islam
افیون کے نقصانات:
يہ تمام قباحتيں افيون وغيرہ ميں بھی پائی جاتی ہيں بلکہ افيون وغيرہ ميں اس سے زيادہ ہيں کہ اس ميں صورت بگڑجاتی ہے جيسا کہ ا س کو کھانے والے کی حالت سے مشاہدہ کيا جا سکتا ہے اور اسے کھانے والے کی حالت سے جس عجيب چيز کا مشاہدہ کيا جا سکتا ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔اس ميں بدن اور (۲)۔۔۔۔۔۔عقل کابگڑجانااور (۳)۔۔۔۔۔۔ان کا گھٹيا ترين، بوسيدہ اور گندی صورت کی طرف پھر جانا ہے (۴)۔۔۔۔۔۔وہ کبھی بھی سيدھے راستے کی طرف مائل نہيں ہوتے (۵)۔۔۔۔۔۔مُرُوَّت کو خراب کرنے والی چيزوں کی طرف ہی جاتے ہيں حالانکہ يہ مذموم اور بری گمراہی ہے۔پھر ان بڑے بڑے نقصانات کے باوجود جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ ان کے چہروں پر موجود غبار او ر چھائے ہوئے دھوئيں سے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے کوئی جاہل ہی یہ پسند کر سکتا ہے کہ ان کے نقصان دہ اور بھٹکے ہوئے گروہ ميں شامل ہو، حالانکہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ وہ فاسق و فاجر یاکافروں ميں سے نہ ہو جائے۔
وہ شخص جس پر افیون کی برائياں واضح ہو گئيں اور جن کثير عيوب پر يہ مشتمل ہے وہ بھی اس پر ظاہر ہو گئے پھر بھی وہ ان کی طرف مائل ہوجائے اور ان کی پيروی کرنے لگے تو وہ دھوکا میں مبتلا ہو گيا، حوادثاتِ زمانہ اس کی تاک ميں ہیں شيطان اس سے اپنی مراد پانے میں کامیاب ہو گیا ہے کيونکہ اللہ عزوجل نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے، لہذا جب اس نے بندے کو اس لعنت کے گڑھے ميں پھينکا تو شيطان اس سے اس طرح کھيلنے لگا جس طرح بچہ گيند سے کھيلتا ہے کيونکہ اس وقت اس سے مقصود صرف یہی ہوتا ہے کہ اسے برے فعل کی طرف متوجہ کرے، اس لئے کہ عقل جو کہ کمال کا آلہ ہے وہ اپنا مقام کھو چکی ہے اور اب وہ بندہ حيوانات کی طرح ہو چکا ہے بلکہ گم گشتہ راہ(يعنی سيدھے راستے سے بھٹکاہوا)اور اہلِ دوزخ ميں سے ہو گيا ہے۔پس کتنابراہے جو اس نے اپنے نفس کے لئے پسندکيااور افسوس ہے اس پر جس نے دنيا و آخرت کی نعمتوں کوبيچا۔اللہ عزوجل ہميں اپنی اطاعت کی توفيق عطا فرمائے اور ہميں اپنی نافرمانی سے بچائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ:
مذکورہ گناہوں کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا ظاہر ہے اور امام ابو زرعہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وغيرہ نے يہی تصريح کی ہے جس طرح کہ شراب بلکہ امام ذہبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مبالغہ کيا اور اسے سزا اور نجاست ميں بھی شراب کی طرح قرار ديا اور وہ اس سلسلے ميں اس طرف مائل ہو ئے جوميں نے حنابلہ کے حوالے سے پہلے ذکر کيا اور فرمايا:”بھنگ اس اعتبار سے خبيث ترين ہے کہ يہ عقل اور مزاج کو خراب کر ديتی ہے يہاں تک کہ اس کا عادی ہيجڑا بن جاتا ہے اور بے غيرت اوربے غیرتی پراُکسانے والا ہو جاتا ہے اور شراب اس اعتبار سے خبيث ترين ہے کہ يہ لڑائی جھگڑا اورقتال کی طرف لے جاتی ہے يہ دونوں اللہ عزوجل کے ذکر اور نماز سے روکتی ہيں۔”
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمايا:”بعض متاخرين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس ميں حد لگانے پر توقف کيا ہے اور رائے دی ہے کہ اس ميں تعزير (یعنی سزا)ہے کيونکہ يہ بغيرمستی کے عقل کو تبديل کرتی ہے جيسے بھنگ، اور متقدمين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا اس ميں کوئی کلام نہيں پايا جاتا حالانکہ ايسا نہيں ہے بلکہ اس کے کھانے والے کو نشہ اور شہوت آ جاتی ہے جس طرح کہ شراب پينے والا۔ اور اکثر اوقات وہ اس سے نہيں رکتے اور يہ انہيں اللہ عزوجل کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس کے ٹھوس کھائی جانے والی ہونے کی وجہ سے سیدنا امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغيرہ کے مذہب ميں علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اس کے نجس ہونے کے بارے ميں تين اقوال ہيں:(۱)يہ پی جانے والی شراب کی طرح نجس ہے اور يہی صحيح تعبير ہے (۲)يہ ٹھوس ہونے کی وجہ سے نجس نہيں اور (۳)ٹھوس اور مائع بھنگ ميں فرق کيا جائے گا۔یہ لفظا ً اور معناًہر حال ميں اس نشہ دينے والی شراب ميں داخل ہے جس کو اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حرام قرار ديا ہے۔
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ہميں دو شرابوں کے بارے ميں حکم فرمائيں، جو ہم يمنی شراب بناتے ہيں وہ شہد سے بنتی ہے،اسے جوش دياجاتا ہے یہاں تک کہ شدید جوش ميں آجاتی ہے اور دوسری(کانام) شرابِ مرزہے جو مکئ اور جَوکوکھولنے تک جوش دينے سے بنتی ہے۔”راوی فرماتے ہيں کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوجوامع الکلم مکمل طورپرعطا فرمائے گئے تھے(يعنی مختصرالفاظ ميں جامع کلام کرنے کی مکمل قدرت تھی)پس سرکارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمايا: ”ہر نشہ آورچيزحرام ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح مسلم ،کتاب الاشربۃ ، باب بیان ان کل مسکر خمر ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث:۵۲۱۴، ص۱۰۳۶)
(3)۔۔۔۔۔۔ایک روایت میں رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہانے ارشاد فرمایا:”جس کی کثير مقدار نشہ دے اس کی قليل مقدار بھی حرام ہے۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الاشربۃ،باب ماجاء فی السکر،الحدیث:۳۶۸۱،ص۱۴۹۶)
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے کھانے پينے والی چيزوں کے درميان اس لئے فرق نہيں فرمايا،کیونکہ شراب کبھی روٹی کے ساتھ بھی کھائی جاتی تھی، بھنگ بھی کبھی پگھلائی جاتی اور کبھی پی جاتی ہے۔
سلف صالحين نے اس کا ذکر نہيں کيا کيونکہ يہ ان کے زمانے ميں نہيں تھی اور اس کے بارے ميں کہا گيا ہے:
فَاٰکِلُھَا وَزَاعِمُھَا حَلَالًا
فَتِلْکَ عَلَی الشَّقِیِّ مُصِیْبَتَانِ
ترجمہ:اسے کھانے والے او راسے حلال گمان کرنے والے بدبخت پر دو مصيبتيں ہيں۔