islam
اقسام بدعت
چنانچہ حضرت علامہ عزالدین بن عبدالسلام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی ”کتاب القواعد”کے آخر میں تحریر فرمایا کہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں:
(۱) بدعت واجبہ :جس پر عمل کرنا ضروری ہے جیسے قرآن مجید کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے علم نحو سیکھنا اور اصول فقہ اور جرح و تعدیل کے قواعد کو مدون کرناتاکہ فقہ و حدیث کے سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔
(۲)بدعت محرمہ: جس پر عمل کرنا حرام و گناہ ہے،جیسے جبریہ، قدریہ، مرجیہ وغیرہ تمام بدمذہبوں اور بددینوں کے مذاہب۔
(۳) بدعتِ مستحبہ: جن پر عمل کرنا ثواب ہے اور چھوڑ دینا گناہ نہیں ، جیسے دینی مدارس اور مسافر خانوں کی تعمیرات ۔
(۴) بدعت مکروہہ:جیسے مسجدوں اور قرآن مجید کی جلدوں کو نقش و نگار سے مزین کرنا۔(1)
(۵) بدعت مباحہ:جیسے انواع و اقسام کے کھانے، پہننے، پینے کا سامان کرنا اور فجر وعصر کی نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا، مکانات بنوانا۔(1)
(حاشیہ مشکوٰۃ،ج۱،ص۲۷ بحوالہ مرقاۃ المفاتیح)
اسی طرح”بدعت ضلالت”کا بیان کرتے ہو ئے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریر فرمایا کہ وہ نئی چیز جو قرآن و حدیث یا اقوال و اعمال صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یااجماع امت کے مخالف ہو وہ ضلالت و گمراہی ہے اور جو اچھی اچھی نئی نئی چیزیں ان میں سے کسی کے مخالف نہ ہوں وہ مذموم اورگمراہی نہیں۔چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کے ساتھ تراویح کو ” نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ” فرمایا یعنی یہ اچھی بدعت ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ” مَا رَاٰہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنٌ ” یعنی تمام مسلمان جس چیز کو اچھی مان لیں وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”لَا یَجْتَمِعُ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَالَۃِ ” یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔(2)
(حاشیہ مشکوٰۃ،ج۱،ص۲۷)
اور حضرت علامہ عزالدین بن عبدالسلام و حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کے بیان کی تائید مزید اس حدیث مرفوع سے بھی ہوتی ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ”مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ ” (1)
(مشکوٰۃ،ج۱،ص۲۷)
یعنی جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالے جو دین میں سے نہ ہو وہ مردود ہے۔ اس حدیث سے صاف صاف ظاہر ہے کہ دین میں وہ نئی بات جو دین کے مخالف نہ ہو وہ ہر گز ہرگز مردود نہیں ہے۔
اس تقریر سے معلوم ہوا کہ مشکوۃ ج ۱ ص ۳۰ پر جو حدیث ہے کہ اِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ (2) (مشکوٰۃ،ج۱،ص۳۰)
یعنی تم لوگ اپنے کو دین میں نئے نئے کاموں سے بچائے رکھو کیونکہ ہر نئی نکالی ہوئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اس سے مُراد وہی بدعت ہے جو قرآن و حدیث یا اقوال و اعمالِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خلاف ہو ورنہ ظاہر ہے کہ ہر نئی نکالی ہوئی چیز گمراہی کیونکر ہوسکتی ہے؟ جب کہ اُوپر ذکر کی ہوئی حدیثوں میں صاف صاف تصریح موجود ہے کہ گمراہی وہی نئی نکالی ہوئی چیز ہوگی جو دین کے خلاف ہو اور اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اس سے ناراض ہوں اور جو نئی نئی باتیں دین کے خلاف نہیں ہیں وہ ہر گز ہرگز کبھی بھی مذموم اور گمراہی نہیں ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے جو مشکوۃ ج ۱ ص ۳۳ پر مذکور ہے کہ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِ سْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقُصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْءٌ (1) (مشکوٰۃ،ج۱،ص۳۳)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جو اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالے تو اس کے لئے اس کا ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس اچھے طریقے پر عمل کریں گے ان کے ثوابوں کا اجر بھی اس کو ملے گا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثوابوں میں کچھ کمی ہو اور جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ نکالے تو اس پر اس کا گناہ ہے اور تمام ان لوگوں کے گناہوں کا وبال بھی اس پر ہوگا جو اس کے بعد اس برے طریقے پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہوں میں سے کچھ کمی ہو۔
بہرحال یہ بات سورج کی طرح روشن ہوگئی کہ دین میں ہر نئی بات جو نکالی جائے وہ گمراہی نہیں ہے بلکہ وہی نئی چیز گمراہی ہوگی جو دین کے مخالف ہو ورنہ ظاہر ہے کہ ہر نئی چیز گمراہی کس طرح ہوسکتی ہے؟ حالانکہ زمانہ نبوت کے بعد سینکڑوں چیزیں اولیائے امت و علمائے ملت نے نئی نئی ایجاد کی ہیں جو ہر گز ہر گز مذموم نہیں بلکہ باعث اجرو ثواب ہیں۔ مثلاً قرآن مجید پر اعراب لگانا، قرآن مجید کو تیس پاروں میں تقسیم کرنا، قرآن میں اوقاف کی علامتوں کو لکھنا، رکوع کی نشانی تحریر کرنا، اسی طرح قرآن مجید کے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے نحوو صرف اور معانی و بیان نیز اصول فقہ و اصول حدیث کے قواعد و ضوابط کو مدون کرنا، ان فنون میں کتابیں تصنیف کرنا، ان کی تعلیم کے لئے مدارس قائم کرنا، نصاب مقرر کرنا، اسی طرح جمعہ و عیدین کے خطبوں میں خلفائے راشدین اور حضرت فاطمہ و حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے دونوں چچاؤں حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نام پڑھنا، مسجدوں کی عمارتوں کو پختہ اور عالی شان بنانا، مسجدوں پر مناروں اور مئذنہ کی تعمیرات وغیرہ اس قسم کی بہت سی نئی نئی چیزیں علمائے مِلت نے دین میں نکالی ہیں مگر چونکہ ان میں کوئی چیز بھی دین کے مخالف نہیں اس لئے ان چیزوں کو ہر گز ہرگز مذموم اور گمراہی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ سب بدعتِ حسنہ اور ثواب کے کام ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام کے معمولات مثلاً مُراقبات اورذکر کی ہیأات اور جلسات ، تسبیحات کا استعمال، ذکروں کی مقدار، حلقے اور ختم خواجگان ، میلاد شریف، مجالس وعظ، فاتحہ و اعراس اولیاء، مقابر پر گل پوشی وچادر پوشی، بلا شبہ یہ سب دین میں نئی نئی باتیں نکالی گئی ہیں، مگر چونکہ ان میں کوئی بھی قرآن مجید و حدیث یا اقوال و اعمال صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مخالف نہیں۔لہٰذا ہرگز ہرگز ان چیزوں کو مذموم اور گمراہی نہیں کہاجاسکتابلکہ یہ سب بدعت حسنہ اور سب ثواب کے کام ہیں۔ لہٰذا ازروئے حدیث جن لوگوں نے ان اچھی اچھی باتوں کو ایجاد کیا، ان کو ایجاد کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور قیامت تک جتنے لوگ ان باتوں پر عمل کرکے ثواب حاصل کرتے رہیں گے ان سب لوگوں کے ثوابوں کے برابر بھی ان کو ثواب ملتا رہے گا اور کسی کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یہ ہے ان حدیثوں کی تشریحات جو اہل حق کاطریقہ ہے۔خداوندکریم عزوجل سب کو اہل حق کے معمولات پر عمل کی توفیق عطافرمائے اوران لوگوں کوجوصرف ایک حدیث ”کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ”(1) پڑھ پڑھ کرمیلادشریف اورنیاز وفاتحہ کو حرام و گمراہی بتاتے ہیں انہیں اس حدیث کاصحیح مطلب سمجھنے اورحق کہنے اورحق پرعمل کرنے کی توفیق بخشے تاکہ یہ اُمت موجودہ دورکے افتراق اورجدال وشقاق کی بلاؤں سے محفوظ رہے۔(آمین)
ان تشریحات کے بعد اس عنوان کی چند حدیثیں بھی پڑھ لیجئے جو درج ذیل ہیں۔
حدیث:۲
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہاکہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ اے میرے پیارے بیٹے! اگرتویہ کرسکتاہے کہ تواس حال میں صبح وشام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی بدخواہی نہ ہوتوایساہی کر۔پھرفرمایاکہ اے میرے پیارے بیٹے!یہ میری سنت ہے اورجومیری سنت سے محبت کریگاوہ جنت میں میرے ساتھ رہے گا۔(1)(مشکوٰۃ،ج۱،ص۳۰)
حدیث:۳
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جو حلال غذا کھائے اور سنت پر عمل کرے اور تمام لوگ اس کی شرارتوں سے بے خوف ہوجائیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ یہ سنکر ایک آدمی نے کہا کہ یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اتنی بات تو آج بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ عنقریب میرے بعد بھی بہت زمانوں تک ایسا کرنے والے لوگ پائے جاتے رہیں گے۔ (2)(مشکوٰۃ،ج۱)
حدیث:۴
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی سوا ان لوگوں کے جو منکر ہوگئے۔ تو کسی نے کہا کہ منکر کون لوگ ہیں؟تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری فرمانبرداری کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی وہ منکر ہوگیا۔(1) (مشکوٰۃ،ج۱،ص۲۷)
حدیث:۵
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص میری امت میں فساد پھیل جانے کے وقت میری سنت پر عمل کریگا اس کو ایک سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔(2)
مطلب یہ ہے کہ ایسے زمانے میں جب کہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سنتوں سے بے پروائی کرتے ہوں یاسنت پرعمل کرنے والوں کامذاق اڑاتے ہوں اگر ایسے فتنہ وفساد کے زمانے میں کوئی مسلمان حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کر اس پر عمل کرتا رہے گا تو ایسے شخص کو ایک سو شہیدوں کا اجرو ثواب ملے گا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حدیث:۶
حضرت مالک بن اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مُرسل روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ میں نے تم لوگوں میں دو ایسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ جب تک تم لوگ ان دونوں پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرتے رہو گے ہرگز ہرگز تم گمراہ نہیں ہوگے۔ ایک خدا عزوجل کی کتاب(قرآن ) دوسری رسول خدا عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت (حدیثیں) (1)(مشکوٰۃ،ج۱،ص۳۰)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی اشعۃ اللمعات میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ”وبعض مکروہ مانند نقش ونگارکردن مساجد ومصاحف بقول بعض”یعنی بعض بدعات مکروہ ہیں جیسے بعض علماء کے نزدیک مسجدوں اور قرآن مجید کی جلدوں کی زیبائش وآرائش اور ان کا نقش ونگار۔ (اشعۃ اللمعات،کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ج۱،ص۱۳۵)
علامہ ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرماتے ہیں:”وإما مکروہۃ کزخرفۃ المساجد وتزویق المصاحف یعنی عند الشافعیۃ وأما عند الحنفیۃ فمباح” یعنی بدعت کبھی مکروہ ہوتی ہے جیسے مسجدوں کی زیبائش وآرائش اور قرآن مجیدکی جلدوں کا نقش ونگاراور یہ کراہت شوافع کے نزدیک ہے جبکہ احناف کے نزدیک ایساکرنا مباح ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب الایمان، تحت الحدیث۱۴۱،ج۱،ص۳۶۸) *
1۔۔۔۔۔۔حاشیۃ مشکاۃ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،ص۲۷ومرقاۃالمفاتیح، کتاب الایمان،تحت الحدیث:۱۴۱،ج۱،ص۳۶۸
2۔۔۔۔۔۔مرقاۃ المفاتیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،تحت الحدیث:۱۴۱، ج۱،ص۳۶۸
1۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الاقضیۃ،باب نقض الاحکام الباطلۃ…الخ،الحدیث:۱۷۱۸، ص۹۴۵
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام…الخ،الحدیث:۱۶۵،ج۱، ص۵۳
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب العلم،الفصل الاول،الحدیث:۲۱۰،ج۱،ص۶۱
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ،الحدیث:۸۶۷،ص۴۳۰
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام…الخ،الحدیث:۱۷۵،ج۱، ص۵۵
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،باب۶۰،الحدیث:۲۵۲۸،ج۴،ص۲۳۳
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاعتصام…الخ،باب الاقتداء بسنن…الخ،الحدیث۷۲۸۰، ج۴،ص۴۹۹
2۔۔۔۔۔۔مشکاۃ المصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام…الخ،الحدیث:۱۷۶،ج۱، ص۵۵
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔المؤطاء للامام مالک،کتاب القدر،باب النھی…الخ،الحدیث:۱۷۰۸،ج۲، ص۴۰۰
* درمختار میں ہے ” جاز تحلیۃ المصحف لما فیہ من تعظیمہ کما فی نقش المسجد ” یعنی قرآن مجید کو مزین کرنا جائز ہے کیونکہ اس میں قرآن مجید کی تعظیم ہے جیسا کہ مسجد کو منقش کرنا جائز ہے۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۳۶)واللہ تعالیٰ اعلم۔