islam
مُعاشَرَتی اعتبار سے نکاح کی اہمیت
مُعاشَرَتی اعتبار سے نکاح کی اہمیت
نکاح صرف مذہبی طورپر ہی نہیں بلکہ مُعاشَرَتی طور پر بھی انتہائی اہمیَّت کا حامل ہے کیونکہ نَسْل کی بَقا ، نگاہ و شرمگاہ کا تحفّظ اور بدکاریوں کی کافی حد تک بندِش نکاح ہی سے وابستہ ہے اور یہ ساری چیزیں ایک حسین مُعاشَرے کیلئے کلیدی حیثیّت رکھتی ہیں ۔ علاوہ ازیں ایک حسین مُعاشَرہ مختلف خاندانوں سے مِل کر ہی بنتا ہے جن مُعاشَروں میں خاندان کا تصوُّرنہیں وہ مُعاشَرے درحقیقت درندوں کے جنگل کا نقشہ پیش کررہے ہوتے ہیں ہے لہٰذا حسین مُعاشَرے کیلئے خاندان اِکائی کی حیثیّت رکھتا ہے اور اِس خاندان کے اِرتِقائی مراحل کا سب سے پہلا مرحلہ اور اس کی بُنیاد اِزْدِواجی زندگی ہی ہے جس کا صحیح تصوُّر نکاحِ شَرْعی کے بغیر ممکن ہی نہیں کیونکہ اسلام نے نَسْل کی حفاظت اور مہذّب مُعاشَرے کی تشکیل کیلئے نکاح کی صورت میں جو خُوبصورت نظام عطا فرمایا ہے اگر اس کو نظر انداز کرکے انسان جانوروں کی طرح جہاں جی چاہے مُنہ مارتا پھرے تو مُعاشَرے میں حیوانیّت عام ہوگی ، مُہلک بیماریاں پھیلیں گی ، نَسْل ہلاک ہوگی ، نَسَب برباد ہو جائے گا ، خاندان کا وُجُود مِٹ جائے گا ،
قوموں کی قومیں ختم ہوجائیں گی ، مُعاشَرے میں حقیقی تہذیب نام کو بھی نہیں رہے گی اور سُکون نام کی چیز ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جومُمالک یا مُعاشَرے نکاح و شادی کے اسلامی نظام کی نعمت سے محروم ہیں یا جہاں فطری خواہشات کی تسکین کیلئےشادی کے اسلامی نظریات و تعلیمات کو نظر انداز کردیا گیا اور غیر شَرْعی طریقوں کو قانونی حیثیت حاصل ہونے یا سماجی طور پر غیر معیوب سمجھنے وغیرہ کی وجہ سے رَواج مِلا وہاں عجیب بے چینی اور بے کَلی پائی جاتی ہے ، طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا ہے ، خاندانی نظام تباہ ہونے کی وجہ سے نظامِ زندگی بھی دَرہَم بَرہَم ہوگیا ، وہاں کی اکثریّت ذہنی ہیجان اور دَباؤ کا شکار ہے
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
، خُودکشی ، گھریلو ناچاقی اور باہَمی نااتفاقی کی شرح اِس قدر بڑھ گئی کہ بیوی شوہر کو قتل کرنے کیلئے تیّار اور شوہر بیوی کے قتل پر آمادہ نظر آتا ہے(ایک رِپورٹ کے مطابق اُن مُمالک میں کورٹس میں پیش ہونے والے مُقدَّمات کی اکثریّت نَفْسیاتی معاملات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ) ، اسلامی تعلیمات سے محرومیوں اور نَسْل ، خاندان اور رشتوں کے معاملے میں پائی جانے والی بدعُنوانیوں کی وجہ سے انسان اپنے ماں باپ ، بہن بھائی ، نانانانی ، دادا دادی اور بارہا اپنے بیوی بچّوں سے بھی بیگانہ ہو کر رہ جاتا ہے اِن کے علاوہ چچا چچی اور ماموں خالہ وغیرہ جیسے بہت سے رشتوں کا تو کوئی تصوُّر ہی نہیں پایا جاتا الغرض ! جیسے ہمارے مُسْلِم مُعاشَروں میں نکاح کے سبب حسین خاندانی تصوُّر پایا جاتا ہے کہ ماں باپ ، بہن بھائی ، بیوی بچّے پھر بچّوں کے بچّے ، تایا ، چاچا ، ماموں ، پھوپھا وغیرہ اور اُن کی اَولادیں ہوتی ہیں ، اِن کے علاوہ اور بہت سے رشتے دار اور رشتے داروں کے رشتے دار ہوتےہیں ، سُسرالی رشتے ناتے ہوتے ہیں ، آپس میں وقتاً فوقتاً میل جول اور لین دین کے سلسلے ہوتے ہیں ، گھریلو دعوتیں ہوتی ہیں ، غموں اور خُوشیوں میں بھی ایک دوسرے کی شرکت غموں کو ہلکا کرنے اور خُوشیوں کے رنگوں کو مزید شوخ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اِس قسم کی خاندانی و مُعاشَرَتی دِلکَشی و خُوبصورتی اُن مُعاشَروں کے حصے میں نہیں جو شادی و نکاح کے اسلامی نظام اور اسلامی تہذیب سے محروم ہیں ۔