islam
مفلس کون ؟
(1)۔۔۔۔۔۔اس بات کا ثبوت حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اس حديث پاک سے ہوتا ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے استفسار فرمايا :”کيا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی،”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ہم ميں مفلس وہ کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ کوئی مال ہو۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”ميری اُمت ميں مفلس وہ ہے جو قيامت کے دن نماز، زکوٰۃ اور روزے لے کر حاضر ہو گا اور اس نے اِس کو گالی دی ہو گی اور اِس کا مال چھينا ہو گا تو يہ اُس کی نيکيوں ميں سے کچھ نيکياں لے لے گا اسی طرح وہ بھی اِس کی نيکياں لے لے گا، اگر پورا حق ادا کرنے سے پہلے اُس کی نيکياں ختم ہو گئيں تو يہ شخص ان لوگوں کے گناہ اپنے سر لے لے گا، پھر اسے اوندھے منہ جہنم ميں گرا ديا جائے گا۔”
(صحیح مسلم، کتاب البر وصلۃ ، باب تحریم الظلم،الحدیث: ۶۵۷۹،ص۱۱۲۹)
(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں نے حضوررنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :”حضرت داؤد عليہ السلام نے ايک ساعت مقرر کر رکھی تھی جس ميں وہ اپنے اہل خانہ کو بيدار کر کے ارشاد فرماتے تھے :”اے آلِ داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اٹھ کر نماز پڑھو کيونکہ يہ وہ ساعت ہے جس ميں اللہ عزوجل جادوگر اور(ناحق) عشر وصول کرنے والے کے علاوہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔” (المسندللامام احمد بن حنبل، الحدیث: ۱۶۲۸۱،ج۵،ص۴۹۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں نے شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”ٹيکس لينے والاجنت ميں داخل نہ ہو گا۔”
(سنن ابی داؤد ، کتاب الخراج والفئی ۔۔۔۔۔۔الخ، باب فی السعایۃ علی الصدقۃ ، الحدیث: ۲۹۳۷،ص۱۴۴۲)
حدیثِ پاک کامفہوم:
٭۔۔۔۔۔۔حضرت يزيد بن ہارون رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں:”اس سے مراد(ناجائزطورپر) عشر وصول کرنے والا ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔حضرت امام بغوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں:”ٹيکس لينے والے سے مراد يہ ہے کہ جب تاجر اس کے پاس سے گزريں تو وہ عشرکے نا م پر ان سے ٹيکس وصول کرے۔”
٭۔۔۔۔۔۔حافظ منذری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں :”آج کل يہ لوگ عشر کے نام پر ٹيکس لينے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا ٹيکس بھی وصول کرتے ہيں جسے کسی نام سے وصول نہيں کيا جاتا بلکہ وہ حرام طريقے سے اسے حاصل کر کے اپنے پيٹ ميں آگ بھرتے ہيں، ان کی دليل ان کے رب عزوجل کے ہاں مقبول نہ ہو گی اور ان پر غضب اور درد ناک عذاب ہے۔”
(الترغیب والترہیب،کتاب الصدقات،الترغیب فی العمل علی الصدقۃ بالتقوی،تحت الحدیث:۱۱۷۸،ج۱،ص۳۸۰)
سیدنا سراج بلقينی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اس فرمانِ عالیشان کہ ”اس نے ايسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹيکس لينے والا بھی کرتا۔”
(صحیح مسلم، کتاب الحدود،باب من اعترف علی نفسہٖ بالزنیٰ، الحدیث: ۴۴۳۲،ص۹۷۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(یعنی سیدناسراج بلقینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مذکورہ حدیث پاک )کے بارے ميں سوال ہوا کہ اس سے مراد وہ ٹيکس ہے جو اشياء پر مرتب ہوتا ہے يا کوئی اور ٹيکس مراد ہے؟”تو آپ نے جواب ديا :”ٹيکس لينے والے کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اس ٹيکس وصول کرنے کے کام کا آغاز کرے اور اس کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو اُس کے گھٹيا طريقہ پر چليں اور ظاہر يہی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مراد وہ ٹيکس لينے والا ہے جس کا گناہ عظيم ہو اور اسے صاحبِ مکس بھی کہتے ہيں،نيز اس سے مراد اس کے طريقے پر چلنے والے لوگ بھی ہو سکتے ہيں، اس حديث پاک سے يہ بھی ظاہر ہوا کہ سب سے پہلے ٹيکس لينے والے کی توبہ مقبول ہے اور جو شخص برا طريقہ رائج کرے اسے اس کا گناہ اور اس طريقے پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسی صورت ميں ہو گا جبکہ وہ توبہ نہ کرے اور جب وہ توبہ کریگا تو اس کی توبہ مقبول ہو گی اور اس طريقے پر عمل کرنے والوں کا گناہ اس پرنہ ہوگا۔”
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کلاب بن اُميہ کے پاس سے گزرے، وہ بصرہ ميں ايک ٹيکس وصول کرنے والے کے پاس بيٹھے ہوئے تھے، آپ نے ان سے پوچھا :”آپ کو يہاں کس نے بٹھايا ہے؟” انہوں نے بتایا :”زياد نے مجھے اس جگہ کا عامل مقرر کيا ہے۔” تو آپ نے ارشاد فرمايا :”کيا ميں تمہيں رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سنی ہوئی حديث پاک نہ سناؤں؟” انہوں نے عرض کی،”کيوں نہيں! ضرور سنائيے۔” تو آپ نے ارشاد فرماياکہ ميں نے خاتِمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :” حضرت داؤدعليہ الصلوٰۃ و السلام کا معمول تھا کہ وہ ايک مخصوص ساعت ميں اپنے گھر والوں کو بيدار کر کے ارشاد فرماتے :”اے آلِ داؤد! اٹھ کر نماز پڑھو کيونکہ يہ وہ ساعت ہے جس ميں اللہ عزوجل ساحر اور عشر وصول کرنے والے کے علاوہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔” يہ سن کر کلاب بن اميہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سواری پر سوار ہو کر زياد کے پاس آئے اور استعفیٰ پيش کيا جو اس نے قبول کر ليا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المسندللامام احمد بن حنبل،الحدیث: ۱۶۲۸۱،ج۵،ص۴۹۲)
(5)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”آدھی رات کو آسمان کے دروازے کھول دئيے جاتے ہيں، پھر ايک منادی نداء ديتا ہے :”ہے کوئی دعا کرنے والا جس کی دعا قبول کی جائے؟ہے کوئی مانگنے والا جسے عطا کيا جائے؟ ہے کوئی مصيبت زدہ جس سے تنگی دور کی جائے؟” تو جو مسلمان بھی دعا مانگتا ہے اللہ عزوجل اس کی دعا قبول فرما ليتا ہے مگر اپنی شرمگاہ کے ذريعے کمانے والی زانیہ عورت اور ٹيکس وصول کرنے والے کی دعا قبول نہيں ہوتی۔” (المعجم الکبیر،الحدیث: ۸۳۹۱،ج۹،ص۵۹)
(6)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ميں نے شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :”اللہ عزوجل اپنی رحمت اور فضل و جود کے ذريعے مخلوق کو اپنا قرب بخشتا ہے، پھر اپنی شرمگاہ کے ذريعے کمانے والی اور ٹيکس وصول کرنے والے کے علاوہ ہر بخشش چاہنے والے کی مغفرت فرما ديتا ہے۔” (المعجم الکبیر،الحدیث: ۸۳۷۱،ج۹،ص۵۴)
(7)۔۔۔۔۔۔سیدنا ابو الخير رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں کہ امیرِمصر مسلمہ بن مخلد نے حضرت سیدنا رويفع بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹيکس وصول کرنے کا والی بننے کی پیش کش کی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا کہ ميں نے مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :”ٹيکس لينے والا جہنم ميں ہو گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المسندللامام احمد بن حنبل،حدیث رویفع بن ثابت، الحدیث: ۱۶۹۹۸،ج۶،ص۴۹)
(8)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہيں کہ رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ لیہ وآلہ وسلَّم صحراء ميں تھے کہ کسی نے پکارا:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم متوجہ ہوئے لیکن کوئی نظر نہ آيا، پھر توجہ فرمائی تو ايک ہرنی کو جال ميں بندھا ہوا پايا اس نے عرض کی،”يارسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!ميرے قريب تشريف لائيے۔” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے قريب ہو گئے اور دریافت فرمایا :”تجھے کيا حاجت ہے؟” اس نے عرض کی”اس پہاڑ پر ميرے دوبچے ہيں، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مجھے آزاد فرما دیں تا کہ ميں انہيں دودھ پلا کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس لوٹ آؤں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس سے ارشاد فرمايا :”کيا تم ايسا ہی کرو گی؟” اس نے عرض کی”اگر ميں ايسا نہ کروں تو اللہ عزوجل مجھے وہی عذاب دے جو عشر(یعنی10%ٹيکس) لينے والوں کو دے گا۔”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے آزاد کر ديا، وہ چلی گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر لوٹ آئی، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے دوبارہ باندھ ديا، اعرابی يہ ديکھ کر بڑا متاثر ہوا اور عرض گزار ہوا :”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو کوئی حاجت ہے؟” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”ہاں! اسے آزاد کردو” تو اس نے ہرنی کو آزاد کر ديااور وہ دوڑکر جاتے ہوئے پڑھ رہی تھی: ”اَشْھَدُاَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَانَّکَ رَسُوْلُ اللہِ۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۷۶۳،ج۲۳،ص۳۳۱)