islam
(۴۳) اچھے اخلاق
دونوں جہان میں مسلمان کی نیک نامی کا بہترین سامان اس کے اچھے اخلا ق ہیں اچھے اخلاق والا دنیا میں جس طرح ہر دل عزیز اور سب کا پیارا ہوتا ہے اسی طرح آخرت میں بھی وہ بڑے بڑے درجات و مراتب سے سرفراز ہو کر جنت کا مہمان بنتا ہے۔ اس عنوان پر چند حدیثوں سے ہم روشنی ڈال رہے ہیں۔
حدیث:۱
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھاکہ نیکی کیاہے؟اورگناہ کیاہے؟توارشادفرمایاکہ نیکی ”اچھے اخلاق”ہیں اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اورتواس کو براسمجھے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔(1) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۲۱)
حدیث:۲
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاہے کہ تم لوگوں میں سب سے زیادہ میرا محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔(2) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۳۱)
حدیث:۳
قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی سے مروی ہے،انہوں نے کہاکہ لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہاکہ یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سب سے بہترین چیز جوانسان کودی گئی ہے وہ کیاہے؟توحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”اچھے اخلاق ”۔(3)
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۳۱)
حدیث:۴
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ قیامت کے دن مؤمن کے میزان عمل میں سب سے زیادہ بھاری عمل ”اچھے اخلاق”ہوں گے اوراللہ تعالیٰ فحش کلامی کرنے والے بے حیاآدمی کوبہت ناپسند فرماتاہے۔ (1)(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۳۱)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حدیث:۵
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ میں نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ فرماتے سناہے کہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی بدولت اس مسلمان کے مر تبہ کو پالے گا جو رات بھر نماز میں کھڑا رہتا ہو اور دن بھر روزہ دار رہتا ہو۔(2)
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۳۲)
حدیث:۶
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے(نصیحت فرماتے ہوئے)مجھ سے یہ فرمایاکہ(۱) تم جہاں بھی رہو خدا سے ڈرتے رہو (۲) اورہربدی کے بعدکوئی نیکی کرلو تویہ نیکی اس بدی کومٹا دے گی(۳) اور تم لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے ملو۔ (3)(مشکوٰہ،ج۲،ص۴۳۲)
حدیث:۷
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کو خبر نہ دے دوں کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ میرا محبوب اور سب سے زیادہ میرا مقرب کون ہوگا؟وہ کہ تم لوگوں میں جس کا ”اخلاق ”سب سے زیادہ اچھا ہوگا۔(1) (کنز العمال،ج۲،ص۱۰)
حدیث:۸
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ(قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔(۱)جو تمہیں محروم کرے تم اس کو عطا کرواور (۲) جوتم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردواور (۳) جو تم سے قطع تعلق کرے تم اس سے ملاپ کرو۔(2) (کنز العمال،ج۴۰،ص۲۶۷)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حدیث:۹
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ سب سے زیادہ کون سی چیز لوگوں کوجنت میں داخل کرے گی؟ وہ یہ ہے:(۱) اللہ تعالیٰ سے ڈرنااور (۲) اچھے اخلاق۔ اور کیا تم لو گ جانتے ہو کہ کون سی چیز سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گی؟وہ یہ ہے:(۱) منہ اور (۲) شرم گاہ۔(3) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۱۲)
حدیث:۱۰
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ اچھے اخلاق کو لازم پکڑو کیونکہ یہ یقیناجنت میں جائے گا۔ (1)(کنز العمال،ج۲،ص۵)
تشریحات و فوائد
(۱) اس عنوان کی مذکورہ بالا دسوں حدیثوں کا حاصل یہی ہے کہ ”اخلاق حسنہ”جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں اوراچھے اخلاق والے مسلمان ”جنتی”ہیں اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے کو ”اخلاق حسنہ” اور اچھے اچھے اخلاق کے ساتھ آراستہ کرے اور ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا رہے ا ور واضح رہے کہ اخلا ق حسنہ اور اچھے اخلاق وہی ہیں جو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شریعت و سنت کے مطابق ہوں دنیا کے لوگ کسی عادت کو لاکھ پسند کریں لیکن اگروہ اخلاقِ نبوت کے خلاف ہے تو ہر گز وہ اچھے اخلاق میں شمار نہیں ہوگی اور اگر دنیا والے کسی عادت کو لاکھ برا سمجھیں لیکن اگر وہ اخلاقِ نبوت کے مطابق ہو تو یقینا وہ اخلاق حسنہ اور اچھے اخلاق میں شمار کی جائے گی کیونکہ ہر اچھائی اور برائی کا معیار شریعت مطہرہ اور سنت مبارکہ ہی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (۲)اس عنوان کی حدیث نمبر ۹ میں جو یہ آیا ہے کہ سب سے زیادہ جو چیز جہنم میں داخل کرے گی وہ دو چیزیں ہیں۔(۱)منہ (۲)شرم گاہ۔ظاہر بات ہے کہ ان دونوں اعضاء سے اکثر گناہ ہوتے ہیں مثلاً لقمہ حرام کھانا، کفر و شرک کی بولیاں، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا،جھوٹی گواہی،چغلی،بہتان،گالی گلوچ یہ سارے گناہ منہ سے ہوتے ہیں اسی طرح زنا کاری وغیرہ گناہوں کا سرچشمہ شرم گاہ ہی تو ہے۔
حدیث کا حاصل مطلب یہ ہے کہ مؤمن کو لازم ہے کہ اپنے ان دونوں اعضاء پر کنٹرول رکھے اور ہر وقت اِن کی حفاظت کرتا رہے کہ اِن دونوں سے کوئی گنا ہ نہ ہونے پائے ورنہ اگر ذرا بھی ان دونوں کی لگام ڈھیلی ہوگئی تو یہ دونوں اعضاء شریر گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑ کر تمہیں جہنم میں گرادیں گے۔
اگلے عنوان میں اس کی مزید تفصیل اور دوسری احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے زبان وشرم گاہ کی حفاظت کی اہمیت اور زیادہ ظاہر ہوجائے گی۔