حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ کریمہ
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ کریمہ
حضرت سیدنا صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت سیدنامعاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت سیدنا ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہسے فرمایاـ: ” میرے سامنے حضرت سیدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کے اوصاف بیان کرو۔”
حضرت سیدنا ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :” کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اس سے معاف نہ رکھیں گے ؟” ارشاد فرمایا: ”نہیں،بلکہ تم ان کے اوصاف بیان کرو۔” حضرت سیدنا ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر عرض کی:” کیا مجھے اس سے عا فیت نہ دیں گے ؟” ارشاد فرمایا:” نہیں ،بلکہ تمہیں ان کے اوصاف ضرور بیان کرنا ہوں گے۔” حضرت سیدناضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ” اچھا! اگر آپ ان کے اوصاف سننا ہی چاہتے ہیں تو سنئے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم کے علم وعرفان کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ عزوجل کے معاملہ میں اور اس کے دین کی حمایت میں مضبوط ارادے رکھتے ، فیصلہ کن بات کرتے اور انتہائی عدل و انصاف سے کام لیتے ، ان کی ذات منبعِ علم وحکمت تھی ، جب کلام کرتے تو دہنِ مبارک سے حکمت ودانائی کے پھول جھڑتے ، دنیا اور اسی کی رنگینیوں سے وحشت کھاتے ، رات کے اندھیروں میں (عبادت الٰہی عزوجل) سے انہیں سرور حاصل ہوتا، اللہ عزوجل کی قسم ! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ رونے والے ، دور اندیش اور غمزدہ تھے ، اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ، کھردرا اور موٹا لباس پسند فرماتے اور موٹی روٹی تناول فرماتے ۔
اللہ عزوجل کی قسم ! ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ ہم میں سے ہرایک ان سے کلام کرتے ہو ئے ڈرتا تھا ،حالانکہ جب ہم ان کے پاس جاتے تو وہ خود ملنے میں پہل کرتے اور جب ہم سوال کرتے تو جواب دیتے ، اور ہماری دعوت قبول فرماتے ۔
اللہ عزوجل کی قسم ! ان کا رعب ودبدبہ ایسا تھا کہ ہم ان کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود ان کے سامنے کلام کی جرأت نہ رکھتے ۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسکراتے تو دندانِ مبارک ایسے معلوم ہوتے جیسے موتیوں کی لڑی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینداروں کی تعظیم کرتے ، مسکینوں سے محبت کرتے، کسی طا قتوریا صاحب ثروت کو اس کی باطل آرزو میں امید نہ دلاتے ، کو ئی بھی کمزور شخص آپ کی عدالت سے مایوس نہ ہوتابلکہ اسے امید ہوتی کہ مجھے یہا ں انصاف ضرور ملے گا ۔
اللہ عزوجل کی قسم!میں نے انہیں دیکھا کہ جب رات اپنے پر پھیلا دیتی ، تو آپ اپنی داڑھی مبارک کو پکڑ کر زارو قطا ر
روتے اور زخمی شخص کی طر ح تڑپتے ۔
میں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :” اے دنیا ! کیا تو نے مجھ سے منہ موڑلیا ہے یا ابھی بھی تو مجھ پر مشتاق ہے ؟ اے دھوکے باز دنیا! جا، تو کسی او ر کو دھوکہ دے ،میں تجھے تین طلاقیں دے چکاہوں اب رجوع ہر گز نہیں ۔ تیری عمر بہت کم ہے اور تیری آسائشیں اور نعمتیں انتہائی حقیر ہیں، لیکن تیرے نقصانا ت بہت زیادہ ہیں ، ہائے !سفرِ (آخرت) بہت طویل ہے ،زادِ راہ بہت قلیل اور راستہ انتہائی خطرناک اورپُرپیچ ہے ۔
یہ سن کر حضرت سیدنا امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی آنکھوں سے سیلِ اشک رو اں ہوگئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اور وہاں موجود لوگ بھی زار وقطارونے لگے ۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:” اللہ عزوجل ابو الحسن حضرت سیدنا علی المرتضٰے شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہُ الْکَرِیْم پررحم فرمائے ، خدا عزوجل کی قسم! وہ ایسے ہی تھے ۔
پھر حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :” اے ضرار رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ان (کی جدائی کا غم) تم پر کیسا ہے؟عرض کی : ” اس عورت کے غم کی طر ح جس کی گود میں اس کے بچے کو ذبح کر دیا گیا ہو ۔” جس طرح اس عورت کے آنسونہیں تھمتے اور نہ ہی غم کم ہوتا ہے ۔ اسی طرح میری بھی ایسی ہی حالت ہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)