islam
منگنی کے بعد لڑکے لڑکی کامیل جول کیسا؟
منگنی کے بعد لڑکے لڑکی کامیل جول کیسا؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل علمِ دین سے دوری اور دینی بے راہ روی کی بناء پر لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ منگنی ہوجانے کے بعد لڑکے اور لڑکی کیلئے ایک دوسرے کو دیکھنے ، ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور میل جول رکھنے کے معاملے میں شَرْعی رُکاوٹیں ختم ہوجاتی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے منگنی ہوجانے کے بعد بھی جب تک نکاح نہیں ہوجاتا وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے بالکل اسی طرح اجنبی اور نامَحْرَم ہیں جیسے منگنی سے پہلے تھے لہٰذا نکاح ہونے کے بعد ہی اُن دونوں کیلئے ایک دوسرے سے بے حجابی و گفتگو وغیرہ جائز ہوگی ، جب تک نکاح نہیں ہوجاتا یہ دونوں میاں بیوی نہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے والدین ان کیلئے سُسر و ساس ہیں ۔ منگنی کے باوُجُود اُنہیں آپس میں بھی پردہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے والدین سے بھی شَرْعی پردے کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے مُعاشَرے میں منگنی کی آڑ میں پردے سے متعلِّق شَرْعی احکامات کو پہلے سے بڑھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے ایک دوسرے کو نہ صرف آزادانہ دیکھتے ہیں
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بلکہ بات چیت ، ہنسی مذاق اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہا گھومنے پھرنے وغیرہ کے سلسلے زور و شور سے شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ ناجائز و حرام اور جہنّم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ بعض لوگ جو مُعاشَرے میں شریف سمجھے جاتے ہیں اور گھریلو یا خاندانی رکھ رکھاؤ کی وجہ سے منگنی کے بعد اپنے لڑکے یا لڑکی کا منگیتر کے ساتھ گھومنا پھرنا ، ہنسی مذاق کرنا یا آزادانہ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے وہ اپنے طور پر ایک مہذب انداز اختیار کرتے ہیں مگر وہ انداز بھی سراسر غلط اور خِلافِ شرع ہے ، ہوتا یہ ہے کہ لڑکے کے ماں باپ لڑکی کو تنہا یا اُس کی بہن کے ساتھ اپنے گھر لے جاتے ہیں ، گھر پر دعوت وغیرہ کا اِہْتِمام ہوتا ہے اور پھر لڑکی کو واپس گھر چھوڑنے منگیتر ہی جاتا ہے ، راستے میں کسی دُکان پر مَشْروبات یا آئسکریم وغیرہ کا اِہْتِمام ہوتا ہے ۔ غارت ہو اِن فلموں ڈراموں کا کہ جن کی وجہ سے مسلمان اسلامی تہذیب سے دُور ہوکر فرنگی تہذیب کے دِلدادہ ہوئے جارہے ہیں کہ اگرلڑکی کی بہن ساتھ ہوتی بھی ہے تو وہ اِس دوران تھوڑی دیر کیلئے ڈرامائی انداز میں کار سے باہر نکل جاتی ہے تاکہ کسی طرح ان دونوں کو تنہائی میں کچھ وقت گُزارنے کا موقع مِل جائے۔ اس طرح کی تنہائی یقیناً بات چیت کے ذریعے باہمی اجنبیت دور کرنے اور ایک دوسرے سے بےتکلف ہونے کیلئے اختیار کی جاتی ہے ، یہ بھی شرعاً دُرست نہیں ۔