islam
حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مختصرحالات
حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مختصرحالات
سرکارِبغدارحضورِغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسم مبارک”عبدالقادر”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ”ابومحمد”اورالقابات ”محی الدین،محبوبِ سبحانی،غوثُ الثقلین،غوثُ الاعظم”وغیرہ ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور۵۶۱ھ میں بغدادشریف ہی میں وصال فرمایا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔
(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرنسبہ وصفتہ، ص۱۷۱،الطبقات الکبرٰی للشعرانی،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی،ج۱،ص۱۷۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
غوث کسے کہتے ہیں؟
”غوثیت”بزرگی کاایک خاص درجہ ہے،لفظِ”غوث”کے لغوی معنی ہیں ”فریادرس یعنی فریادکوپہنچنے والا”چونکہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غریبوں،بے کسوں اورحاجت مندوں کے مددگارہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ”غوث ِاعظم”کے خطاب سے سرفرازکیاگیا،اوربعض عقیدت مندآپ کو”پیران پیردستگیر”کے لقب سے بھی یادکرتے ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نسب شریف:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والدماجدکی نسبت سے حسنی ہیں سلسلہ نسب یوں ہے سیّد محی الدین ابومحمدعبدالقادربن سیّدابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّدابوعبداللہ بن سیّد یحییٰ بن سیدمحمدبن سیّدداؤدبن سیّدموسیٰ ثانی بن سیّدعبداللہ بن سیّدموسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّدامام حسن بن سیّدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین
اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّد ہیں۔(بہجۃالاسرار،معدن الانوار،ذکرنسبہ،ص۱۷۱)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آباء واجداد:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کاگھراناتھاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان،داداجان،والدماجد، والدہ محترمہ،پھوپھی جان،بھائی اورصاحبزادگان سب متقی وپرہیزگارتھے،اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔
سیدوعالی نسب دراولیاء است
نورِچشم مصطفےٰ ومرتضےٰ است
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ”سیّدموسیٰ”کنیت ”ابوصالح”اورلقب ”جنگی دوست” تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔
”جنگی دوست”لقب کی وجہ:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کالقب جنگی دوست اس لئے ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃًاللہ عزوجل کی رضاکے لئے نفس کشی اورریاضتِ شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کے لئے مشہورتھے،اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے،چنانچہ
ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجدکوجارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے
چندملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پراٹھائے جارہے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھاتوجلال میں آگئے اوران مٹکوں کوتوڑدیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اوربزرگی کے سامنے کسی ملازم کودم مارنے کی جرأت نہ ہوئی توانہوں نے خلیفہ وقت کے سامنے واقعہ کااظہارکیااورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف خلیفہ کوابھارا،توخلیفہ نے کہا:”سیّدموسیٰ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوفوراًمیرے دربارمیں پیش کرو۔”چنانچہ حضرت سیّدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربارمیں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پربیٹھاتھا،خلیفہ نے للکارکرکہا:”آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کورائیگاں کردیا؟”حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”میں محتسب ہوں اورمیں نے اپنافرض منصبی اداکیاہے۔”خلیفہ نے کہا:”آپ کس کے حکم سے محتسب مقررکئے گئے ہیں؟”حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا:”جس کے حکم سے تم حکومت کررہے ہو۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشادپرخلیفہ پرایسی رقّت طاری ہوئی کہ سربزانو ہوگیا(یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا)اورتھوڑی دیرکے بعدسرکواٹھاکرعرض کیا: ”حضوروالا! امربالمعروفاورنہی عن المنکرکے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟”حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا:”تمہارے حال پرشفقت کرتے ہوئے نیزتجھ کودنیااورآخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔”خلیفہ پرآپ کی اس حکمت بھری گفتگوکابہت اثرہوااورمتاثرہوکرآپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا:”عالیجاہ!آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پرمامورہیں۔”
حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ اندازمیں فرمایا:”جب میں
حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں توپھرمجھے خَلْق کی طرف سے مامورہونے کی کیا حاجت ہے ۔”اُسی دن سے آپ”جنگی دوست”کے لقب سے مشہورہوگئے۔(سیرت غوث ا لثقلین،ص۵۲)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان:
حضورسیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت زاہداور پرہیزگارہونے کے علاوہ صاحب فضل وکمال بھی تھے،بڑے بڑے مشائخ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے:
شیخ ابو محمدالداربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”حضرت عبد اللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے (یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں)۔اگر آپ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اللہ عزوجل اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ عزوجل اس کو انعام و اکرام سے نوازتا، ضعیف الجسم اور نحیف البدن ہونے کے باوجود آپ نوافل کی کثرت کیا کرتے اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔آپ اکثر امور کے واقع ہونے سے پہلے اُن کی خبر دے دیا کرتے تھے اور جس طرح آپ ان کے رونما ہونے کی اطلاع دیتے تھے اسی طرح ہی واقعات روپذیر ہوتے تھے۔”
( بہجۃالاسرار،ذکر نسبہ،وصفتہ،رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۷۲)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نیک سیرت بیویاں:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف
“عوارف المعارف”میں تحریر فرماتے ہیں:
”ایک شخص نے حضور سیدناغوثُ الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا:”یاسیدی! آپ نے نکاح کیوں کیا؟”سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ ”عبدالقادر! تم نکاح کر لو، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔”پھرجب یہ وقت آیاتواللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطافرمائیں، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے۔”
(عوارف المعا رف،الباب الحادی والعشرون فی شرح حال المتجردوالمتاھل من الصوفیۃ…الخ،ص۱۰۱،ملخصاً)
حضورسیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجباررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ”جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں۔ایک موقع پر میرے والدمحترم غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے ،جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر اس روشنی پرپڑی تووہ روشنی فوراًغائب ہوگئی،توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایاکہ ”یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتاتھااسی لئے میں نے اسے ختم کر دیا، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کئے دیتا ہوں۔” اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جوچاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔”
(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرفضل اصحابہ…الخ،ص۱۹۶)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پھوپھی صاحبہ بھی مستجاب الدعوات تھیں:
ایک دفعہ جیلان میں قحط سالی ہوگئی لوگوں نے نماز استسقاء پڑھی لیکن بارش نہ ہوئی تولوگ آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ اُم عائشہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکے گھر آئے اور آپ سے بارش کے لئے دعا کی درخواست کی وہ اپنے گھر کے صحن کی طرف تشریف لائیں اورزمین پرجھاڑودے کردعامانگی :” اے رب العالمین! میں نے تو جھاڑو دے دیا اور اب تو چھڑکاؤفرما دے۔” کچھ ہی دیر میں آسمان سے اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ کھول دیاجائے، لوگ اپنے گھروں کو ایسے حال میں لوٹے کہ تمام کے تمام پانی سے تر تھے اور جیلان خوشحال ہوگیا۔”(بہجۃالاسرار،ذکرنسبہ وصفتہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ص۱۷۳)