Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
waqiyat

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پند ونصائح

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پند ونصائح

حضرت سیدنا عمر بن سیلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے حواریوں کے پاس اس حالت میں تشریف لے گئے کہ آپ علیہ السلام کے جسم انور پر اُون کا جبہ تھا اور ایک عام سی شلوار پہنی ہوئی تھی، ننگے پاؤں تھے اور سر پر بھی کوئی کپڑا وغیرہ نہیں تھا، آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بھوک کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا رنگ متغیر ہوگیا تھا اور پیاس کی شدت سے ہونٹ بالکل خشک ہوچکے تھے۔
آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو سلام کیا، اور فرمایا: ”اے بنی اسرائیل! اگر میں چاہوں تو اللہ عزوجل کے حکم سے دنیا تمام تر نعمتوں کے ساتھ میرے قدموں میں آجائے لیکن میں اس بات کو پسند نہیں کرتا۔اے بنی اسرائیل!تم دنیا کو ہمیشہ حقیر جانو، اسے کوئی وقعت نہ دو یہ خود تمہارے لئے نرم ہوجائے گی،تم دنیا کی مذمت کرو تمہارے لئے آخرت مزین ہوجائے گی، ایسا ہرگز نہ کرنا کہ تم آخرت کو پسِ پشت ڈال دو اور دنیا کی تعظیم وتوقیر کر و،بے شک دنیا کوئی قابل احترام شے نہیں کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ دنیا تو تمہیں ہر روز کسی نہ کسی نئی آفت یا نقصان کی طرف بلاتی ہے لہٰذا اس کے دھوکے سے بچو۔”
پھر فرمایا:” اے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میرا گھر کہا ں ہے؟ ”لوگوں نے کہا :”اے اللہ عزوجل کے نبی علیہ السلام! آپ کا گھر کہاں ہے؟” آپ علیہ لسلام نے فرمایا:”مساجد میری قیام گاہ ہیں، میری خوشبو اور عطریات پانی ہے، میرا بھوکا رہنا ہی میری شکم سیری ہے، میرے پاؤں میری سواری ہیں،رات کوچمکتا ہوا چاند میرا چراغ ہے، سخت سردیوں کی راتوں میں نماز پڑھنا میرا محبوب ترین عمل ہے، میرا کھانا خشک پتے وغیرہ ہیں، زمین کی گھاس اور نباتا ت میرے لئے پھلوں کی مانند ہیں، انہی سے جانوروں کو خوراک ملتی ہے، وہی سبزی اور نباتا ت میں کھالیتا ہوں، میرا لباس اُون ہے ، اللہ عزوجل سے ڈرنا میرا شعار ہے ، اور مساکین وفقراء میرے محبوب ترین رفقاء ہیں۔

میں صبح اس حالت میں کرتا ہوں کہ میرے پاس دنیاوی اشیاء میں سے کوئی شے نہیں ہوتی اور ایسی ہی حالت میں شام کرتا ہوں کہ میرے پاس کوئی دنیاوی شے نہیں ہوتی لیکن پھر بھی میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ فلاں شخص اتنا مال دار ہے۔ میں اپنی اس حالت میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت اور بہت زیادہ غنی سمجھتا ہوں (یعنی میں اس حال میں بھی اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی ہوں )۔”
آپ علیہ السلام کے بارے میں یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ آپ علیہ السلام دنیاسے بہت زیادہ بے رغبت تھے، کبھی بھی دنیوی نعمتوں کو خاطر میں نہ لاتے ، آپ علیہ السلام نے ایک ہی اُون کے جبہ میں اپنی زندگی کے دس سال گزار دیئے، جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے رسّی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا لیتے، آپ علیہ السلام نے چار سال تک اپنے مبارک بالوں میں تیل نہ لگایا، پھر چار سال بعدچربی کی چکنائی بالوں میں لگائی اور چربی کو تیل کی جگہ استعمال فرمایا۔
آپ علیہ السلام نے اللہ عزوجل پر بھروسہ کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اے بنی اسرائیل! مساجد کو لازم پکڑلو ، اور انہی میں پڑے رہو، تمہارے اصلی گھر تو تمہاری قبریں ہیں، دنیا میں تو تم ایک مہمان کی حیثیت سے ہو، عنقریب یہاں سے اپنے اصلی گھر(یعنی قبر) کی طرف چلے جاؤ گے ۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ پرندے آسمان کی طرف پر واز کرتے ہیں، نہ تو وہ کھیتی اگاتے ہیں، نہ ہی فصل کا ٹتے ہیں لیکن پھر بھی تمام جہانوں کا پروردگار عزوجل انہیں رزق عطا فرماتا ہے۔ اے لوگو ! جَو کی روٹی کھاکر بسر اوقات کرو ، اور زمین کے نباتا ت اور سبزی وغیرہ کھاکر پیٹ بھرلیا کرو۔ اگر تم اتنی ہی دنیا پر قناعت کر لوتب بھی تم اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادانہیں کرسکتے اور اگر تم کثیر نعمتوں کے طلبگار بنو گے اور ان سے فائدہ اٹھاؤ گے تو پھر کس طرح ان نعمتوں کا شکر ادا کرو گے ۔”
ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا:” اگر تم چاہتے ہوکہ میں تمہیں اپنا دوست اوررفیق رکھوں تو تم دنیا داروں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلو، مالداروں سے بالکل جدا رہو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ نہ رکھوں گااور تمہارارفیق بھی نہ بنوں گا۔بے شک تمہیں اپنے مقصد میں کامیابی اسی وقت ہوگی جب تم اپنی خواہشات کو ترک کردو گے ، تم اس وقت تک اپنی پسندیدہ چیز کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم ناپسندیدہ چیزوں پرصبر نہ کرو،اور خبردار! بدنگاہی سے ہمیشہ بچتے رہنا کیونکہ بد نگاہی کی وجہ سے دل میں شہوت ابھرتی ہے۔
خوشخبری ہے اس عظیم شخص کے لئے جس کی نظر اپنے دل پر ہوتی ہے،وہ سوچ سمجھ کر نظر اٹھاتا ہے اور اپنے دل کو نظر کے تا بع نہیں کرتابلکہ نظر کو دل کے تابع رکھتا ہے۔ افسوس ہے اس شخص پر جو دنیا کے لئے اتنی مشقتیں بر داشت کرتاہے حالانکہ یہ بے وفا دنیا اسے چھوڑ کر چلی جائے گی اور موت اسے دنیا سے جدا کردے گی،کتنا بے وقوف ہے وہ شخص جو دنیا کی فکر میں سر گرداں ہے
اور دنیا اسے دھوکا دیتی جارہی ہے وہ دنیا پر اعتما د کرتاہے اور دنیا اسے دھوکا دیتی ہے اور اس سے بے وفائی کرتی ہے۔
افسوس ہے ان لوگوں پر جو دنیا کے دھوکے میں پھنسے ہوئے ہیں ۔عنقریب انہیں وہ چیز (یعنی موت ) پہنچنے والی ہے جسے وہ ناپسند کرتے ہیں اور جس دن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ دن (یعنی قیامت کادن)ان سے بہت قریب ہے۔ جس چیز کووہ پسند کرتے ہیں اور جو محبوب اشیاء ان کے پاس ہیں عنقریب وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اس دارِفانی سے رخصت ہوجائیں گے ۔
اے لوگو! تم فضول گوئی سے بچتے رہو، کبھی بھی ذکر اللہ عزوجل کے علاوہ اپنی زبان سے کوئی لفظ نہ نکالو، ورنہ تمہارے دل سخت ہوجائیں گے، بے شک دل نرم ہوتے ہیں لیکن فضول گوئی انہیں سخت کردیتی ہے۔
اور جس شخص کا دل سخت ہوجائے وہ اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے(یعنی اگر تم اللہ عزوجل کی رحمت کے امید وار ہو تو اپنے دلوں کو سختی سے بچاؤ)
(اے ہمارے پاک پروردگار عزوجل !ہمیں قساوت قلبی کی بیماری سے بچا ،اور ہمارے دلوں کو اپنی یاد سے معمور رکھ، فضول گوئی سے ہماری حفاظت فرما اورہر وقت اپنا ذکر کرنے والی زبان عطا فرما)
میں بے کار باتوں سے بچ کر ہمیشہ
کروں تیری حمدو ثنا یا الٰہی عزوجل!

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!