islam
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت
حضرت موسیٰ علیہ السلام بچپن ہی سے فرعون کے محل میں پلے بڑھے مگر جب جوان ہو گئے تو فرعون اور اس کی قوم قبطیوں کے مظالم دیکھ کر بے زار ہو گئے اور فرعونیوں کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ اس پر فرعون اور اس کی قوم جو ”قبطی” کہلاتے تھے، آپ کے دشمن بن گئے اور آپ فرعون کا محل بلکہ اس کا شہر چھوڑ کر اطراف میں چھپ کر رہنے لگے۔ ایک دن جب شہر والے دوپہر میں قیلولہ کررہے تھے تو آپ چپکے سے شہر میں داخل ہوگئے اور اس شہر کا نام ”منف” تھا جو مصر کے حدود میں واقع ہے اور ”منف”دراصل ”مافہ” تھا جو عربی میں ”منف” ہو گیا اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ شہر ”عین الشمس” تھا اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ شہر ”حابین” تھا جو مصر سے دو کوس دور ہے۔ (تفسیرخازن،ج۳،ص۴۲۷،پ۲۰،القصص:۱۴) یا ”ام خنان”یا مصر تھا۔ (تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۵۲۲، پ۲۰، القصص: ۱۴)
جب آپ شہر میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ ایک شخص آپ کی قوم کا اسرائیلی اور ایک شخض فرعون کی قوم کا قبطی دونوں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کر کے مدد مانگی۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قبطی کو ایک گھونسہ ماردیا جس سے اس کا دم نکل گیا۔ اس پر آپ کو بہت افسوس ہوا اور آپ خدا سے استغفار کرنے لگے۔ فرعون کی قوم کے لوگوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ کسی اسرائیلی نے ہمارے ایک قبطی کو مار ڈالا ہے اس پر فرعون نے قاتل اور گواہوں کی تلاش کا حکم دیا۔
فرعونی چاروں طرف گشت کرتے پھرتے تھے۔ مگر کوئی سراغ نہیں ملتا تھا۔ رات بھر صبح تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فکر مند رہے کہ خدا جانے اس قبطی کے مارے جانے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور اس کی قوم کے لوگ کیا کریں گے؟ دوسرے روز جب موسیٰ علیہ السلام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ وہی اسرائیلی جس نے ایک دن پہلے آپ سے مدد طلب کی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑرہا تھا تو آپ نے اسرائیلی کو ڈانٹا کہ تو روز روز لوگوں سے لڑتا ہے اپنے کو بھی پریشانی میں ڈالتا ہے اور اپنے مددگاروں کو بھی فکر میں مبتلا کرتا ہے لیکن پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرائیلی پر رحم آگیا اور آپ نے چاہا کہ اس کو فرعونی کے ظلم سے بچائیں تو اسرائیلی بولا کہ اے موسیٰ! کیا تم مجھے بھی ایسے ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ کل تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا۔ کیا تم یہی چاہتے ہو کہ زمین میں سخت گیر بنو اور اصلاح چاہتے ہی نہیں۔ اتنے میں شہر کے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور یہ خبر دی کہ دربارِ فرعون کے قبطی آپس میں آپ کے قتل کا مشورہ کررہے ہیں۔ لہٰذا آپ شہر سے نکل جایئے میں آپ کا خیر خواہ ہوں تو آپ شہر سے باہر نکل گئے اور اس انتظار میں رہے کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟ پھر آپ نے یہ دعا مانگی کہ اے میرے رب! مجھے ظالموں سے بچالے۔ یہ دعا مانگ کر آپ ہجرت کر کے مدین حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے آپ کو پناہ دی اور پھر اپنی ایک صاحبزادی بی بی صفورا سے آپ کا نکاح بھی کردیا۔ (پ۲۰، القصص: ۱۵۔ ۲۳ملخصاً)
جس شخص نے شہرکے کنارے سے دوڑتے ہوئے آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ کے قتل کا منصوبہ تیار ہونے کی خبر دی اور ہجرت کا مشورہ دیا وہ فرعون کے چچا کا لڑکا تھا، جس کا نام حزقیل یا شمعون یا سمعان تھا۔ یہ خاندان فرعون میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا۔
(تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۵۲۴،پ۲۰، القصص:۲۰)
درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے علماء حق کو عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام راہ ِ تبلیغ میں کیسے کیسے حادثات سے دو چار ہوئے مگر صبر و استقامت کا دامن ان حضرات کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹا۔ یہاں تک کہ نصرتِ خداوندی نے ان حضرات کی ایسی دستگیری فرمائی کہ یہ حضرات کامیاب ہو کر رہے اور ان کے دشمنوں کو ہزیمت اور ہلاکت نصیب ہوئی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔