حکایت نمبر26: حق گوئی اور سمجھداری
حضرت سیدنا جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :” میں نے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا:” ایک مرتبہ حضرت سیدناسہیل بن عمرو،حضرت سیدناحارث بن ہشام، حضرت سیدناابو سفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور قریش کے دیگر بڑے بڑے سردار حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ۔جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت سیدناصہیب، حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور اسی طر ح کے کچھ اور بدری صحابہ کرام بھی ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے، جو پہلے غلامی کی زندگی گزار چکے تھے، پھر آزاد ہو گئے اوروہ دنیاوی اعتبار سے بہت غریب تھے ۔
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے انہی غریب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بلایاکیونکہ یہ پہلے آئے ہوئے تھے یہ دیکھ کہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے:” جیساآج ہم نے دیکھاہے ایسا کبھی نہیں دیکھا، غریبو ں کو تو بلا لیا گیا لیکن ہماری طرف تو جہ ہی نہ کی گئی اور ہمیں دروازے سے باہر ہی ٹھہرا دیا گیا ۔”
یہ سن کر حضرت سیدنا سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ بہت حق گواور سمجھدار تھے، کہنے لگے:” اے لوگو! خداعزوجل کی قسم! آج میں تمہارے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ رہا ہوں اگر غصہ کرنا ہی ہے تو اپنے آپ پر کرو کیونکہ تمہیں اورانہیں ایک ساتھ اسلام کی دعوت دی گئی، ان خوش نصیبوں نے حق بات قبول کرنے میں جلدی کی اور تم نے سستی سے کام لیا۔ ذرا غور توکرو ،اس وقت تم کیا کرو گے جب بر وزِ قیامت انہیں (جنت کی طر ف )جلد ی بلا لیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
اس کے بعد حضرت سیدنا سہیل بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے جھاڑے اور وہاں سے تشریف لے گئے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:” خدا عزو جل کی قسم! حضرت سید نا سہیل بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالکل حق فرمایا،اللہ عزوجل کبھی بھی اپنی اطاعت میں سبقت لینے والے بندے کو اس جیسا نہیں بناتا جو اس کی اطاعت میں سستی کرے ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)