islam
آیات قرآنیہ کی قسمیں تفسیر قرآن کے درجے اوران کے حکم
ترجمہ قرآن سے پہلے اس قاعدے کو یاد رکھنا ضروری ہے ۔
آیات قرآنیہ تین طر ح کی ہیں بعض وہ جن کا مطلب عقل وفہم سے وراہے جس تک دماغوں کی رسائی نہیں انہیں ”متشابہات”کہتے ہیں۔ا ن میں سے بعض تو وہ ہیں جن کے معنی ہی سمجھ میں نہیں آتے جیسے المۤ،حٰمۤ،الرٰ،وغیرہ انہیں ”مقطعات” کہا جاتاہے۔ بعض وہ آیا ت ہیں جن کے معنی تو سمجھ میں آتے ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا مطلب کیا ہے کیونکہ ظاہری معنی بنتے نہیں جیسے
فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ؕ تم جد ھر منہ کر و ادھر اللہ کا وجہ (منہ) ہے۔ (پ۱،البقرۃ:۱۱۵)
یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیۡدِیۡہِمْ ۚ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔ (پ۲۶،الفتح:۱۰)
ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۟ پھر رب نے عرش پر استوا فرمایا۔(پ۸،الاعراف:۵۴)
”وجہ” کے معنی چہر ہ ۔”ید” کے معنی ہاتھ ۔ ”استوا ”کے معنی برابر ہونا ہے مگر یہ چیز یں رب کی شان کے لائق نہیں ؛لہٰذا متشابہات میں سے ہیں اس قسم کی آیتوں پر ایمان لانا ضروری ہے مطلب بیان کرنا درست نہیں اور دو سری قسم کی آیات کو ”آیات صفات ”کہتے ہیں ۔
بعض آیات وہ ہیں جو اس درجہ کی مخفی نہیں۔انہیں قرآنی اصطلاح میں ”محکمات ”کہتے ہیں ۔ قرآن کریم فرماتا ہے :
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللہُ
رب وہ ہے جس نے آپ پر کتا ب اتاری اس کی کچھ آیات صفات معنی آرائی ہیں وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے وہ لو گ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں گمراہی چاہنے اور اس کے معنی ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ (پ3،آل عمرٰن:7)
ان محکمات میں بعض آیات وہ ہیں جن کے معنی بالکل صاف وصریح ہیں۔ جن کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی جیسے قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾ الخ ۔ فرمادو وہ اللہ ایک ہے ۔ انہیں نصوص قطعیہ کہا جاتا ہے ۔اور بعض آیات وہ ہیں جن میں نہ تو متشابہات کی سی پوشیدگی ہے کہ ذہن کی رسائی وہاں تک نہ ہوسکے نہ نصوص قطعیہ کی طر ح ظہور ہے کہ تامل کرنا ہی نہ پڑے ۔ اس قسم کی آیتو ں میں تفسیر کی ضرورت ہے بغیر تفسیر کے صرف ترجمہ کبھی ہلاکت کا با عث ہوتا ہے ۔
اس تفسیر کی چار صورتیں ہیں ۔” تفسیر قرآن بالقرآن” کیونکہ خود قرآن بھی اپنی تفسیر کرتا ہے ۔ پھر” تفسیر قرآن بالحدیث” کیونکہ قرآن کو جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھا دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ پھر” تفسیر قرآن بالاجماع” یعنی علماء کا جس مطلب پر اتفاق ہوا وہی درست ہے۔پھر”تفسیرقرآن باقوال مجتہدین”ان تمام تفسیروں میں پہلی قسم کی تفسیر بہت مقدم ہے کیونکہ جب خود کلام فرمانے والا رب تعالیٰ ہی اپنے کلام کی تفسیر فرمادے تو اور طرف جانا ہرگز درست نہیں ۔ اگر پچا س آیتو ں میں
ایک مضمون کچھ اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہو اور ایک آیت میں اس کی تفصیل کردی گئی ہو تو یہ آیت ان پچاس آیتو ں کی تفسیر ہوگی اور ان پچاس کا وہی مطلب ہوگا جو اس آیت نے بیان کیا ۔ مثال سمجھو رب تعالیٰ نے بہت جگہ اہل کتاب کو مخاطب فرمایا ہے یا ان کا ذکر کیا ہے ۔
قُلْ یٰۤاَہۡلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۭ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ
فرمادو کہ اے کتاب والو آؤ ایسے کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کو نہ پوجیں۔ (پ3،آل عمرٰن:64)
اہل کتاب کا ذکر بہت جگہ ہے مگر پتا یہ نہ لگتا تھا کہ کتاب سے کونسی کتاب مراد ہے اور اہل کتاب کون لوگ ہیں کیونکہ قرآن کو بھی کتاب کہا گیا ہے اور باقی تمام انسانی اور رحمانی کتابوں کو بھی کتاب کہتے ہیں ۔ہم نے قرآن سے اس کی تفسیر پوچھی تو خود قرآن نے فرمایا :
الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ مِنۡ قَبْلِکُمْ
وہ لوگ جوتم سے پہلے کتاب دیئے گئے (پ4،اٰل عمرٰن:186)
اس آیت نے ان تمام آیتو ں کی تفسیر فرمادی او ربتادیا کہ اہل کتاب نہ ہندو ، سکھ ہیں کہ ان کے پاس آسمانی کتاب ہی نہیں۔ نہ مسلمان مراد ہیں کیونکہ اس کتاب سے پہلی آسمانی کتابیں مراد ہیں صرف عیسائی،یہودی یعنی انجیل وتوریت کے ماننے والے مراد ہیں اسی طر ح قرآن شریف نے جگہ جگہ صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔
وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسْتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ
یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو۔ (پ8،الانعام:153)
مگر ان آیات میں نہ بتایا کہ سیدھا راستہ کونسا ہے ہم نے قرآن سے پوچھا تو اس نے اس کی تفسیر کی ہے ۔
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ
ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت دے ۔ ان لوگو ں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔(پ1،الفاتحۃ:5۔6)
اس آیت نے بتایا کہ قرآن میں جہاں کہیں سیدھا راستہ بولاگیا ہے اس سے وہ دین اور وہ مذہب مراد ہے جو اولیاء اللہ، علماء دین،صالحین کا مذہب ہو یعنی مذہب اہل سنت، نئے دین ومذہب ٹیڑھے راستہ ہیں اگر چہ اس مذہب کے بانی سارا قرآن ہی پڑھ کر ثابت کریں کہ یہ مذہب سچا ہے جیسے قادیانی ، دیوبندی ، شیعہ وغیرہ ، اسی طرح قرآن شریف نے جگہ جگہ غیر اللہ کو پکارنے سے منع فرمایا اور پکارنے والے پر کفر و شرک کا فتوی دے دیا ۔
وَلَا تَدْعُ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَایَنۡفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ ۚ فَاِنۡ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۰۶﴾ اورخدا کے سوا کسی ایسے کو نہ پکارو جو نہ تمہیں نفع دے او رنہ نقصان پھر اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں میں سے ہوگے ۔(پ۱۱،یونس:۱۰۶)
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اس سے بڑھ کر گمراہ کو ن ہے جو غیر خدا کو پکارتے ہیں۔ (پ۲۶،الاحقاف:۵)
وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ اورغائب ہوگئے ان سے وہ جنہی پہلے یہ پکارتے تھے۔(پ۲۵،حٰمۤ السجدۃ:۴۸)
وَالَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مَا یَمْلِکُوۡنَ مِنۡ قِطْمِیۡرٍ ﴿ؕ۱۳﴾ تم خدا کے سوا جسے پکارتے ہو وہ چھلکے کے بھی مالک نہیں۔(پ۲۲،فاطر:۱۳)
اس قسم کی بیسیوں آیات ہیں جن میں غیر خدا کو پکارنے سے منع فرمایا گیا بلکہ پکارنے والوں کو مشرک کہا گیا اگر ان آیتوں کو مطلق رکھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حاضر، غائب ، زندہ ، مردہ ، کسی کو نہ پکارو لیکن یہ معنی خودقرآن کی دو سری آیات کے بھی خلاف ہیں اور عقل کے بھی۔ خود قرآن کریم نے فرمایا : اُدْعُوْہُمْ لِاٰ بَآئِہِمْ انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارا کرو۔(پ۲۱،الاحزاب:۵)
وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْ اُخْرٰکُمْ اور رسول تم کو پچھلی جماعت میں پکارتے تھے۔(پ۴،اٰل عمران:۱۵۳) ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعْیًا ؕ اے ابراہیم پھر ان ذبح کئے ہوئے مردہ جانوروں کو پکارو وہ تم تک دوڑتے آئیں گے۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۰)
اس قسم کی بیسیوں آیتیں ہیں جن میں زندوں اور مردوں کے پکارنے کا ذکر ہے ۔ نیز ہم دن رات ایک دوسرے کو پکارتے ہیں ۔ نماز میں بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پکار کر سلام عرض کرتے ہیں ۔ ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ،” اے نبی تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔
لہٰذا ضرورت پڑی کہ ہم قرآن شریف سے ہی پوچھیں کہ ممانعت کی آیتو ں میں پکارنے سے کیا مراد ہے تو قرآن شریف نے اس کی تفسیر یوں فرمائی۔
وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ
رَبِّہ ٖؕ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ دو سرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کاحساب اس کے رب کے پاس ہوگا ۔(پ۱۸،المؤمنون:۱۱۷)
فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾ اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو ۔(پ۲۹،الجن:۱۸)
ان آیتوں نے بتایا کہ جن آیتوں میں غیرخدا کو پکارنے سے روکا گیا ہے وہاں اسے خدا سمجھ کر پکارنا یا اللہ کے ساتھ ملا کر پکارنا مراد ہے یعنی پوجنا ۔ لہٰذا ان آیتوں کی تفسیر سے تمام ممانعت کی آیتو ں کا یہ مطلب ہوگا ۔ اس تفسیر سے مطلب ایسا صاف ہوگیا کہ کسی قسم کا کوئی اعتراض پڑسکتا ہی نہیں۔ نیز فرماتا ہے :
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنۡ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوۡنَ ﴿۵﴾ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمْ اَعْدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیۡنَ ﴿۶﴾
اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا انہیں پکارے جو اس کی قیامت تک نہ سنے او رانہیں اسی کی پکار (پوجا) کی خبر تک نہیں او رجب لوگو ں کا حشر ہوگا تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کے منکرہوجائیں گے ۔(پ26،الاحقاف:5۔6)
اس آیت میں صاف طو رپر پکارنے کو عبادت فرمایا کہ قیامت میں یہ بت ان مشرکوں کی عبادت یعنی اس پکار کے منکر ہوجائیں گے معلوم ہوا کہ پکارنے سے وہی پکارنا مراد ہے جو عبادت ہے ،یعنی ”اِلٰہ” سمجھ کر پکارنا۔اس لئے عام مفسرین ممانعت کی آیات میں ”دعا” کے معنی ”پوجا” کرتے ہیں۔ جن وہابیوں نے ممانعت کی آیتو ں میں دعا کے معنی پکار کئے اور پھر بات بنانے کے لئے اپنے گھر سے قیدیں لگائیں کہ پکارنے سے مراد ہے دور سے پکارنا، مافوق الاسباب پکارسننے کے عقیدے
سے پکارنایا مردوں کو پکارنا بالکل غلط ہے۔ اولاً تو اس لئے کہ یہ قیدیں قرآن نے کہیں نہیں لگائیں ۔ دو سرے اس لئے کہ یہ تفسیر خود قرآنی تفسیر کے خلاف ہے ۔ تیسرے اس لئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام صحابہ عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مردہ کو بھی پکارا ہے اور دور سے سینکڑو ں میل سے پکارا ہے اور وہ پکار سنی گئی ہے جیسا کہ باب مسائل قرآنیہ میں بیان ہوگا ۔لہٰذا یہ تفسیر باطل ہے ۔
تفسیر قرآن بالقرآن کی اور مثال سمجھو کہ رب تعالیٰ نے جگہ جگہ خداکے سوا کو ولی ماننے سے منع فرمایا بلکہ فرمایا کہ جو کوئی غیر خدا کو ولی بنائے وہ گمراہ ہے، کافر ہے، مشرک ہے۔ فرماتا ہے :
وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾ تمہارا خدا کے سوا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مدد گار۔(پ۲۰،العنکبوت:۲۲)
مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۘ
ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور ولی بنائے مکڑی کی سی ہے جس نے جالا بنا اور بے شک سب گھر و ں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے ۔(پ20،العنکبوت:41)
پھر فرماتا ہے :
اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا
تو کیا سمجھ رکھا ہے ان کافروں نے جنہوں نے میرے بندوں کو میرے سوا ولی بنایا ہم نے کافر وں کیلئے آگ تیار کی ہوئی ہے۔﴿102﴾ (پ16،الکہف:102)
اس قسم کی بے شمار آیتیں ہیں ولی کے معنی دوست بھی ہیں اور مدد گار بھی، مالک بھی وغیرہ ۔ اگر ان آیات میں ولی کے معنی مدد گار کئے جائیں او رکہا جائے کہ جو خدا کے سوا کسی کو مدد گار سمجھے وہ مشرک او رکافر ہے تو نقل وعقل دونوں کے خلاف ہے نقل کے تو اس لئے کہ خود قرآن میں اللہ کے بندوں کے مدد گار ہونے کا ذکر ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
خدا وند اہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی ولی اور مدد گار مقرر فرمادے ۔(پ5،النسآء:75)
فرماتا ہے :
فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾
پس اپنے نبی کا مدد گار اللہ اور جبریل اورنیک مسلمان اوراس کے بعد فرشتے مدد گار ہیں ۔(پ28،التحریم:4)
فرماتا ہے :
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾
تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ مومن بندے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع کرتے ہیں ۔ (پ6،المائدۃ:55)
فرماتا ہے :
وَالْمُؤْمِنُوۡنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ۘ
مومن مرد او رمومن عورتیں ان کے بعض بعض کے ولی ہیں۔(پ10،التوبۃ:71)
اس قسم کی بہت آیات ملیں گی۔
عقل کے خلاف اس لئے ہے کہ دنیا ودین کا قیام ایک دو سرے کی مدد پرہی ہے ، اگرامداد باہمی بند ہوجائے تو نہ دنیاآباد رہے نہ دین ۔ پھر ایسی ضروری چیز کو رب شرک کیسے فرماسکتاہے ۔ آؤ اب اس ممانعت کی تفسیر قرآن کریم سے پوچھیں،جب قرآن کریم کی تحقیق کی تو پتالگا کہ کسی کو ولی ماننا چار طر ح کا ہے جن میں سے تین قسم کا ولی ماننا تو کفر وشر ک ہے او رچوتھی قسم کا ولی ماننا عین ایمان ہے ۔
(۱)رب تعالیٰ کو کمزور جان کر کسی او رکو مدد گار ماننا یعنی رب ہماری مدد نہیں کرسکتا ہے لہٰذا فلاں مدد گار ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وَ لَمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪
اور نہیں ہے اللہ کا کوئی ولی کمزوری کی بنا پر اور اس کی بڑائی بولو۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:111)
(۲) خدا کے مقابل کسی کو مدد گار جاننا یعنی رب تعالیٰ عذاب دینا چاہے او ر ولی بچالے ۔ فرماتا ہے :
اُولٰٓئِکَ لَمْ یَکُوۡنُوۡا مُعْجِزِیۡنَ فِی الۡاَرْضِ وَمَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ۘ
یہ کفار خدا کو عاجز نہیں کرسکتے زمین میں اور نہ کوئی خدا کے مقابل ان کاولی مدد گار ہے ۔(پ12،ہود:20)
رب تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابٍ مُّقِیۡمٍ ﴿۴۵﴾
خبردار ! کفار ہمیشہ کے عذاب میں ہیں۔(پ25،الشورٰی:45)
رب تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنْ اَوْلِیَآءَ یَنۡصُرُوۡنَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ
اور ان کا کوئی ولی نہ ہوگا جو اللہ کے مقابل ان کی مدد کرے ۔(پ25،الشوری:46)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
قُلْ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعْصِمُکُمۡ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِکُمْ سُوۡٓءًا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ رَحْمَۃً ؕ وَلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷﴾
فرمادو ! کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے اگر وہ تمہارا برا چاہے یا تم پر مہر فرمانا چاہے اور وہ اللہ کے مقابل کوئی ولی نہ پائیں گے اور نہ کوئی مددگار ۔(پ21،الاحزاب:17)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَنۡ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾
اور جس پر خدا لعنت کردے اس کا مددگار کوئی نہیں ۔(پ5،النسآء:52)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ ؕ
جسے اللہ گمراہ کردے اس کے بعد اس کا کوئی ولی نہیں۔(پ25،الشوری:44)
ان آیات میں خدا کے مقابل ولی،مدد گا رکا انکار کیا گیا ہے ان کے علاوہ اور بہت سی ایسی ہی آیات ہیں جن میں ولی کے یہ معنی ہیں۔
(۳) کسی کو مدد گار سمجھ کر پوجنا یعنی ولی بمعنی معبود۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ
اور جنہوں نے رب کے سوا اور ولی بنائے کہتے ہیں ہم تو انہیں نہیں پوجتے مگر اس لئے کہ ہمیں وہ اللہ سے قریب کردیں ۔(پ23،الزمر:3)
وَالَّذِیۡنَ لَا یَدْعُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ
اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی دو سرے معبود کو نہیں پکارتے ۔(پ19،الفرقان:68)
اس آیت میں ولی بمعنی معبود ہے اس لئے اس کے ساتھ عبادت کا ذکر ہے۔ یہ تین طر ح کا ولی ماننا کفر و شرک ہے اور ایسا ولی ماننے والا مشرک ومرتد ہے چوتھی قسم کا ولی وہ کہ کسی کو اللہ کا بندہ سمجھ کر اللہ کے حکم سے اسے مدد گار مانا جائے اور اس کی مدد کو رب تعالیٰ کی مدد کا مظہرسمجھا جاوے یہ بالکل حق ہے جس کی آیات ابھی ابھی گزرچکیں۔
ان آیات نے تفسیر کر دی کہ ممانعت کی آیات میں پہلی تین قسم کے ولی مراد ہیں او رثبوت اولیاء کی آیات میں چوتھی قسم کے ولی مراد ہیں ۔ سبحان اللہ ! اس قرآنی تفسیر سے کوئی اعتراض باقی نہ رہا لیکن وہابی جب اس تفسیر سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو اب ولی میں قید لگاتے ہیں کہ مافوق الاسباب کسی کو مدد گار ماننا شرک ہے یہ تفسیر نہایت غلط ہے اولا تواس لئے کہ ما فوق الا سباب کی قیدان کے گھر سے لگی ہے ۔ قرآن میں نہیں ہے دو سرے اس لیے کہ یہ تفسیر قرآن کے خلاف ہے جو ہم نے عرض کی تیسرے یہ کہ اللہ کے بندے مافوق الاسباب مدد کرتے ہیں ۔ جس کی آیات باب مسائل قرآنیہ میں عرض ہوں گی غرضیکہ یہ تفسیر باطل ہے اور قرآنی تفسیر بالکل صحیح ہے یہ تفسیر قرآن بالقرآن کی چند مثالیں عرض کیں ۔
تفسیر قرآن بالحدیث کی بہت سی مثالیں ہیں ۔رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡا مَعَ الرَّاکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾
نمازقائم کروزکوۃدواوررکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(پ1،البقرۃ:43)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ
اے ایمان والو! تم پر رو زے فر ض کئے گئے جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے ۔(پ2،البقرۃ:183)
رب تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ
لوگوں پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج ہے جو وہاں تک پہنچنے کی طا قت رکھتا ہو.(پ4،اٰل عمرٰن:97)
اس کے علاوہ تمام احکام کی آیتیں تفصیل اور تفسیر چاہتی ہیں مگر قرآن کریم نے ان کی نہ مکمل تفسیر فرمائی نہ تفصیل۔ نماز کے اوقات ، رکعات کی تعداد ، زکوۃ کے نصاب اورخودزکوۃ کی تعداداورشرائط، رو زے کے فرائض وممنوعات،حج کے شرائط وارکان تفصیلاًنہ بتائے،ان آیات میں ہم حدیث کے محتاج ہوئے اور تمام تفاصیل وہاں سے معلوم کیں غرضیکہ تفصیل طلب آیات میں بغیر تفسیر کے ترجمہ بے فائدہ بلکہ خطرناک ہے اور تفسیر محض اپنی رائے سے نہیں ہوسکتی ہم اپنی اس کتاب میں ترجمہ کرنے کے قواعد ، بعض ضروری قرآنی مسائل اور قرآن کریم کی کچھ ضروری اصطلاحیں بیان کریں گے مگر ہر چیز کی تفسیر خود قرآن شریف سے پیش کریں گے اگرتا ئید میں کوئی حدیث بھی پیش کی جاوے تو اسے بھی قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے گا کیونکہ آج کل اس طرزاستدلال کو مسلمان بہت پسند کرتے ہیں اور اس سے زیادہ مانوس ہیں ضرورت زمانہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اس پر قلم اٹھایا گیا ہے ۔