islam
آتش بازی کا رَواج
آتش بازی کا رَواج
شادی بیاہ کی رُسُومات میں سے ایک بہت ہی بری اور خطرناک رَسْم “ آتش بازی “ ہے۔ جس طریقے سے آج کل آتش بازی رائج ہے اس میں کئی طرح کی بُرائیاں اور قباحتیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں مال کا ضِیاع اور اِسْراف ہوتا ہے جو کہ ناجائز و حرام ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین و مِلّت ، پروانۂ شمعِ رسالت ، مولانا شاہ احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فتاویٰ رضویہ میں آتش بازی کے متعلِّق پوچھے گئے
سوال کے جواب میں اِرْشادفرماتے ہیں : آتشبازی جس طرح شادیوں اور شبِ براءت میں رائج ہے ، بےشک حرام اور پورا جُرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال (یعنی مال کو ضائع کرنا) ہے۔ قرآنِ مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی فرمایا :
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)
(پ : ۱۵ ، بنی اسرائیل : ۲۶-۲۷)
تَرْجَمَۂ کنز العرفان : اور فضول خرچی نہ کرو بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑا ناشکرا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
شیخِ محقق مولانا عبدُ الحق محدِّث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : بُری بِدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں مُتعارَف اور رائج ہیں جیسے آگ کے ساتھ کھیلنا اور تماشا کرنے کیلئے جمع ہونا اور گندھک جلانا (آتش بازی کرنا) وغیرہ۔ (1)
دوسری قباحت آتش بازی میں یہ ہے کہ اس کے ساتھ عام طور پر فائرنگ بھی کی جاتی ہے جو کہ قانونی طور پر بھی منع ہے اور اس کی وجہ سے بعض اوقات لوگوں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں ۔ یاد رکھئے! کسی مسلمان کے جان و مال یا عزّت کو نقصان پہنچانا حرام و گُناہ ہے جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے : کُلُّ الْمُسْلِـمِ عَلَی الْمُسْلِـمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ یعنی ہر مسلمان کا خون ، مال اور عزّت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ (2)
تیسری خرابی آتش بازی میں یہ ہے کہ اس سے عام مسلمانوں بالخصوص آس پاس کے گھروں میں موجود بچّوں ، بوڑھوں ، بیماروں اور کمزور دل مَردوں اور عورتوں کو سخت تکلیف پہنچتی ہے اور مسلمانوں کو ایذاء پہنچانا حرام ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : مَنْ اٰذٰى مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِيْ وَمَنْ اٰذَانِيْ فَقَدْ اٰذَى اللهَ عَزَّ وَ جَلَّیعنی جس نے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائی یقیناً اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، بے شک اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو تکلیف پہنچائی۔ (1)
________________________________
1 – فتاویٰ رضویہ ، ۲۳ / ٢۲۷۹ تا ٢۲۸۰٠ ملتقطا
2 – مسلم ، کتاب البـر والصلة ، باب تـحریم ظلم الـمسلم الخ ، ص ۱۰۶۴ ، حـدیث : ۶۵۴۱
1 – معجم صغیر ، جزء : ۱ ، ۱ / ۱۶۹ ، حـدیث : ۴۶۹