حکایت نمبر31: عبادت گزاراورصاحبِ کرامت مجاہد
حضرت سیدنا حماد بن جعفر بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں:”مجھے میرے والد نے بتایاکہ ایک مرتبہ ہمارا لشکر جہاد کے لئے” کابُل ”کی طر ف گیا۔ ہمارے ساتھ حضرت سیدناصلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، رات کے وقت لشکر نے ایک جگہ قیام کیا، میں نے دل میں ٹھان لی کہ آج میں حضرت سیدنا صلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخوب غورسے دیکھو ں گاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس طر ح عبادت کرتے ہیں کیونکہ لوگو ں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت کاخوب چرچاہے لہٰذا میں ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھی اور پھر لیٹ گئے اور لوگو ں کے سونے کا انتظار کرنے لگے ، جب لوگ خواب خرگوش کے مزے لینے لگے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دم اُٹھے اور قریبی جنگل کی طر ف چل دیئے ۔ میں بھی چپکے چپکے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے چل دیا ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ،یکایک ایک خونحوار شیر نمودار ہوا اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طر ف بڑھنے لگا۔ میں بہت خوفزدہ ہواا ور درخت پر چڑھ گیا ، لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت پر قربان جاؤں، نہ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر سے ڈرے، نہ ہی اس کی طر ف توجہ دی بلکہ نماز ہی میں مگن رہے ، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سجدے میں گئے تو میں نے گمان کیا کہ اب شیر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کریگا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چیر پھاڑدے گا لیکن شیر زمین پر بیٹھ گیا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اطمینان سے نماز مکمل کی اور سلام پھیر نے کے بعد شیر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے جنگلی درندے!جاکسی دوسری جگہ اپنا رزق تلاش کر ۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتنا فرماناتھا کہ شیر اُلٹے قدموں چل پڑا۔ وہ ایسی خوفناک آواز سے دھاڑ رہا
تھا کہ لگتا تھا کہ پہاڑ بھی اس کی دھاڑ سے پھٹ جائیں گے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر نماز میں مشغول ہوگئے ،طلوعِ فجر سے کچھ دیر قبل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھ گئے اور ایسے پاکیزہ الفاظ میں اللہ ربُّ العزَّت کی حمد کی کہ میں نے کبھی حمدکے ایسے کلمات نہ سنے تھے ، مگر جس کو اللہ عزوجل چاہے تو فیق عطا فرمائے ،وہ جس پر چاہے اپنا خاص کرم کرے ۔
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے اور یوں دعا کرنے لگے :” اے میرے پروردگارعزوجل! میں تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ مجھے جہنم کی آگ سے بچا، میں اس قابل کہا ں کہ تجھ سے جنت طلب کروں۔”
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس لشکر کی طر ف لوٹ آئے ۔ اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بالکل تر و تازہ تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری رات بستر پر گزاری ہو ، اور مجھ پر جو تھکاوٹ اور سستی طاری تھی اسے اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ۔
پھر لشکر نے دشمن کی طر ف پیش قدمی کی اور جب دشمن کی سرحد کے قریب پہنچے تو امیر لشکر نے اعلان کیا کہ کوئی سوار اپنی سواری پر بھاری سامان نہ چھوڑے، تمام مجاہدین اپنی اپنی سواریاں ہلکی کرلیں۔
اتفاقی بات تھی کہ حضرت سیدنا صلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خچر سامان سمیت کہیں بھاگ گیا ۔جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہوئی توآپ نے نماز پڑھنا شرو ع کردی۔ لوگو ں نے کہا:” حضور! سارا لشکر جاچکاہے اور آپ ابھی یہیں موجود ہیں۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اس طر ح بارگاہ خداوندی عزوجل میں عرض گزار ہوئے:”اے میرے پروردگار عزوجل! تجھے تیری عزت وجلال کی قسم! میری سواری مجھے سامان سمیت لوٹا دے۔ ”ابھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعا سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سواری سامان سمیت سامنے موجود تھی۔ پھر جب دشمنوں سے جنگ چھڑی اوردعوتِ مبارزت دی گئی تو ہمارے لشکر کی طر ف سے حضرت سیدنا صلہ بن اشیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدنا ہشام بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ میدانِ جنگ میں اترے اور ایسے جنگی جو ہر دکھائے کہ جس طر ف جاتے دشمنوں کی لاشیں بکھیردیتے،جو دشمن سامنے آتا اسے واصلِ جہنم کر دیتے ، نیز ہ زنی اورشمشیر زنی کے ایسے جوہر دکھائے کہ دشمنوں کے پاؤ ں اکھڑ گئے ، ان کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ کہنے لگے : ”جب عرب کے دو شہسواروں نے ہمار ا یہ حال کردیا تو اگر پورا عربی لشکر ہم سے لڑا تو ہمارا کیا انجام ہوگا ،بہتری اسی میں ہے کہ ہم مسلمانوں سے صلح کرلیں ۔چنانچہ انہوں نے ہم سے جزیہ کی شرط پرصلح کرلی اور مسلمانوں کا لشکر فتح یا ب ہو کر واپس پلٹا ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)