ مخصوص بالذم ہے۔ 
حَبَّذَا کے  علاوہ ان افعال کے فاعل کی تین صورتیں ہے ۔
    ۱۔ معرف باللام ہو ۔جیسے نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ۔     ۲۔یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو جیسے نِعْمَ غُلامُ الرَّجُلِ زَیْدٌ
    ۳۔ یا اسکا فاعل ضمیر مستتر ہو جسکی تمییز نکرہ منصوب آرہی ہو۔ جیسے نِعْمَ رَجُلاً زَیْدٌ  (یہاں نِعْمَ کا فاعل ضمیر مستتر ھُوَ ہے اور رَجُلاً اسکی تمییزہے) ۔یہ تمییز ابہام کو دور کررہی ہے۔ 
تنبیہ:
    کبھی ضمیر مستتر سے ابہام دور کرنے کیلئے تمییز نکرہ منصوبہ کی بجائے کلمہ مَا(بمعنی شی)کے ساتھ لائی جاتی ہے جیسے اِنْ تُبْدُوْا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ھِیَ  (یعنی فَنِعْمَ شَیْئٌ ھِیَ) (اگر تم صدقات ظاہر کرتے تویہ بہت ہی اچھا ہوتا۔
اِن کی ترکیب:
ان کی ترکیب دو طرح سے کی جاتی ہے۔
نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ۔
    ۱۔ نِعْمَ فعل اَلرَّجُلُ فاعل ،فعل اپنے فاعل سے ملکر جملہ فعلیہ ہو کر خبر مقدم، زَیْدٌ مبتدائے مؤخر، مبتدائے مؤخراپنی خبر مقدم سے ملکر جملہ اسمیہ۔    
    ۲۔ نِعْمَ فعل اَلرَّجُلُ فاعل ،فعل اپنے فاعل سے ملکر الگ جملہ فعلیہ ۔زَیْدٌ مبتدائے محذوف(ھُوَ) کی خبر،مبتدأ خبر ملکر جملہ اسمیہ۔
تنبیہ:
    کبھی کبھی مخصوص بالمدح اور مخصوص بالذم کو بوقت قرینہ حذف بھی کردیاجاتاہے۔ جیسے نِعْمَ ا لْمَاھِدُوْنَ یہاں نَحْنُ محذوف ہے۔ اسی طرح نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ میں ھُوَ محذوف ہے یعنی نِعْمَ الْمَوْلیٰ ھُوْ وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ھُوَ۔ افعال مدح وذم کے چند ضروری قواعد:
    ٭۔۔۔۔۔۔مخصوص بالمدح اور مخصوص بالذم اکثر فاعل کے بعد آتے ہیں ۔اور یہ ہمیشہ مرفوع ہوتے ہیں۔ انکا واحد وتثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث میں فاعل کے موافق ہونا ضروری ہے۔ جیسے نِعْمَ الرَّجُلُ زَیْدٌ اور نِعْمَ الرَّجُلاَنِ الزَّیْدَانِ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔ نَعِمَ اور بَئِسَ بر وزنِ فَعِلَ دونوں فعلِ ماضی کے صیغے ہیں فا کلمہ کوعین کلمہ (جو کہ حروفِ حلقی ہیں)کی وجہ سے کسرہ دیا گیااور تخفیفاعین کلمہ سے کسرہ حذف کردیاگیا۔
نوٹ:
     نعم میں چارلغات ہیں : نِعْمَ،نَعْمَ،نَعِم ،نِعِمَ لیکن اول سب سے زیادہ فصیح اور مشہور ہے۔
    ٭۔۔۔۔۔۔ نِعْم اور بِئْسَ کا فاعل جب اسم ظاہر مونث ہواگر چہ مونث حقیقی ہو تو ان کے ساتھ کبھی تائے تانیث (جوازاً)لاحق ہوتی ہے اس تا کو کثرت استعمال کی وجہ سے حذف کرنا جائز ہے جیسے: نِعْمَ اَوْ نِعْمَتْ فَتَاۃُ العَمَلِ وَالنَشَاطِ،بِئسَ اَوْ بِئْسَتْ فَتَاۃُ الْبَطَالَۃِ وَ الخَمُوْلِ۔ اسی طرح نِعْمَ یا نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہٖ۔
٭۔۔۔۔۔۔حَبَّذَامیں حَبَّ فعل مدح ہے اور ذَا اسم اشارہ اسکا فاعل اسکے بعد جو اسم آئیگاوہ مخصوص بالمدح ہوگا، نیز حَبَّذَا میں مخصوص بالمدح کا فاعل کے موافق ہونا ضروری نہیں، چنانچہ حَبَّذَا الْمُجَاھِدُوْنَ کہنا درست ہے۔
    ٭۔۔۔۔۔۔اگرحَبَّذَا سے پہلے نفی آجائے تویہ ذم کے معنی دینے لگتا ہے جیسے لاَحَبَّذَا النَمَّامُ (چغلخور براہے) ۔
    ٭۔۔۔۔۔۔مخصوص بالمدح یاذم کو فعل اورفاعل کے درمیان نہیں لاسکتے البتہ فعل پرمقدم کر سکتے ہیں جیسے، زَیْدٌ نِعْمَ الرَّجُلُ ،نیز اس صورت میں ایک ہی ترکیب ہوگی۔کہ مخصوص بالمدح (زَیْدٌ) مبتدا اور مابعد جملہ خبر بنے گا۔
    ٭۔۔۔۔۔۔حَبَّذَا کے علاوہ بقیہ افعال سے صرف ماضی کے مخصوص صیغے آتے ہیں ، جبکہ حَبَّذَا سے کوئی صیغہ نہیں آتا۔
    ٭۔۔۔۔۔۔ان افعال کے فاعل کی تمییز ہمیشہ ان سے متأخر ہوتی ہے۔ لہذا رَجُلاً نِعْمَ زَیْدٌ نہیں کہہ سکتے ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!