Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

حکم ، گواہی ، ملکیت وکالت کے معانی اور ان کی پہچان

     الف: حکم ، گواہی ، وکالت ، حساب لینا ، مالک ہونا ۔ ان چیز وں کو جہاں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے وہاں حقیقی ، دائمی ، مستقل مراد ہوگا مثلا کہا جاوے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے یا خدا کے سواء کسی کو وکیل نہ بناؤ تو مراد حقیقی دائمی مالک و مستقل وکیل ہے ۔
     ب: جب ان چیز وں کو بندوں کی طرف نسبت کیا جاوے تو ان سے مراد عارضی ، عطائی ،مجازی ہوں گے ۔
” الف” کی مثال یہ ہے :
(1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ
نہیں ہے حکم مگر اللہ تعالیٰ کا ۔(پ7،الانعام:57)
(2) وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًا ﴿۷۹﴾
او راللہ ہی کافی گواہ ہے۔(پ5،النسآء:79)
(3)  اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾
میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(4) وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیۡلًا ﴿۶۵﴾
آپ کا رب کافی وکیل ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65)
(5) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیۡہِمْ وَکِیۡلًا ﴿۵۴﴾
ہم نے آپ کو ان کافروں پر وکیل بناکر نہ بھیجا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:54)
(6) ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿۱۰۷﴾
آپ ان کافروں پر وکیل نہیں ۔(پ7،الانعام:107)
(7) وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾
اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔(پ4،النسآء:6)
(8) وَلِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ
صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں وہ چیزیں جو آسمانوں او رزمین میں ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:129)
(9)  فَاتَّخِذْہُ وَکِیۡلًا ﴿۹﴾
پس اللہ تعالیٰ ہی کو وکیل بناؤ۔(پ29،المزمل:9)
    ان جیسی ساری آیتو ں میں حقیقی مالک ،حقیقی وکیل، حقیقی گواہ ، حقیقی حساب لینے والا مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی حاکم نہیں، کوئی حقیقی مالک ، حقیقی وکیل، حقیقی گواہ نہیں جیسے کہ سکندر نامے میں ہے ؎
پناہ بلندی و پستی توئی
ہمہ نیست اند، آنچہ ہستی توئی
”ب” کی مثال ان آیا ت میں ہے :
(1) وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابْعَثُوۡا حَکَمًا مِّنْ اَہۡلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہۡلِہَا
اور اگر تم خاوند وبیوی کی مخالفت کا اندیشہ کرو تو ایک حکم پنچ خاوند والوں کی طر ف سے اور دوسرا حکم پنچ عورت والوں کی طر ف سے بھیجو۔(پ5،النسآء:35)
(2)  وَ اِذَا حَکَمْتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحْکُمُوۡا بِالْعَدْلِ
اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت (فیصلہ) کرو تو انصاف سے کرو ۔(پ5،النسآء:58)
(3) فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ
پس آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ آپ کو اپنے اختلافا ت میں حاکم مان لیں ۔(پ۵،النسآء:۶۵)
(4) وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کامقدمہ لے جاؤ۔(پ1،البقرۃ:188)
(5) وَّ اَشْہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدْلٍ مِّنۡکُمْ
اور اپنے میں سے دو پر ہیز گاروں کو گواہ بناؤ ۔(پ28،الطلاق:2)
(6) کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴﴾
آج تو اپنے پر خود ہی کافی حساب لینے والا ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:14)
(7) وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُکُمْ
اور حرام ہیں تم پر شوہر والی عورتیں سواء ان کے جن کے تم مالک ہو۔(پ5،النسآء:24)
(8)  وَاسْتَشْہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمْ
اور اپنے مردو ں میں سے دوگواہ بنالو۔(پ3،البقرۃ:282)
(9) شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیۡنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنۡکُمْ
تمہاری آپس کی گواہی جب تم میں سے کسی کو موت آوے وصیت کرتے وقت تو تم میں سے دو معتبر شخص ہیں۔(پ7،المآئدۃ:106)
    ان جیسی تما م آیتوں میں عارضی ، غیر مستقل ، عطائی ملکیت ،گواہی ، وکالت ، حکومت، حساب لینا ، بندوں کے لئے ثابت کیا گیا ہے یعنی اللہ کے بندے مجازی طور پر حاکم ہیں، وکیل ہیں،گواہ ہیں لہٰذا آیات میں تعارض نہیں ، جیسے سمیع ، بصیر ، حی وغیرہ اللہ کی صفتیں ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّہ، ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ اللہ تعالیٰ ہی سننے والا دیکھنے والا ہے (پ۱۵، بنیۤ اسراء یل:۱)او ر بندوں کی بھی صفتیں یہ ہیں ۔ فرماتا ہے: فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾ ہم نے انسان کو سننے والا ، دیکھنے والا بنادیا ، اللہ کا سننا، دیکھنا(پ۲۹،الدھر:۲) ۔دائمی، غیر محدود ، مستقل ،ذاتی ہے اور بندوں کا دیکھنا، سننا ، زندہ ہونا ۔ عارضی ، محدو د ، عطائی ، غیر مستقل ہے ۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کانام بھی ”علی” ہے۔ وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (پ۳،البقرۃ:۲۵۵) اور حضرت علی مرتضی کانام علی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے”مولنا’ ‘اَنْتَ مَوْلٰنـَا (پ۳،البقرۃ:۲۸۶) اور عالموں کو مولانا صاحب کہا جاتا ہے مگر اللہ کا علی یامولیٰ ہونا اور طر ح کا ہے اور بندوں کا علی او ر مولیٰ ہونا کچھ اور قسم کا یہ فر ق ضروری ہے ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!