islam
کیوں لکھا؟ اور کیا لکھا؟
ربیع الاول ۱۴۰۰ ھ میں چند مقتدر علماء اہل سنت نے اپنی خواہش بصورت فرمائش ظاہر فرمائی کہ میں قرآن مجید کا ایک ترجمہ سلیس اور عام فہم زبان میں لکھ دوں، اس وقت پہلی بار مجھ پر فالج کا حملہ ہوچکا تھا۔ میں نے جواب میں ان حضرات سے اپنی ضعیفی اور بیماری کا عذر کر کے اس کام سے معافی طلب کرلی۔ اور عرض کردیا کہ اگر چند سال قبل آپ لوگوں نے اس طرف توجہ دلائی ہوتی تو میں ضرور یہ کام شروع کردیتا مگر اب جب کہ ضعیفی کے ساتھ مرض فالج نے میری توانائیوں کو بالکل مضمحل کردیا ہے، اتنا بڑا کام میرے بس کی بات نہیں۔ پھر بعض عزیزوں نے کہا کہ اگر پورے قرآن مجید کا ترجمہ آپ نہیں لکھتے تو ”نوادر الحدیث” کی طرح قرآن مجید کی چند آیتوں ہی کا ترجمہ اور تفسیر لکھ کر آیتوں کی مناسب تشریح کردیتے تو بہت اچھا اور بے حد مفید علمی کام ہوجاتا۔
یہ کام میرے نزدیک بہت سہل تھا۔ چنانچہ میں نے توکلاً علی اللہ اس کام کو شروع کردیا۔ مگر ابھی تقریباً ایک سو صفحات کا مسودہ لکھنے پایا تھا کہ ناگہاں ۱۳ دسمبر ۱۹۸۱ کو رات میں سوتے ہوئے فالج کا دوسری مرتبہ حملہ ہوا۔ اور بایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں اس طرح مفلوج ہو گئے کہ ان میں حس و حرکت ہی باقی نہ رہی۔ فوراً ہی بذریعہ جیپ براؤن شریف سے دو طالب علموں کی مدد سے اپنے مکان پر گھوسی آگیااور دو ماہ پلنگ پر پڑا رہا۔ مگرالحمدللہ! کہ بہت جلد خداوند کریم کا فضل عظیم ہو گیا کہ ہاتھ پاؤں میں حس و حرکت پیدا ہو گئی اور تین ماہ کے بعد میں کھڑا ہونے لگا اور رفتہ رفتہ بحمدہ تعالیٰ اس قابل ہو گیا کہ جمعہ و جماعت کے لئے مسجد تک جانے لگا۔ چنانچہ وہ مسودہ جو ناتمام رہ گیا تھا، اب بحالت مرض اس کو مکمل کر کے ”عجائب القرآن”کے نام سے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اس مجموعہ میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں سے چن کر پینسٹھ ان عجیب عجیب چیزوں اور تعجب خیز و حیرت انگیز واقعات کو جن کا قرآن مجید میں مختصر تذکرہ ہے، نقل کر کے ان کی مناسب تفصیل و توضیح تحریر کردی ہے اور ان واقعات کے دامنوں میں جو عبرتیں اور نصیحتیں چھپی ہوئی ہیں، ان کو بھی ”درسِ ہدایت”کے عنوان سے پیش کردیا ہے۔
دعا ہے کہ خداوند کریم میری دوسری تصنیفات کی طرح اس انیسویں کتاب کو بھی مقبولیت دارین کی کرامتوں سے سرفراز فرما کر نافع الخلائق بنائے اور اس خدمت کو میرے اور میرے والدین نیز میرے اساتذہ و تلامذہ و مریدین و احباب کے لئے زاد ِ آخرت و ذریعہ مغفرت بنائے اور میرے نواسہ مولوی فیض الحق صاحب سلمہ المولیٰ تعالیٰ کو عالم باعمل بنائے۔ اور ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ اس کتاب کی تدوین و تبییض اور طباعت وغیرہ میں میرے دست وبازو بنے رہے۔ (آمین)
یہ کتاب اس حال میں تحریر کررہا ہوں کہ کمزوری و نقاہت سے چلنا پھرنا دشوار ہو رہا ہے۔ مگر الحمدللہ کہ داہنا ہاتھ کام کررہا ہے اور دل و دماغ بالکل درست ہیں۔ علاج کا سلسلہ جاری ہے۔
قارئین و ناظرین کرام دعا فرمائیں کہ مولیٰ تعالیٰ مجھے جلد شفایاب فرمائے تاکہ میں آخرِ حیات تک درسِ حدیث و دینی تصانیف و مواعظ کا سلسلہ جاری رکھ سکوں۔
وماذلک علی اللہ بعزیز وھو حسبی ونعم الوکیل والحمدللہ رب العٰلمین وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ وصحبہ اجمعین۔
عبدالمصطفی الاعظمی عفی عنہ