Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

تقدیرکابیان

سوال: تقدیر کسے کہتے ہیں ؟
جواب:دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور بندے جو کچھ کرتے ہیں نیکی ،بدی وہ سب اللّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ  کے علمِ اَزَلی کے مطابق ہوتا ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ہے، اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔
ہر بھلائی برائی اس نے اپنے علمِ اَزَلی کے مُوافق مُقدّر فرمادی ہے جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی  کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اس کے لئے  بھلائی لکھتا تو اس کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کردیا تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صَلَّى اللهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم نے اس امت کا مجوس بتایا ہے۔(1)
سوال:تقدیر کی کتنی قسمیں ہیں کیا تقدیر بدل بھی جاتی ہے ؟
جواب:تین قسمیں ہیں (۱) مُبْرَمِ حقیقی (۲) مُعلّقِ محض (۳) معلقِ شبیہ بہ مُبْرَم
پہلی قسم یعنی مُبْرَمِ حقیقی وہ ہوتی ہے جو علمِ الٰہی میں کسی شے پر مُعلّق نہیں۔
دوسری قسم یعنی مُعلّقِ محض وہ ہوتی ہے جس کا ملائکہ کے صحیفوں میں کسی شے پر مُعلّق ہونا ظاہر فرمادیا گیا ہو۔
تیسری قسم یعنی مُعلّقِ شبیہ بہ مُبْرَم وہ ہوتی ہے جس کا ملائکہ کے صحیفوں میں مُعلّق ہونا ظاہر نہ فرمایا گیا ہو مگر علمِ الٰہی میں  کسی شے پرمُعلّق ہو۔
ان میں سے پہلی قسم مُبْرَمِ حقیقی کا بدلنا ناممکن ہے اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب بندے اکابرین بھی اتفاقاً اس میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں اس خیال سے روک دیا جاتا ہے
جب قومِ لوط پر فرشتے عذاب لے کر آئے تھے تو سیّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ  عَـلَـيْهِ  الصَّلٰوۃُ  وَ السَّلَام نے  ان کافروں کے بارے میں اتنی کوشش کی کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے اللّٰہ  تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ (یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوْمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾)(1)’’ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔‘‘
    یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزّت میں کوئی عزّت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عَزَّ  وَجَلَّ اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ’’ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں‘‘، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صَلَّى اللهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم نے ایک آواز سُنی کہ کوئی شخص اﷲ  عَزَّ  وَجَلَّ کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے،حضورِ اقدس صَلَّى اللهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم نے جبریلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ عرض کی: موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، فرمایا: کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟ عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ جب آیۂ کریمہ(وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿۵﴾)(2) نازل ہوئی کہ ’’بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔‘‘تو    حضور سیّدُالمحبوبین صَلَّى اللهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’اِذاً لاَّ اَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ اُمَّتِیْ فِی النَّارِ‘‘(3)
’’ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔‘‘
یہ تو شانیں بہت رفیع (بلند)ہیں، جن پر رفعت عزّت وجاہت ختم ہے۔ صَلَوَاتُ اﷲِ تَعَالیٰ وَ سَلاَمُہٗ عَلَیْہِم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچّہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ’’روزِ قیامت اﷲ عَزَّ  وَجَلَّ سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:

’’اَيُّها السِّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہٗ ‘‘(1)
’’اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔‘‘
    خیر یہ تو جملہ مُعْتَرِضَہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطینُ الاِنْس کی خباثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیلُ اﷲ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس میں جھگڑے تو اُنہیں ارشاد ہوا:
’’اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو … بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔‘‘
    اور وہ جو(دوسری قسم یعنی) ظاہر قضائے مُعلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو (تیسری قسم یعنی مُعلّق شبیہ بہ مُبْرَم) متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحُفِ ملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدُنا غوثِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالیٰ عَنْہُ اسی کو فرماتے ہیں: ’’میں  قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں‘‘ (1)اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:’’اِنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ‘‘(2) ’’بیشک دُعا قضائے مُبرَم کو ٹال دیتی ہے۔‘‘(3)
سوال:کیا تقدیر کے موافق کام کرنے پر آدمی مجبور ہوتا ہے اس بارے میں عقیدہ کیا رکھنا چاہئے؟

جواب:نہیں۔ بندہ کو اللّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ نے نیکی ،بدی کے کرنے پر اختیار دیا ہے۔ وہ اپنے اختیار سے جو کچھ کرتا ہے وہ سب اللّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ کے یہاں لکھا ہوا ہےجیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ   قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ہلاکت ہے، صدیقِ اکبر وفاروقِ اعظمرَضِیَ اﷲُ تَعَالیٰ عَنْھُمَاکواس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمایا گیا تھا۔ تو ہم اور آپ کس گنتی میں ہیں …! اتنا سمجھ لیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو  پتھر  اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار (یعنی ایک طرح کا  محدوداختیار ) دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیّا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہوتا ہے۔اس سچے عقیدہ کو یاد رکھا جائے اور دل میں بسا لیا جائے اسی پر قائم رہا جائے غیر ضروری غور و خوض سے باز رہا جائے تو وسوسوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے،یہ  عقیدہ بھی یاد رہے کہ اپنے آپ کو بالکل مجبور سمجھنا یا بالکل  مختار سمجھنا دونوں گمراہی کی بات ہیں۔(1)
سوال:بعض لوگ بُرا کام کرکے کہتے ہیں کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:بُراکام کرکے تقدیر کی طرف نسبت کرنااور مشیّتِ الٰہی کے حوالے کرنا بہت بُری بات ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے مِنْ جَانِبِ اللّٰہِ (اللّٰہ کی طرف سے) کہے اور جو بُرائی سَرزَدْ ہواسے شامت ِ نفس (اپنا قصور) تصوّر کرے۔(2)
٭…٭…٭…٭…٭…٭
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
۔۔۔ بہار شریعت،حصہ۱،۱/۱۱
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
… پ١٢،ھود:٧٤
2… پ٣٠،الضحٰى:٥
3 … تفسیر کبیر، پ۳۰، الضحی: تحت الآیة: ۵، ۱۱/۱۹۴
… ابن ماجہ،کتاب الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، ۲/۲۷۳، حدیث: ۱۶۰۸
… مکتوبات امام ربانی، مکتوب نمبر۲۱۷،۱/۱۲۳۔۱۲۴
2 …الفردوس بمأثور الخطاب،۵/۳۶۴،حدیث:۸۴۴۸، بتغیرٍ
3… بہار شریعت ،حصہ۱،۱/۱۲۔ ۱۶، بتغیرٍ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
 … بہار شریعت ،حصہ۱،۱/۱۸ ، بتغیرٍ
2 … بہار شریعت ،حصہ۱،۱/۱۹

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!